Sunday 18 February 2018

یوگی کا مشن انکاؤنٹر

ENCOUNTER STRIKE BY YOGI GOVT IN UP

کہتے ہیں کہ دہلی کا راستہ اترپردیش سے ہوکر گذرتا ہے۔ یعنی دہلی پر راج کرنے کے لئے اترپردیش میں قدم جمانا ضروری ہے۔اس کی کئی وجوہات بھی ہیں ۔ ریاست اترپردیش آبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے۔یہاں لوک سبھا کی سب سے زیادہ سیٹیں بھی ہیں۔ اس کے علاوہ یوپی اپنے کلچر اور تہذیب و ثقافت کی وجہ سے بھی لوگوں کو اپنی جانب راغب کرتا ہے۔ملک میں کچھ بھی ہو۔ اس کا سب سے پہلے اثر اترپردیش پر ہی ہوتا ہے۔ ملک کے سیاسی تانے بانے اور سیاسی اتھل پتھل کا بھی یوپی پر سیدھا اثر پڑتا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست ہونے کی وجہ سے یہاں سیاسی گہما گہمی سب سے زیادہ رہتی ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کو سب سے زیادہ وزیر اعظم اترپردیش نے ہی دیئے ہیں۔ نہرو خاندان کا تعلق بھی اسی ریاست سے  رہا ہے۔ اس لئے ریاست پر کانگریس کا کافی دبدبہ رہا ہے۔ لیکن بدلتے حالات اور سیاسی اتھل پتھل کے  دوران  یوپی کا منظر نامہ بدلا۔ اور دھیرے دھیرے ریاست سے کانگریس کا صفایا ہوتا گیا۔ ریاست میں نئی نئی پارٹیاں  وجود میں آئیں ۔  سماج وادی پارٹی  اور   بہوجن سماج پارٹی نے ریاست پر حکمرانی کی ۔ پچھلے ایک سال سے ریاست میں  بی جے پی  اپنے طور پر اقتدار میں ہے۔ اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت کی قیادت  یوگی آدتیہ ناتھ کر رہے ہیں۔ یوگی کئی بار ممبر پارلیمنٹ بھی رہ چکے ہیں۔ یوگی کی شبیہ مسلم مخالف رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ریاست کی  پوری تصویر ہی بدل گئی ہے۔ اس ایک سال میں جہاں یوگی نے ایک کے بعد ایک نئے نئے قانون و ضوابط بنائے ۔ تو وہیں مسلم سماج کے لئے بھی یوگی نے کئی  احکامات صادر کئے۔ چاہے مدارس میں قومی ترانے کی ویڈیو  گرافی ہو یا پھر مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے  کامعاملہ    ہو۔۔یعنی ایک کے بعد ایک یوگی حکومت نے  مسلم مخالف فیصلے لینے شروع کئے ۔لیکن بات یہیں تک نہیں رکی ۔ ریاست میں بڑھ رہے کرائم  اور غنڈہ گردی پر قابو پانے کے لئے یوگی انتظامیہ نے انکاؤنٹر کا سہارا لیا۔ اس انکاؤنٹر کی آڑ میں جہاں نام نہاد  بد معاش اور غنڈے جان  سے مارے گئے تو وہیں کئی معصوموں  کو بھی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔لیکن دن بدن ریاست میں ان انکاؤنٹروں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ خاص طور پر ریاست کے مغربی خطے میں جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ان علاقوں میں انکاؤنٹر کی آئے دن خبر آنے لگی ۔ ان انکاؤنٹرز کا شکار ایسے مسلم ہونے لگے  جو ماضی میں اپنے علاقوں میں چھوٹی موٹی  وارداتوں میں شامل  رہے ہوں ۔ پولیس انتظامیہ نے چھوٹے چھوٹے بدمعاشوں کو بھی نہیں بخشا۔ ان انکاؤنٹرز کی تعداد محض ایک سال میں بارہ سو سےتجاوز کر گئی ۔ اس تعداد سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت غنڈہ گردی ختم کرنے کے نام پر کس طرح انکاؤنٹر کا  استعمال کر رہی ہے۔ خود ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے علی الاعلان کہا کہ یہ انکاؤنٹر بند نہیں ہوں گے۔ جب تک ریاست سے پوری طرح غنڈہ گردی کا صفایا نہیں ہوجاتا۔ ۔خیر۔ ان انکاؤنٹر پر حقوق انسانی تنظیموں نے بھی تشویش ظاہر کی ۔ لیکن یوپی سرکار نے اس پر بھی کان نہ دھرے ۔ ایک رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ ان انکاؤنٹر وں میں خاص طور پر مسلمان اور دلت ۔ پچھڑے سماج کے لوگ سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔ صرف پچھلے نو ماہ کے اندر ریاست میں ایک ہزار سے زیادہ انکاؤنٹر ہوئے ہیں۔ذرائع کے  مطابق ان میں اب تک 38 جرائم پیشہ افراد مارے جا چکے ہیں۔ تقریباً تین سو زخمی ہوئے اور دو ہزار سے زیادہ مجرموں کو گرفتار کیا گیا ہے۔اپوزیشن پارٹیوں نے بھی ان انکاؤنٹروں کے خلاف پر زور آواز اٹھائی ہے۔ سماج وادی پارٹی نے ریاست کی راجدھانی لکھنؤ میں زبردست احتجاج کیا ۔  حقوق انسانی کی تنظیموں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ پولیس انکاؤنٹر کا سلسلہ بند کرے کیونکہ ان انکاؤنٹروں میں بڑا جانی نقصان ہو رہا ہے۔جن میں کئی بے قصور افراد بھی شامل ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امن و قانون کا نظام قائم کرنے کے لیے انتظامی سختی ضروری ہے لیکن اس کے لیے ضروری نہیں کہ ہر چھوٹے بڑے جرائم پیشہ شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جائے۔اس طرح کے طریقہ کار پر ہمیشہ نکتہ چینی ہوئی ہے اور مستقبل میں بھی ہوتی رہے گی۔ انکاؤنٹر صرف مخصوص حالات میں کسی کیس کا آخری حل ہو سکتا ہے۔اس کے لیے جو ضابطے طے کیے گئے ہیں ان کے مطابق انکاؤنٹر میں ہر ہلاکت کو قتل کے طور پر درج کیا جاتا ہے اور اس کی تفتیش مجسٹریٹ کی سطح پر ہوتی ہے تاکہ کوئی نا انصافی نہ ہو سکے۔یعنی سوال ریاست کے انتظامیہ ۔ یہاں کی پولیس اور لا اینڈ آرڈر پر بھی اٹھتا ہے ۔جمہوری ملکوں میں  طاقت کے استعمال  کا اختیار صرف ریاست کو دیا گیا ہے اور ریاست سے کوئی زیادتی نہ سرزد ہونے پائے اس لیے ان اختیارات کو بھی کئی طرح کے ضابطوں کے تحت رکھا گیا ہے۔کسی کی زندگی لینے کا اختیار ریاست کو انتہائی شاذ ونادر حالات میں دیا گیا ہے۔ اتر پردیش میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف مہم قابل ستائش ہے لیکن پوری ریاست میں موت اور انکاؤنٹر کی دہشت پیدا کرنا ۔ بندوق کی نوک پر بدعنوانی اور غنڈہ عناصر کو ختم کرنے کی کوشش  مثالی  انتظامی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔حقوق انسانی کے قومی کمیشن نے ریاستی حکومت کو کم ازکم 20 انکاؤنٹرز کے  معاملوں میں نوٹس بھیجا ہے اور وضاحت طلب کی ہے۔جرائم پر قابو پانے کے لیے ایک برس کی مدت میں 38 افراد کو ہلاک کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ریاست میں پولیس کا نظام انتشار اور بدنظمی کی گرفت میں ہے۔ریاستی حکومت کو یہ بات بھی ذہن نشیں کر لینی چاہیے کہ ریاست میں جرائم پر قابو پانا اس لیے بھی مشکل رہا ہے کیونکہ جرائم پیشہ عناصر کو ہر دور میں سیاسی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ اگر سیاسی رہنما اپنی روش کو چھوڑ کر سیدھے راستے پر چل پڑیں اور انتظامیہ اور پولیس کا صحیح استعمال کیا جائے تو ریاست کا نظم و ضبط بھی پٹری پر لوٹ آئے گا اور جو مسائل ہیں وہ خود بخود حل ہوجائیں گے۔ اور سیاسی لیڈروں  کو ریاست کے مسائل کو سیاسی چشمے سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ اور آج وقت کی ضرورت کہ تشدد اور برائی کو محبت سے ختم کیا جائےنہ کہ بندوق  کے زور  پر۔ کاش یوگی جی نے وزیر اعظم مودی کی لال قلعہ کی فصیل سے دی ہوئی تقریر سنی ہوتی۔

No comments:

Post a Comment