Thursday 28 December 2017
Monday 11 December 2017
Saudi Arabia Lifts Ban On Cinemas
سعودی عرب میں کھلیں گے سنیما گھر
سعودی عرب میں جلد ہی سنیما گھروں کی شروعات ہونے والی ہے۔ جی ہاں ۔سعودی کی حکومت کا کہنا ہے آئندہ سال کے آغاز میں عوامی سینیما گھروں پر عائد پابندی ختم کر دی جائے گی۔سعودی وزیر برائے ثقافت و اطلاعات عواد بن صالح العوّاد کا کہنا ہے کہ ریگولیٹرز نئے سینیما گھروں کو لائسنس جاری کرنے کے طریقہ کار پر غور کر رہے ہیں۔وزارت ثقافت و اطلاعات کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں عواد بن صالح العوّاد نے کہا ہے کہ ’امید ہے کہ آئندہ سال مارچ 2018 میں پہلا سینیما کھل جائے گا۔‘اس فیصلے کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے ملک میں شہریوں کے لیے تفریح اور ملکی معیشت کی بہتری کے لیے فراہم کیے جانے والے مواقعوں کی سلسلے میں شروع کی گئی مہم کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔خیال رہے کہ رواں سال کے آغاز میں سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دی گئی تھی اور اگلے سال سے خواتین کے کھیلوں کے سٹیڈیمز میں جانے کی اجازت دینے کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزارت ثقافت و اطلاعات کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں بتایا گیا ہے کہ 35 سال کے بعد پہلی مرتبہ ملک میں کمرشل سینیما گھروں کو کام کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔یان کے مطابق حکومت سینیما گھروں کو فوری لائسنس کے اجرا کرنے کا کام جلد شروع کرے گی۔خیال رہے کہ سعودی ولیِ عہد محمد بن سلمان نے ملک میں کئی اصلاحات کی ہیں۔ اُن کے ویژن 2030 منصوبے کے تحت خواتین کو معاشرے میں اہم کردار، روزگار کی فراہمی اور سعودی طرز زندگی میں بہتری کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ حالیہ مہینوں میں سعودی عرب میں مختلف کنسرٹس منعقد ہوئے ہیں اور ساتھ ایک مشہور ثقافتی میلہ 'کامک کون' کا بھی انعقاد ہوا ہے۔گذشتہ دنوں لبنانی گلوکارہ حبا تواجی کی دارالحکومت ریاض کے کنگ فہد ثقافتی مرکز میں پرفارمنس پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔اس کے علاوہ ملک کا قومی دن منانے کی تقریب کو مخلوط رکھا گیا تھا جس میں پہلی دفعہ سعودی عرب کی سڑکوں پر لوگوں نے الیکٹرانک طرز کی موسیقی پر سڑکوں پر رقص کیا تھا۔پچھلے ہفتے معروف یونانی موسیقار یانی نے بھی ریاض میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا جہاں تقریب میں مخلوط ماحول تھا اور گانے گانے والوں میں خواتین بھی شامل تھیں۔سعودی عرب میں 1980ء کی دہائی میں فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کر دی گئی تھی
Rahul Gandhi elected Congress president
راہل گاندھی کوملی کانگریس کی کمان
آج کا دن کانگریس کے لئے تاریخی ہے۔گرانڈ اولڈ پارٹی کی کمان نوجوان ہاتھوں میں آئی ہے۔ راہل گاندھی اب پارٹی صدر بن گئے ہیں ۔ تقریبا بیس سال تک راہل گاندھی کی ماں یعنی سونیا گاندھی پارٹی صدر رہیں ۔ سونیا کی طبیعت ناساز ہونے کے سبب اب پارٹی کی باگ ڈور راہل کو سونپی گئی ہے۔ راہل گاندھی نے سال دوہزار چار میں سیاست میں باقاعدہ قدم رکھا تھا۔ اور کم و بیش دس برس بعد یعنی دوہزار تیرہ میں انھیں پارٹی کا نائب صدر بنایا گیا تھا۔موجودہ وقت کانگریس پارٹی کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک طرف پارٹی شکست اور مشکلات سے دوچار ہے۔ تو دوسری طرف پارٹی میں سینئر لیڈران کے درمیان راہل کا تال میل بیٹھ پانا بھی ایک چیلنج ہے۔کانگریس پارٹی جو ایک وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہوا کرتی تھی۔ اب سمٹ کر چند ریاستوں میں محدود ہوگئی ہے۔ دو ہزار انیس لوک سبھا انتخابات سے پہلے ۔ گجرات چناؤ بھی راہل کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں ہے۔اب راہل کانگریس کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہیں ۔ایسے میں اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا راہل کا قد بدل جانے سے کانگریس اور ملک کی سیاست میں بھی بدلاؤ آئے گا۔حالاں کہ راہل کے پارٹی صدر بننے کی ٹائمنگ بھی بڑی دلچسپ ہے۔ایک طرف گجرات انتخابات ۔ جہاں کانگریس کا وقار داؤں پر ہے۔کانگریس گجرات کے سہارے ملک کی سیاست میں بدلاؤ کی امید لگائے ہوئیہے۔ایسے میں قیادت میں تبدیلی کا فیصلہ دلچسپ لگ رہا ہے۔کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ کانگریس کا راہل کو صدر بنانے کا فیصلہ سیاسی ہے۔ کیوں کہ اگر اب کانگریس ۔ گجرات انتخابات ہار جاتی ہے۔ تو آگے راہل کو صدر بنانا مشکل ہوجائے گا۔ اور اگر کانگریس گجرات میں جیت جاتی ہے۔ تو اس کا پورا سہرا راہل گاندھی کو ہی جا ئے گا۔گجرات چناؤ میں راہل نے پارٹی کی شبیہ بھی بدلنے کی کوشش کی ہے۔ راہل پہلی بار مندر مندر جا رہے ہیں ۔ پہلی بار پارٹی کا جھکاؤ اکثریت کی جانب ہے۔یعنی راہل کی قیادت میں پارٹی اپنی شبیہ بھی بدلنے کی کوشش کر رہی ہے۔اسکے علاوہ یہ بھی کسی سے چھپا نہیں ہے کہ راہل کی تقاریر کی دھار ان دنوں کافی تیز ہوئی ہے۔ اور اب جب راہل پارٹی کی قیادت کریں گے۔ تو ایسے میں وہ اپنے حریفوں کو معقول جواب دے پائیں گے۔لیکن ۔۔ان سب کا بہت کچھ انحصار گجرات کے نتائج پر بھی ہوگا۔
Friday 8 December 2017
Love Jihad Killing
نفرت کی آگ کب بجھے گی؟
دوہزار چودہ کے بعد ملک میں حالات بڑی تیزی سے بدلے ہیں۔خاص کر اقلیت اور اکثریت کے بیچ ملک میں جو ایک لکیر سی کھنچی ہے۔ اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی ۔حالیہ برسوں میں ملک میں جس طرح سے مسلمانوں کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ اس پر اب سوال اٹھنا لازمی ہے۔ کبھی گؤرکشا کے نام پر۔ کبھی لو جہاد تو کبھی بیف کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کودانستہ طورپر نشانہ بنایا جارہا ہے۔کچھ معاملوں میں توانھیں موت کے گھاٹ تک اتاردیا گیا ۔ایک عرصے سے سیکڑوں بے قصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا جاتا رہا ہے۔ جن میں بڑی تعداد میں بے قصور ثابت ہوئے ہیں ۔۔اور اب تو ملک کی سیاسی جماعتیں اور ملک کا سیاسی نظام دانستہ طور پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کررہا ہے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں پر حملوں کے لیے بہانے تلاشے گئے ہیں ۔جیسے دادری قتل۔ کیرالہ ہاؤس کے باورچی خانے پر چھاپہ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے میس پر چھاپہ۔ راجستھان کی میواڑ یونیورسٹی میں کشمیری طلبہ کی پٹائی ۔جھارکھنڈ میں بچہ چوری کے نام پر قتل کاسلسلہ ۔الور میں بے گناہوں کا قتل اور ٹرین میں جنید سے درندگی ۔یہ واقعات الگ الگ ضروررونما ہوئے ہیں لیکن ان کو جوڑ کرایک بڑی تصویربنتی ہے۔جس میں جنونیت کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ ہجوم کے تشددکے واقعات میں شدید اضافہ افسوس ناک ہے۔ جس بہیمانہ ڈھنگ سے حالیہ دنوں ٹرین میں مولویوں کی پٹائی کی گئی اور راجستھان کے راجسمند میں مبینہ لو جہاد کے نام پر سر عام ایک شخص کو مار کر شعلوں کے حوالے کر دیا گیا ۔اس سے شدید نفرت کا اظہار ہوتا ہے۔ گذشتہ ایک سال سے گائے کے نام پر کئی پرتشدد واقعات اورتنازعات سامنے آ چکے ہیں۔ یعنی ہندوستان میں ایک گائے ہونا مسلمان ہونے سے زیادہ تحفظ کی علامت ہے۔دراصل ملک میں سیاسی لیڈروں کی بیان بازی آگ میں گھی کا کام کر رہی ہے۔کچھ لیڈر تو ۔اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اپنی سیاست چمکانے کا موقع نہیں چوکتے۔۔۔جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عدالت کے سامنے تمام حقائق اجاگر ہوں ۔اور انہی کی بنیاد پر قصورواروں کو سزا ملے۔اور بے قصور افراد کو راحت ملے اورماورائے عدالت قتل کا سلسلہ ختم ہو۔۔۔۔لیکن یہ تبھی ممکن ہے۔جب لوگ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں اور عدالت کو معاملے کا نپٹارا کرنے دیں۔تاکہ قانون کی بالا دستی قائم رہے۔مسلمانوں کے ایشوز کو لیکر کئی بار مسلم وفود نے وزیر اعظم سے ملاقات کی ہے ۔ لیکن وزیر اعظم نے بھی صرف زبانی جمع خرچ ہی کی ہے ۔کیا واقعی سرکار مسلمانوں کے مسائل کو لے کر سنجیدہ ہے یا اس کے لیے مسلمان ایک مسئلہ ہیں۔۔ سوال وزیر اعظم کی خاموشی پر بھی اٹھتا ہے ‘وہ اکثر بروقت نہیں بولتے اوربے وقت بولنے کا کوئی ااثر نہیں ہوتا۔ گئو رکشکوں کے تعلق سے ان کے سخت الفاظ کا بھی کوئی نوٹس نانہاد گئو رکشکوں نے نہیں لیا۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرے سے شروع ہوا بی جے پی کا مرکز میں سفرسماجی سطح پرمنتشرنظر آتا ہے۔عدم اعتمادی۔اندیشہ۔خوف اوربے چینی ا ور بے اطمینانی سماجی تانے کے لیے دیمک کی طرح ہیں۔ان کا سدباب لازمی ہے۔کیا بیرون ممالک مسلمانوں کے مسائل پر بولنے والے وزیر اعظم ۔ملک کے اندر ہونے والی زیادتیوں پر کان دھریں گے ؟
YouTube Link
https://www.youtube.com/watch?v=BRsMisUzdqA
Wednesday 14 June 2017
Political Iftar Parties
سیاسی افطار پارٹیاں
رمضان کا مہینہ عبادت صبر اور قناعت سے منسوب ہے۔۔ایک طرف جہاں اس ماہ میں مسلمان روزوں کاپورا اہتمام کرتے ہیں۔۔تو وہیں ۔مختلف تنظیمیں ۔سیاسی پارٹیاں ۔۔ وزرا اور ملک کی اہم شخصیات بڑی بڑی سیاسی افطار پارٹیوں کا اہتمام کرتی ہیں۔۔۔سیاسی افطار پارٹیوں میں ملک کی تقریبا ں تمام پارٹیاں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔۔۔خاص کر دہلی کے سیاسی حلقوں میں افطار پارٹیوں کا خوب اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ افطار پارٹیاں سیاسی نقطہء نظر سےبہت اہم مانی جاتی ہیں۔غالباً سیاسی افطار پارٹی کا آغاز اندرا گاندھی کے دور میں ہوا۔ وہ اپنی رہائش گاہ پرافطار پارٹی کا اہتمام کرتی تھیں۔اس افطار پارٹی میں بڑے بڑے رہنماؤں، صحافیوں اور اہم مسلم شحضیات کو مدعو کیا جاتا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد اپنا ذاتی اثرو رسوخ بڑھانا اوراہم شخصیات کو کانگریس سے قریب لانا تھا۔اٹل بہاری واجپئی کے دور میں بھی افطار پارٹی ایک باضابطہ سالانہ تقریب بن گئی تھی ۔وزیر اعظم واجپئی اپنی رہائش گاہ پر بہت شاندار افطار پارٹی کا اہتمام کرتے تھے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے اعلیٰ رہنماؤں کےعلاوہ ، اہم شخصیات، عرب ممالک کے سفیر ، مذہبی رہنما اور سرکردہ صحافی وغیرہ مدعو کیےجاتےتھے۔حزب اختلاف کی طرف سے بھی افطار پارٹیاں دی جاتی تھیں۔ لالو پرساد ، ملائم سنگھ یادو اور رام ولاس پاسوان جیسے کئی رہنما بھی افطار پارٹیوں میں پیش پیش رہا کرتے تھے ۔چونکہ وہ دور مخلوط حکومتوں کا تھا۔ سیاسی اتحاد بنتے اوربگڑتے رہتے تھے، کس پارٹی میں کون مدعو کیا گیا اور کس نےکس پارٹی میں شرکت کی، اس کی بنیاد پر نئے محاذوں کی تشکیل کی حکمت عملی طے ہوا کرتی تھی۔۔۔اب یہ افطار پارٹیاں سیاسی اعتبار سے تھوڑا بدل رہیں ہیں۔۔۔جہاں ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی کو رمضان یا مسلمانوں میں ایسی کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے اس لیے انھوں نے نہ صرف افطار پارٹی دینا بند کر دیا ہے بلکہ وہ اس میں شریک بھی نہیں ہوتے۔یہاں تک کہ مودی صدر جمہوریہ کی افطار پارٹی ميں بھی شرکت نہیں کرتے۔۔۔مودی کی راہ پر چلتے ہوئے اس بار یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے افطار پارٹی کا اہتمام کرنے سے صاف طور پر انکار کردیا ہے۔یوگی کا کہنا ہے کہ میں پکا ہندو ہوں اس لئے اب سے لکھنؤ کے پانچ کالی داس مارگ یعنی سی ایم ہاؤس میں افطار پارٹی کا اہتمام نہیں ہوگا۔۔یعنی یوگی اس معاملے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی راہ پر ہیں۔۔۔۔لیکن ان سب کے بیچ وی ایچ پی نے سیاسی افطار پارٹیوں پر بڑا حملہ کیا ہے۔وی ایچ پی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چونکہ ملک کے ہندو اب متحد ہوگئے ہیں۔۔۔اس لئے ملک میں سیاسی پارٹیوں کا جہاں رجحان کم ہوا ہےتو وہیں ۸۰فیصد جماعتوں نے افطار پارٹیاں ختم کر دی ہیں ۔۔۔لیکن۔۔دوسری جانب سکے کا دوسرا پہلو ب بھی ہے ۔اس بار ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اپنی افطار پارٹی کی شروعات کی ہے۔۔اور اس کا کہنا ہے کہ وہ ملک بھر میں ایسی افطار پارٹیاں دے گی جہاں گائے کے دودھ سے روزہ کھولا جائے گا۔۔۔تنظیم نے اتر پردیش کے کئی ضلعوں میں افطار پارٹی کا اہتمام کیا ہے۔۔۔۔یہی نہیں مہاراشٹر کے کئی اضلاع میں بی جے پی کی بڑی بڑی افطار پارٹیاں طے ہیں۔۔۔جن میں ریاست کے وزیر اعلیٰ فڑنویس بھی شرکت کریں گے۔۔ان سب کے بیچ بڑا سوال یہ ہے کہ جہاں ایک طرف آر ایس ایس کی جانب سے ملک میں افطار پارٹیوں کا اہتما م کیا جا رہا ہے۔۔تووہیں وی ایچ پی کے سر افطار پارٹی کو لیکر بلکل الگ ہیں۔۔۔۔ایک طرف جہاں بی جے پی اقتدار والی کئی ریاستوں میں افطار پارٹیوں کا پارٹی کی جانب سے اہتمام کیا جا رہا ہے۔۔تو وہیں وزیر اعظم مودی اور یوگی کا ان افطارپارٹیوں سے بچنا بھی کئی سوال کھڑے کرتا ہے۔۔۔یعنی ۔۔بی جے پی بھی دوسری جماعتوں کی طرح ان افطارپراٹیوں میں اپنا نفع نقصان دیکھ رہی ہے
Wednesday 3 May 2017
کیا AAP میں جھگڑا ختم مان لیا جائے ؟
ایم سی ڈی چناؤ میں ملی کراری ہار اور اسکے بعد پارٹی میں اٹھے انتشار کا کیا اب خاتمہ ہو گیا ہے ؟ یہ سو ٹکے کا سوال ہے ۔۔کیوں کہ ایم سی ڈی میں شکست اور اسکے بعد پارٹی لیڈران کے درمیان بیان بازیوں نے پارٹی میں پھوٹ جیسے حالات پیدا کر دیئے تھے۔۔۔ایم سی ڈی میں شکست کے بعد بیان بازی کا سلسلہ کمار وشواس نے شروع کیا تھا ۔۔کمار وشواس کی اس بیان بازی پر اوکھلا کے ممبر اسمبلی امانت اللہ خان نے جب اپنا ردعمل دیا ۔۔تو کمار وہیں امانت اللہ خان سے صرف ناراض ہی نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے پارٹی لیڈر شپ سے امانت اللہ خان کو پارٹی سے نکالنے تک کی اپیل کر ڈالی ۔۔۔یہ لفظی جنگ ۔۔عاپ کے لئے کسی ناسور سے کم نہ تھی ۔۔۔ایسے میں اروند کیجریوال اور منیش سسودیا نے انا فانا میں پی اے سی کی میٹنگ بلائی اور امانت اللہ خان کو پی اے سی سے برخاست کر دیا۔۔۔۔۔جب وشواس اتنے پر بھی نہیں مانے ۔۔تو پارٹی نے امانت اللہ خان کو پارٹی سے سسپنڈ کر دیا۔۔۔اس طرح ۔۔یہ قیاس کیا جانے لگا کہ پارٹی کا بحران شاید اب تھم جائے۔۔۔۔لیکن۔۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ امانت اللہ خان صرف عاپ کے ایم ایل اے ہی نہیں ہیں ۔۔بلکہ وہ بڑا مسلم چہرا بھی ہیں۔۔۔ایسے میں پارٹی کو مسلمانوں کی نارضگی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔۔یعنی پارٹی کے سامنے بحران بڑا ہے۔۔بھلے ہی کمار کا وشواس پارٹی میں لوٹ آیا ہو۔۔۔لیکن پارٹی میں ابھی بھی سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے یہ کہہ پانا قبل از وقت ہوگا۔۔اس بیچ منیش سسودیا ، امانت اللہ خان سے ملاقات کرنے انکے گھر پہنچے۔۔۔۔یعنی کل تک کمار وشواس کو مانانے کی کوششیں چل رہی تھیں ۔۔اور آج پارٹی لیڈر شپ امانت اللہ خان کو انکی کاروائی پر صبر کرنے کی تلقین کرتی نظر آئی ۔۔۔لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ پارٹی کی کارکردگی اور لیڈرشپ پر سوالیہ نشان لگانے والے کمار وشواس اس تنازعے سے بڑی آسانی سے نکل گئے۔۔اور بحران کو ایک نیا رخ دے دیا گیا۔۔۔کیا اس لڑائی میں امانت اللہ خان کو آواز اٹھانے کی قیمت چکانی پڑی یا پھر کمار وشواس کے قد کے آگے سچائی کو دبا دیا گیا۔۔۔لیکن ہم تو یہی کہیں گے کہ پارٹی کے حالات دیکھتے ہوئے ابھی کسی نتیجے پر پہنچنا قبل از وقت ہوگا۔۔۔
کیا تھی پوری اسٹوری ؟
عام آدمی پارٹی کا بحران فی الحال ٹل گیا ہے۔۔۔۔ کمار وشواس مان گئے ہیں اور انہیں راجستھان کا انچارج بھی بنایا گیا ہے، وہیں امانت اللہ خان کو پارٹی نے معطل کر دیا ہے. امانت اللہ خان نے کمار وشواس کو بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایجنٹ بتایا تھا. ان پر پارٹی توڑنے کا الزام لگایا تھا، جس کے بعد کمار وشواس نے پریس کانفرنس کر کہا تھا کہ امانت اللہ خان مکھوٹا ہیں پیچھے کوئی اور ہے. بعد میں کمار وشواس کو منانے کی کوشش شروع ہوئی. اروند کیجریوال، منیش سسودیا ان سے ملے اور عام آدمی پارٹی کی پولیٹکل افیئرز کمیٹی کی میٹنگ میں کمار وشواس شامل ہوئے. انہوں نے کہا کہ انہیں کسی عہدے کا لالچ نہیں ہے. منیش سسودیا نے امانت اللہ کو معطل کرنے کی معلومات دی. اس سے قبل منگل کی رات وزیر اعلی اروند کیجریوال اور ڈپٹی سی ایم منیش سسودیا غازی آباد میں کمار وشواس کے گھر پہنچے تھے. کچھ دیر کی بات چیت کے بات کیجریوال کمار وشواس کو اپنے گھر لے گئے. کیجریوال نے کہا تھا کہ کمار وشواس کی کچھ ناراضگيا ہیں، لیکن ان کو پورا یقین ہے کہ کمار مان جائیں گے. اس سے پہلے کپل مشرا، سنجے سنگھ، آشوتوش، اوتار سنگھ کمار وشواس کو منانے ان کے گھر پہنچے تھے. منگل کو میڈیا سے بات چیت میں پرجوش ہوتے ہوئے کمار وشواس نے کہا تھا کہ 24 گھنٹے میں طے کر لیں گے کہ آگے کیا کرنا ہےاتنا ہی نہیں ایمان نے پیر کو پارٹی کی سیاسی امور کی کمیٹی (پی اے سی) کی میٹنگ میں پارٹی رہنماؤں کو میڈیا سے بات کرنے پر گریز برتنے کے فیصلے کی خلاف ورزی صحافیوں سے رسمی بات چیت بھی کی تھی. اس دوران انہوں نے کہا تھا کہ وہ پارٹی کی غلطیوں کو اجاگر کرتے رہیں گے اور ملک کے مفاد میں جو بھی کامل ہو جائے گا اس بات سے نہیں ركےگے۔۔پنجاب اور گوا میں ملی ناکامی اور ایم سی ڈی کی ہار نے پارٹی میں ایک دراڑ سی پیدا کر دی ہے۔۔۔پارٹی میں اٹھے تنازعے کا حل نکلتا نہیں دکھ رہا ہے۔۔۔خاص کر ایم سی ڈی چناؤ میں ملی کراری ہار کے بعد پارٹی میں ایک بھونچال سا آگیا ہے۔۔ ایم سی ڈی کی ہار پارٹی ہضم نہیں کر پارہی ہے۔۔ایم سی ڈی کے چناؤ سے پارٹی کو بہت امیدیں تھیں ۔۔۔لیکن نتائج نے مایوس کیا ۔۔۔اور یہی وجہ ہے کہ اس ہارکے لئے پارٹی لیڈران ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں ۔جبکہ اروند کیجریوال نے ایم سی ڈی میں ملی شکست کے لئے بھی ای وی ایم کو ہی ذمہ دار مانا ۔۔اور مرکزی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔۔۔۔۔ادھر۔۔ایم سی ڈی میں ملی کراری ہار پر پارٹی کے اندر ہی مختلف بیانات سامنے آئے۔۔الکالامبا سے لیکر کمار وشواس تک نے ہار کے لئے پارٹی کی پالیسیوں کو کوسا اور پارٹی کے اندر بنے حالات پر بھی سوال کھڑے کر دیئے ۔کمار وشواس نے کہا کہ پنجاب اور ایم سی ڈی میں ملی ہار ۔ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ کے علاوہ دوسری وجہ بھی ذمہ دار ہیں۔۔کمار نے کہا کہ پارٹی کی ٹاپ لیڈر شپ اور کارکنان میں کانٹکٹ کی کمی ہے ۔۔اور تو اور کمار نے یہاں تک کہہ دیا کہ عام کا طریقہ کار کانگریس جیسا ہو گیا ہے۔۔۔کمار وشواس کے بیان سے پارٹی میں کئی لیڈران ناراض دکھے ۔۔تو وہیں پارٹی کے اوکھلا ممبر اسمبلی امانت اللہ خان نے اور آگے بڑھتے ہوئے کمار وشواس کے رشتے آر ایس ایس اور بی جے پی تک سے بتا ڈالے ۔۔امانت اللہ خان کے بیان پر پارٹی میں ایک پھر نیا موڑ لے لیا ۔۔اور یہ کہا جانے لگا کہ عام آدمی پارٹی ٹوٹ کے دہانے پر پہنچ گئی ہے ۔۔۔لیکن اروند کیجریوال نے اس مشکل گھڑی میں پارٹی کو سنبھالا ۔۔ادھر امانت اللہ خان نے پارٹی کی PAC سے استعفے دے دیا ۔۔۔لیکن ۔۔یہ تنازعہ کئی سوال کھڑے کر گیا۔۔۔سب سے بڑا سوال یہ کہ کیا واقعی پارٹی کے اندر سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے۔۔۔اور کیا پارٹی میں وشواس کی یہ لڑائی بی جے پی کی دین ہے۔؟۔ پارٹی کے کچھ اراکین اسمبلی نے امانت اللہ خان پر کارروائی کے لیے ناکافی قرار دیتے ہوئے ان کو پارٹی سے نکالنے کی مانگ کی تھی۔۔لیکن پیر کی رات کو ہوئی عام آدمی پارٹی کی پولٹكل امور کمیٹی نے صاف طور پر امانت اللہ خان کے بیان کی مذمت کی تھی ساتھ ہی کمار وشواس کے میڈیا میں دئے گئے بیان پر بھی دکھ کا اظہار کیا ۔۔ دونوں طرف سے ہو رہی بیان بازی پر تشویش ظاہر کرکے لیڈروں کو خبردار کیا بھی گیا تھا اور کام پر توجہ دینے کے لئے کہا گیا ۔۔۔۔لیکن۔۔اس تنازعہ نے پارٹی کی مشکلات جگ ظاہر کر دیں۔۔۔
Saturday 21 January 2017
Subscribe to:
Posts (Atom)