Wednesday 14 June 2017

Political Iftar Parties سیاسی افطار پارٹیاں رمضان کا مہینہ عبادت صبر اور قناعت سے منسوب ہے۔۔ایک طرف جہاں اس ماہ میں مسلمان روزوں کاپورا اہتمام کرتے ہیں۔۔تو وہیں ۔مختلف تنظیمیں ۔سیاسی پارٹیاں ۔۔ وزرا اور ملک کی اہم شخصیات بڑی بڑی سیاسی افطار پارٹیوں کا اہتمام کرتی ہیں۔۔۔سیاسی افطار پارٹیوں میں ملک کی تقریبا ں تمام پارٹیاں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔۔۔خاص کر دہلی کے سیاسی حلقوں میں افطار پارٹیوں کا خوب اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ افطار پارٹیاں سیاسی نقطہء نظر سےبہت اہم مانی جاتی ہیں۔غالباً سیاسی افطار پارٹی کا آغاز اندرا گاندھی کے دور میں ہوا۔ وہ اپنی رہائش گاہ پرافطار پارٹی کا اہتمام کرتی تھیں۔اس افطار پارٹی میں بڑے بڑے رہنماؤں، صحافیوں اور اہم مسلم شحضیات کو مدعو کیا جاتا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد اپنا ذاتی اثرو رسوخ بڑھانا اوراہم شخصیات کو کانگریس سے قریب لانا تھا۔اٹل بہاری واجپئی کے دور میں بھی افطار پارٹی ایک باضابطہ سالانہ تقریب بن گئی تھی ۔وزیر اعظم واجپئی اپنی رہائش گاہ پر بہت شاندار افطار پارٹی کا اہتمام کرتے تھے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے اعلیٰ رہنماؤں کےعلاوہ ، اہم شخصیات، عرب ممالک کے سفیر ، مذہبی رہنما اور سرکردہ صحافی وغیرہ مدعو کیےجاتےتھے۔حزب اختلاف کی طرف سے بھی افطار پارٹیاں دی جاتی تھیں۔ لالو پرساد ، ملائم سنگھ یادو اور رام ولاس پاسوان جیسے کئی رہنما بھی افطار پارٹیوں میں پیش پیش رہا کرتے تھے ۔چونکہ وہ دور مخلوط حکومتوں کا تھا۔ سیاسی اتحاد بنتے اوربگڑتے رہتے تھے، کس پارٹی میں کون مدعو کیا گیا اور کس نےکس پارٹی میں شرکت کی، اس کی بنیاد پر نئے محاذوں کی تشکیل کی حکمت عملی طے ہوا کرتی تھی۔۔۔اب یہ افطار پارٹیاں سیاسی اعتبار سے تھوڑا بدل رہیں ہیں۔۔۔جہاں ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی کو رمضان یا مسلمانوں میں ایسی کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے اس لیے انھوں نے نہ صرف افطار پارٹی دینا بند کر دیا ہے بلکہ وہ اس میں شریک بھی نہیں ہوتے۔یہاں تک کہ مودی صدر جمہوریہ کی افطار پارٹی ميں بھی شرکت نہیں کرتے۔۔۔مودی کی راہ پر چلتے ہوئے اس بار یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے افطار پارٹی کا اہتمام کرنے سے صاف طور پر انکار کردیا ہے۔یوگی کا کہنا ہے کہ میں پکا ہندو ہوں اس لئے اب سے لکھنؤ کے پانچ کالی داس مارگ یعنی سی ایم ہاؤس میں افطار پارٹی کا اہتمام نہیں ہوگا۔۔یعنی یوگی اس معاملے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی راہ پر ہیں۔۔۔۔لیکن ان سب کے بیچ وی ایچ پی نے سیاسی افطار پارٹیوں پر بڑا حملہ کیا ہے۔وی ایچ پی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چونکہ ملک کے ہندو اب متحد ہوگئے ہیں۔۔۔اس لئے ملک میں سیاسی پارٹیوں کا جہاں رجحان کم ہوا ہےتو وہیں ۸۰فیصد جماعتوں نے افطار پارٹیاں ختم کر دی ہیں ۔۔۔لیکن۔۔دوسری جانب سکے کا دوسرا پہلو ب بھی ہے ۔اس بار ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اپنی افطار پارٹی کی شروعات کی ہے۔۔اور اس کا کہنا ہے کہ وہ ملک بھر میں ایسی افطار پارٹیاں دے گی جہاں گائے کے دودھ سے روزہ کھولا جائے گا۔۔۔تنظیم نے اتر پردیش کے کئی ضلعوں میں افطار پارٹی کا اہتمام کیا ہے۔۔۔۔یہی نہیں مہاراشٹر کے کئی اضلاع میں بی جے پی کی بڑی بڑی افطار پارٹیاں طے ہیں۔۔۔جن میں ریاست کے وزیر اعلیٰ فڑنویس بھی شرکت کریں گے۔۔ان سب کے بیچ بڑا سوال یہ ہے کہ جہاں ایک طرف آر ایس ایس کی جانب سے ملک میں افطار پارٹیوں کا اہتما م کیا جا رہا ہے۔۔تووہیں وی ایچ پی کے سر افطار پارٹی کو لیکر بلکل الگ ہیں۔۔۔۔ایک طرف جہاں بی جے پی اقتدار والی کئی ریاستوں میں افطار پارٹیوں کا پارٹی کی جانب سے اہتمام کیا جا رہا ہے۔۔تو وہیں وزیر اعظم مودی اور یوگی کا ان افطارپارٹیوں سے بچنا بھی کئی سوال کھڑے کرتا ہے۔۔۔یعنی ۔۔بی جے پی بھی دوسری جماعتوں کی طرح ان افطارپراٹیوں میں اپنا نفع نقصان دیکھ رہی ہے

5 comments: