Thursday 28 December 2017

Monday 11 December 2017

Saudi Arabia Lifts Ban On Cinemas

سعودی عرب میں کھلیں گے سنیما گھر 

سعودی عرب میں جلد ہی سنیما گھروں کی شروعات ہونے والی ہے۔ جی ہاں ۔سعودی  کی حکومت کا کہنا ہے آئندہ سال کے آغاز میں عوامی سینیما گھروں پر عائد پابندی ختم کر دی جائے گی۔سعودی وزیر برائے ثقافت و اطلاعات عواد بن صالح العوّاد کا کہنا ہے کہ ریگولیٹرز نئے سینیما گھروں کو لائسنس جاری کرنے کے طریقہ کار پر غور کر رہے ہیں۔وزارت ثقافت و اطلاعات کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں عواد بن صالح العوّاد نے کہا ہے کہ ’امید ہے کہ آئندہ سال مارچ 2018 میں پہلا سینیما کھل جائے گا۔‘اس فیصلے کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے ملک میں شہریوں کے لیے تفریح اور ملکی معیشت کی بہتری کے لیے فراہم کیے جانے والے مواقعوں کی سلسلے میں شروع کی گئی مہم کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔خیال رہے کہ رواں سال کے آغاز میں سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دی گئی تھی اور اگلے سال سے خواتین کے کھیلوں کے سٹیڈیمز میں جانے کی اجازت دینے کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزارت ثقافت و اطلاعات کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں بتایا گیا ہے کہ 35 سال کے بعد پہلی مرتبہ ملک میں کمرشل سینیما گھروں کو کام کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔یان کے مطابق حکومت سینیما گھروں کو فوری لائسنس کے اجرا کرنے کا کام جلد شروع کرے گی۔خیال رہے کہ سعودی ولیِ عہد محمد بن سلمان نے ملک میں کئی اصلاحات کی ہیں۔ اُن کے ویژن 2030 منصوبے کے تحت خواتین کو معاشرے میں اہم کردار، روزگار کی فراہمی اور سعودی طرز زندگی میں بہتری کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ حالیہ مہینوں میں سعودی عرب میں مختلف کنسرٹس منعقد ہوئے ہیں اور ساتھ ایک مشہور ثقافتی میلہ 'کامک کون' کا بھی انعقاد ہوا ہے۔گذشتہ دنوں لبنانی گلوکارہ حبا تواجی کی دارالحکومت ریاض کے کنگ فہد ثقافتی مرکز میں پرفارمنس پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔اس کے علاوہ ملک کا قومی دن منانے کی تقریب کو مخلوط رکھا گیا تھا جس میں پہلی دفعہ سعودی عرب کی سڑکوں پر لوگوں نے الیکٹرانک طرز کی موسیقی پر سڑکوں پر رقص کیا تھا۔پچھلے ہفتے معروف یونانی موسیقار یانی نے بھی ریاض میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا جہاں تقریب میں مخلوط ماحول تھا اور گانے گانے والوں میں خواتین بھی شامل تھیں۔سعودی عرب میں 1980ء کی دہائی میں فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کر دی گئی تھی

Rahul Gandhi elected Congress president

راہل گاندھی کوملی  کانگریس کی کمان

آج کا دن کانگریس کے لئے تاریخی ہے۔گرانڈ اولڈ پارٹی کی کمان نوجوان ہاتھوں میں آئی ہے۔ راہل گاندھی  اب پارٹی صدر بن گئے ہیں ۔ تقریبا  بیس سال  تک راہل گاندھی کی ماں یعنی سونیا گاندھی  پارٹی صدر رہیں ۔ سونیا کی طبیعت ناساز ہونے کے سبب  اب پارٹی کی باگ ڈور راہل کو سونپی گئی ہے۔ راہل گاندھی نے سال دوہزار چار میں سیاست میں باقاعدہ قدم رکھا تھا۔ اور کم و بیش   دس برس  بعد یعنی دوہزار تیرہ میں انھیں  پارٹی کا نائب صدر بنایا گیا تھا۔موجودہ  وقت کانگریس پارٹی کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک طرف پارٹی  شکست اور مشکلات سے دوچار ہے۔ تو دوسری طرف پارٹی میں سینئر لیڈران کے درمیان راہل کا تال میل بیٹھ پانا بھی ایک چیلنج ہے۔کانگریس پارٹی جو ایک وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہوا کرتی تھی۔ اب سمٹ کر چند ریاستوں میں محدود ہوگئی ہے۔ دو ہزار انیس لوک سبھا انتخابات سے پہلے ۔ گجرات چناؤ بھی راہل کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں ہے۔اب    راہل کانگریس کی ڈرائیونگ  سیٹ  پر ہیں ۔ایسے میں  اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا راہل کا قد بدل جانے سے  کانگریس اور ملک کی سیاست میں بھی بدلاؤ آئے گا۔حالاں کہ راہل کے پارٹی صدر بننے کی ٹائمنگ بھی بڑی دلچسپ ہے۔ایک طرف گجرات انتخابات ۔ جہاں کانگریس کا وقار داؤں پر ہے۔کانگریس گجرات کے سہارے ملک کی سیاست میں بدلاؤ کی امید لگائے ہوئیہے۔ایسے میں قیادت میں تبدیلی کا فیصلہ دلچسپ لگ رہا ہے۔کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ کانگریس کا راہل کو صدر بنانے کا فیصلہ سیاسی ہے۔ کیوں کہ اگر اب کانگریس ۔ گجرات انتخابات ہار جاتی ہے۔ تو آگے راہل کو صدر بنانا مشکل ہوجائے گا۔ اور اگر کانگریس گجرات میں جیت جاتی ہے۔ تو اس کا پورا سہرا راہل گاندھی کو ہی جا ئے گا۔گجرات چناؤ میں راہل نے پارٹی کی شبیہ بھی بدلنے کی کوشش کی ہے۔ راہل پہلی بار مندر مندر جا رہے ہیں ۔ پہلی بار پارٹی کا جھکاؤ اکثریت کی جانب ہے۔یعنی راہل کی قیادت میں پارٹی اپنی شبیہ بھی بدلنے کی کوشش کر رہی ہے۔اسکے علاوہ یہ بھی کسی سے چھپا نہیں ہے کہ راہل کی تقاریر کی دھار ان دنوں کافی تیز ہوئی ہے۔ اور اب جب راہل پارٹی کی قیادت کریں گے۔ تو ایسے میں وہ اپنے حریفوں کو معقول جواب دے پائیں گے۔لیکن ۔۔ان سب کا بہت کچھ انحصار گجرات کے نتائج پر بھی ہوگا۔

Friday 8 December 2017

Ayodhya Case
رام کی ایودھیا میں مندر یا مسجد

Babri Masjid Dispute 

پچیس سال

فیصلے کا اور کتنا انتظار


گجرات انتخابات 2017
راہل بنام مودی


نفرت کی یہ آگ کب بجھے گی ؟ 

Love Jihad Killing

 نفرت کی آگ کب بجھے گی؟


دوہزار چودہ کے بعد ملک میں حالات بڑی تیزی سے بدلے ہیں۔خاص کر اقلیت اور اکثریت کے بیچ ملک میں جو ایک لکیر سی کھنچی ہے۔ اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی ۔حالیہ برسوں میں ملک میں جس طرح سے مسلمانوں کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ اس پر اب سوال اٹھنا لازمی ہے۔ کبھی گؤرکشا کے نام پر۔ کبھی لو جہاد تو کبھی بیف کے نام پر بے گناہ  مسلمانوں کودانستہ  طورپر نشانہ بنایا جارہا ہے۔کچھ معاملوں میں توانھیں موت کے گھاٹ تک اتاردیا گیا ۔ایک عرصے  سے سیکڑوں بے قصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا جاتا رہا  ہے۔ جن میں بڑی تعداد میں بے قصور ثابت ہوئے ہیں ۔۔اور اب تو  ملک کی سیاسی جماعتیں اور ملک کا سیاسی نظام دانستہ طور پر مسلمانوں کے ساتھ  امتیازی سلوک کررہا ہے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ  مسلمانوں پر حملوں کے لیے بہانے تلاشے گئے ہیں ۔جیسے دادری قتل۔  کیرالہ ہاؤس کے باورچی خانے پر چھاپہ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے میس پر چھاپہ۔  راجستھان کی میواڑ یونیورسٹی میں کشمیری طلبہ کی پٹائی ۔جھارکھنڈ میں  بچہ چوری کے نام پر قتل کاسلسلہ ۔الور میں بے گناہوں کا قتل اور ٹرین میں جنید سے درندگی ۔یہ واقعات الگ الگ ضروررونما ہوئے ہیں لیکن ان کو جوڑ کرایک بڑی  تصویربنتی ہے۔جس میں جنونیت کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ ہجوم کے تشددکے واقعات میں شدید اضافہ افسوس ناک ہے۔ جس بہیمانہ ڈھنگ سے  حالیہ دنوں ٹرین میں مولویوں کی پٹائی کی گئی  اور راجستھان کے راجسمند میں مبینہ  لو جہاد کے نام پر سر عام ایک شخص کو مار  کر شعلوں کے حوالے کر دیا گیا ۔اس سے شدید نفرت کا اظہار ہوتا ہے۔ گذشتہ ایک سال سے گائے کے نام پر کئی  پرتشدد واقعات اورتنازعات سامنے آ چکے ہیں۔ یعنی ہندوستان میں ایک گائے ہونا مسلمان ہونے سے زیادہ تحفظ کی علامت ہے۔دراصل  ملک میں سیاسی لیڈروں کی بیان بازی آگ میں گھی کا کام کر رہی ہے۔کچھ لیڈر تو ۔اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اپنی سیاست چمکانے  کا موقع نہیں چوکتے۔۔۔جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عدالت کے سامنے تمام حقائق اجاگر ہوں ۔اور انہی کی بنیاد پر قصورواروں کو سزا ملے۔اور بے قصور افراد کو راحت ملے اورماورائے عدالت قتل کا سلسلہ ختم ہو۔۔۔۔لیکن یہ تبھی  ممکن ہے۔جب لوگ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں اور عدالت کو معاملے کا نپٹارا کرنے دیں۔تاکہ قانون کی بالا دستی  قائم رہے۔مسلمانوں کے ایشوز کو لیکر کئی بار مسلم وفود نے وزیر اعظم سے ملاقات کی ہے ۔ لیکن وزیر اعظم نے بھی صرف  زبانی جمع خرچ ہی کی ہے ۔کیا واقعی سرکار مسلمانوں کے مسائل کو لے کر سنجیدہ ہے یا اس کے لیے مسلمان ایک مسئلہ ہیں۔۔ سوال وزیر اعظم کی خاموشی پر بھی اٹھتا ہے ‘وہ اکثر بروقت نہیں بولتے اوربے وقت بولنے کا کوئی ااثر نہیں ہوتا۔ گئو رکشکوں کے تعلق سے ان کے سخت الفاظ کا بھی کوئی نوٹس  نانہاد گئو رکشکوں نے نہیں لیا۔ سب کا ساتھ سب کا  وکاس کے نعرے سے شروع ہوا بی جے پی کا مرکز میں سفرسماجی سطح پرمنتشرنظر آتا ہے۔عدم اعتمادی۔اندیشہ۔خوف اوربے چینی ا ور بے اطمینانی سماجی تانے کے لیے دیمک کی طرح ہیں۔ان کا سدباب  لازمی ہے۔کیا بیرون ممالک  مسلمانوں کے مسائل پر بولنے والے وزیر اعظم ۔ملک کے اندر  ہونے والی  زیادتیوں  پر  کان دھریں گے ؟

YouTube Link
https://www.youtube.com/watch?v=BRsMisUzdqA