Wednesday 16 December 2015

بھوپال گیس سانحہ کے اکتیس سال

بھوپال گیس سانحے کو اکتیس سال پورے ہوگئے ہیں۔لیکن  گیس متاثرین آج بھی اپنی بے بسی پر آنسو بہانے کو مجبور ہیں۔آج سے اکتیس سال پہلے انہیں جو زخم ملا تھا اس نے انکی زندگیوں کو تباہ و برباد کردیا۔اس سانحے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے ۔اور جو لوگ اس  سانحے میں بچ گئے۔آج  وہ اپنی زندگی کو  بدنصیبی سمجھ رہے ہیں۔یہ لوگ ۔زندگی پا کر بھی  ہر روز مرتے ہیں۔اس سانحے کے اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد ۔آج بھی اس زمین پر پیدا ہونے والی نسلیں۔ کسی نہ کسی طرح اسکا شکار ہو رہی ہیں۔سوال یہ نہیں ۔کہ اس بھیانک سانحے کے لئے ذمہ دار کون ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ اکتیس سال گذر جانے کے بعدبھی یہ متاثرین۔آج  در در کی ٹھوکریں کھانے کو کیوں مجبور ہیں۔متاثرین ۔کیوں اپنے ہی گھر میں  اپنے آپ کو بیگانہ محسوس کر رہے ہیں۔متاثرین ۔آج بھی بنیادی سہولیات کے لئے احتجاج اور دھرنے کرنے پر مجبور ہیں۔؟سرکاریں ۔آخر ۔گیس متاثرین کے نام پر سیاست کب تک کرتی رہیں گی؟



CBI Conducts Massive Raids at Several Places in Delhi

ابھی نیشنل ہیرالڈ کا معاملہ ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ اب دہلی سیکریٹریٹ میں سی بی آئی نے چھاپہ ماری کی۔اس چھاپہ ماری  سے دہلی ہی نہیں بلکہ قومی سطح پر ردعمل سامنے آیا۔کسی نے اسے بدلے کی سیاست سے تعبیر کیا تو کسی نے اسے سوچی سمجھی سازش کا حصہ قرار دیا۔جبکہ مرکزی سرکار نے کہا کہ اس کاروائی کے پیچھے ۔صرف اور صرف سی بی آئی کی حکمت عملی کار فرما ہے نہ کہ کوئی سیاست اور سازش۔اس واقعہ  پر دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال نے کہا کہ چھاپہ میرے دفتر پر پڑا ہے۔کیجری وال نے ٹوئٹ کرتے ہوئے مزید کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی بزدلانہ  حرکت پر اتر آئے ہیں۔اس بیچ سی بی آئی کے ترجمان نے کہا کہ چھاپہ سی ایم آفس پر نہیں تھا۔معاملے کو غلط رخ نہ دیں۔سی بی آئی نے واضح کیا کہ اس نے ایک سینئر افسر اور چھ دیگر لوگوں کے خلاف چودھ جگہوں پر سرچ آپریشن چلائے ہیں۔اور ہم نے عدالت سے سرچ وارنٹ لیکر ہی چھاپے ماری کی ہے۔آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ پورا معاملہ دو ہزار سات سے دو ہزار چودہ کے بیچ دہلی سرکار سے جڑا ہے۔تو ادھر۔اس پورے معاملے نے  سیاسی گلیاروں میں وبال مچا دیا۔مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے   ٹوئٹ کر کہا کہ اس چھاپے ماری سے حیران ہوں۔تو وہیں ۔کیجری وال نے کہا کہ دو ہزار دو میں شیلا دکشت کے بدعنوانی والے معاملے میں سی بی آئی دو ہزار پندرہ میں  مجھے پریشان کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے آفس میں میری فائلوں کی تلاشی لی گئی ہے۔کیجری وال نے کہا کہ جب مودی جی سیاسی طور  پر میرا مقابلہ نہیں کر پائے۔تو اس طرح کی حرکتوں پر اتر آئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر سی بی آئی کے پاس راجیندر کمار کے خلاف کوئی ثبوت تھے۔تو وہ میرے ساتھ شیئر کیوں نہیں کئے گئے؟میں خود انکے خلاف کاروائی کرتا۔خیر۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ واقعی اگر یہ سرچ آپریشن تھا۔تو  وزیر اعلیٰ کو  پہلے اس کی جانکاری کیوں نہیں دی گئی۔؟یا اگر کاروائی صحیح ہے۔ٹھیک ہے۔تو اس  پراتنا وبال کیوں؟

Published on 16 Dec 2015
Big Bulletin is a debate show.
To Subscribe:http://bit.ly/1m50ao8

https://www.youtube.com/watch?v=RHqOnl3_Zts

 Delhi & Cuttack Police held Al Qaeda suspects

ملک میں ان دنوں دہشت گردی کے نام پر مسلم لڑکوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ملک کی مختلف ریاستوں اور مختلف اضلاع سے یہ گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔کبھی القاعدہ سے روابط رکھنے ۔تو کبھی آئی ایس آئی ایس ۔لشکر طیبہ ۔ہوجی اورانڈین مجاہدین سے  تعلق کے شبے میں یہ  گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔آئی ایس آئی ایس  دنیا بھر میں امن کے لیے بڑا خطرہ  بن گیا ہے اوریہ شام اورعراق کی حد تک اب محدود نہیں  ہے۔  پیرس حملوں  سے اس دہشت گرد تنظیم  کی پہنچ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔آئی ایس  آئی ایس   کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جارہا ہے جو دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے وہیں وزارت داخلہ نے گزشتہ ماہ  ملک کی مختلف ریاستوں کودہشت گردوں کے امکانی حملے کے پیش نظر الرٹ جاری  کیا تھا۔وزارت داخلہ نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ آئی ایس آئی ایس ہندوستان کی ریاستوں ۔جموں و کشمیر۔مہاراشٹر۔مدھیہ پردیش۔اترپردیش اور مغربی بنگال   کو نشانہ بنا سکتا ہے۔اس رپورٹ کے آنے کے بعد  ملک کی مختلف ریاستوں سے گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔بیتی رات قومی  راجدھانی دہلی سے سنبھل کے دو لڑکوں کی القاعدہ سے تعلق رکھنے کے شبہ میں  گرفتاری ہوئی۔تو ادھر اوڈیشہ کے ضلع کٹک کے جگت پور  ضلع سے بھی ایک  مشتبہ شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔اس سے قبل دہشت گرد تنظیموں سے مبینہ روابط کے  الزام میں گلبرگہ سے تین نوجوانوں کی گرفتاری کی جا چکی ہے۔ان گرفتاریوں  کے بعد سے گلبرگہ میں اقلیتوں میں خوف کا ماحول ہے۔وہیں کرناٹک میں ہورہی گرفتاریوں کے بیچ،ریاستی حکومت کو اُس کا انتخابی وعدہ یاد دلایا جارہا ہے۔واضح رہے کہ کانگریس نے اپنے منشور میں جیلوں میں بند بے قصور مسلم نوجوانوں کی رہائی کا وعدہ کیا تھا۔حالانکہ عدالتوں میں سماعت کے بعد کچھ مسلم نوجوان دہشت گردی کے الزامات سے باعزت بری ہوئے ہیں لیکن ایسے کئی نوجوان ہیں جوحکومت کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔وہیں،اسوسی ایشن فار ہیومن رائٹس کاکہناہےکہ کرناٹک میں پچاس سے زائد افراداب بھی دہشت گردی کے الزامات میں جیلوں میں قید ہیں۔ لیکن آج تک ایک بھی شخص دہشت گرد ثابت نہیں ہواہے۔یہی حال ملک کی دوسری ریاستوں کا بھی ہے۔اترپردیش کی سماج وادی حکومت نے بھی یہی وعدہ کیا تھا کہ وہ بے قصور مسلم لڑکوں کو رہا کر دے گی۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔خیر۔ملک سے غداری یا ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث کسی بھی شخص کو بخشا نہ جائے۔اور  ایسے عناصر کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان گرفتاریوں کی آڑ میں بہت سے بے قصور نوجوان بھی پکڑے جاتے ہیں۔اور انکی زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں۔سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ۔دہشت گردی سے نمٹنے  کے لئے ایک مضبوط لائحہ عمل کی ضرورت  نہیں ہے۔کہ قصور وار  ہی پکڑے جائیں ۔اور بے قصور کو اس کی سزا بھگتنانہ پڑے۔کیوں کہ اس مسئلے نے سماج کے ایک مخصوص طبقے کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے

 You can watch debate on is issue

Big Bulletin Link for You Tube

https://www.youtube.com/watch?v=AImYWaNQHcc