Friday 8 December 2017

Love Jihad Killing

 نفرت کی آگ کب بجھے گی؟


دوہزار چودہ کے بعد ملک میں حالات بڑی تیزی سے بدلے ہیں۔خاص کر اقلیت اور اکثریت کے بیچ ملک میں جو ایک لکیر سی کھنچی ہے۔ اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی ۔حالیہ برسوں میں ملک میں جس طرح سے مسلمانوں کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ اس پر اب سوال اٹھنا لازمی ہے۔ کبھی گؤرکشا کے نام پر۔ کبھی لو جہاد تو کبھی بیف کے نام پر بے گناہ  مسلمانوں کودانستہ  طورپر نشانہ بنایا جارہا ہے۔کچھ معاملوں میں توانھیں موت کے گھاٹ تک اتاردیا گیا ۔ایک عرصے  سے سیکڑوں بے قصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا جاتا رہا  ہے۔ جن میں بڑی تعداد میں بے قصور ثابت ہوئے ہیں ۔۔اور اب تو  ملک کی سیاسی جماعتیں اور ملک کا سیاسی نظام دانستہ طور پر مسلمانوں کے ساتھ  امتیازی سلوک کررہا ہے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ  مسلمانوں پر حملوں کے لیے بہانے تلاشے گئے ہیں ۔جیسے دادری قتل۔  کیرالہ ہاؤس کے باورچی خانے پر چھاپہ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے میس پر چھاپہ۔  راجستھان کی میواڑ یونیورسٹی میں کشمیری طلبہ کی پٹائی ۔جھارکھنڈ میں  بچہ چوری کے نام پر قتل کاسلسلہ ۔الور میں بے گناہوں کا قتل اور ٹرین میں جنید سے درندگی ۔یہ واقعات الگ الگ ضروررونما ہوئے ہیں لیکن ان کو جوڑ کرایک بڑی  تصویربنتی ہے۔جس میں جنونیت کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ ہجوم کے تشددکے واقعات میں شدید اضافہ افسوس ناک ہے۔ جس بہیمانہ ڈھنگ سے  حالیہ دنوں ٹرین میں مولویوں کی پٹائی کی گئی  اور راجستھان کے راجسمند میں مبینہ  لو جہاد کے نام پر سر عام ایک شخص کو مار  کر شعلوں کے حوالے کر دیا گیا ۔اس سے شدید نفرت کا اظہار ہوتا ہے۔ گذشتہ ایک سال سے گائے کے نام پر کئی  پرتشدد واقعات اورتنازعات سامنے آ چکے ہیں۔ یعنی ہندوستان میں ایک گائے ہونا مسلمان ہونے سے زیادہ تحفظ کی علامت ہے۔دراصل  ملک میں سیاسی لیڈروں کی بیان بازی آگ میں گھی کا کام کر رہی ہے۔کچھ لیڈر تو ۔اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اپنی سیاست چمکانے  کا موقع نہیں چوکتے۔۔۔جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عدالت کے سامنے تمام حقائق اجاگر ہوں ۔اور انہی کی بنیاد پر قصورواروں کو سزا ملے۔اور بے قصور افراد کو راحت ملے اورماورائے عدالت قتل کا سلسلہ ختم ہو۔۔۔۔لیکن یہ تبھی  ممکن ہے۔جب لوگ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں اور عدالت کو معاملے کا نپٹارا کرنے دیں۔تاکہ قانون کی بالا دستی  قائم رہے۔مسلمانوں کے ایشوز کو لیکر کئی بار مسلم وفود نے وزیر اعظم سے ملاقات کی ہے ۔ لیکن وزیر اعظم نے بھی صرف  زبانی جمع خرچ ہی کی ہے ۔کیا واقعی سرکار مسلمانوں کے مسائل کو لے کر سنجیدہ ہے یا اس کے لیے مسلمان ایک مسئلہ ہیں۔۔ سوال وزیر اعظم کی خاموشی پر بھی اٹھتا ہے ‘وہ اکثر بروقت نہیں بولتے اوربے وقت بولنے کا کوئی ااثر نہیں ہوتا۔ گئو رکشکوں کے تعلق سے ان کے سخت الفاظ کا بھی کوئی نوٹس  نانہاد گئو رکشکوں نے نہیں لیا۔ سب کا ساتھ سب کا  وکاس کے نعرے سے شروع ہوا بی جے پی کا مرکز میں سفرسماجی سطح پرمنتشرنظر آتا ہے۔عدم اعتمادی۔اندیشہ۔خوف اوربے چینی ا ور بے اطمینانی سماجی تانے کے لیے دیمک کی طرح ہیں۔ان کا سدباب  لازمی ہے۔کیا بیرون ممالک  مسلمانوں کے مسائل پر بولنے والے وزیر اعظم ۔ملک کے اندر  ہونے والی  زیادتیوں  پر  کان دھریں گے ؟

YouTube Link
https://www.youtube.com/watch?v=BRsMisUzdqA

No comments:

Post a Comment