Sunday 12 June 2016
Tuesday 7 June 2016
دادری میں پھر ماحول خراب کرنے کی کوشش؟
Dadri holds Panchayat On Beef Report
اترپردیش کے دادری میں ایک بار پھر ماحول خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔دراصل دادری میں محمد اخلاق کے قتل میں اخلاق حسین پر گائے کا گوشت رکھنے کے الزام میں شرپسندوں نے اخلاق کے افراد خاندان پر حملہ کیا ۔دوسری اور مبینہ فارنسک رپورٹ کے مطابق اخلاق کے فریج میں گائے کا گوشت تھا ۔ رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد اس معاملے پر سیاست تیز ہوگئی ہے ۔ اخلاق حسین کے خاندان پر حملہ کرنے کے الزام میں ایک درجن سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ فی الوقت یہ تمام افراد جیل میں قید ہیں ۔ اس معاملے میں دو فارنسک رپورٹس سامنے آئی ہیں اور دونوں ہی رپورٹس الگ الگ ہیں۔سوال دوسری پر اٹھ رہے ہیں کہ اتنے عرصے میں یہ رپورٹ کیسے بدل گئی؟۔بساڑہ گاؤں میں پیر کو ایک پنچایت منعقد کی گئی۔اس پنچایت میں لوگوں نے حکومت سے محمد اخلاق کے اہل خانہ کے خلاف بیس دن کے اندر اندرگئو کشی کا مقدمہ درج کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔گاؤں والوں نے کہا کہ متھرا کی لیبارٹری کی رپورٹ کی بنیاد پر محمد اخلاق کے اہل خانہ کے خلاف گئوکشی کا مقدمہ درج کیا جائے۔واضح رہے کہ گزشتہ سال گائے کا گوشت رکھنے کے شبہ میں ایک مشتعل ہجوم نے بساڑہ گاؤں میں محمد اخلاق کے گھر پر حملہ کر دیا تھا۔ حملے میں محمد اخلاق کی موت ہو گئی تھی جبکہ ان کا چھوٹا بیٹا شدید زخمی ہو گیا تھا۔گزشتہ دنوں سامنے آئی لیبارٹری کی رپورٹ کے بعد گاؤں والوں نے مبینہ طور پر ایک سو سے زیادہ گاؤں کی مہا پنچایت بلائی تھی۔ حالانکہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کوئی مہا پنچایت نہیں ہوئی۔ بلکہ صرف میٹنگ بلائی گئی تھی۔اس میٹنگ میں بنیادی طور پر محمد اخلاق کے قتل کے سلسلے میں گرفتار کیے گئے لوگوں کے اہل خانہ کے علاوہ کچھ مقامی لوگ بھی تھے۔واقعہ کے سلسلے میں ایک مقامی رہنما کے بیٹے سمیت کل اٹھارہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔اس سے قبل ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اخلاق کے گھر کے فرج سے برآمد گوشت بکرے کا تھا جبکہ حال ہی میں ملزمان کے وکیل متھرا کی لیبارٹری کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جو گوشت سڑک پر محمد اخلاق کی لاش کے پاس سے برآمد ہوا تھا وہ بیف تھا۔اجلاس میں واضح طور پر محمد اخلاق کے گھر والوں پر مجرمانہ مقدمہ درج کرنےکے مطالبے کے ساتھ ساتھ خاندان کو دیا گیا معاوضہ واپس لینے کی مانگ بھی کی گئی۔لیکن۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ انتظامیہ کی سخت تنبیہ کے باوجو دادری میں پنچایت کیسے منعقد ہوئی؟اور سوال یہ بھی ہے کہ گاؤں کے لوگ قانون کیسے ہاتھ میں لے سکتے ہیں؟کیا یوپی اسمبلی انتخابات کو لیکر ایک بار پھر ریاست کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اور کیا اس پنچایت کے پیچھے سیاست کار فرما ہے؟
Thursday 2 June 2016
فیصلے سے متاثرین کے زخم بھریں گے؟
Special court convicts 24 for Gulbarg Society massacre
دو ہزار دو گجرات فسادات آزاد ہندوستان کے ماتھے کا بدنماداغ ہے ۔ گودھرا ٹرین آتشزدگی کے ٹھیک ایک دن بعد احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی میں ہونے والے قتلِ عام نے ریاستی سرکار پرسوال کھڑے کئے تھے۔اب چودہ سال کے طویل انتظار کے بعد گلبرگ سوسائٹی قتلِ عام کے مقدمے کا فیصلہ آیا ہے۔اس فیصلے میں چوبیس ملزمین کو قصوروار ٹھہرایا گیاہے۔جبکہ چھتیس کو بری کر دیا گیا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتنی تاخیر سے آیا یہ یصلہ۔ کیا متاثرین کے زخموں پر مرہم کا کام کرے گا؟واضح رہے کہ سزا کا تعین چھ جون کوکیا جائیگا ۔ جن افراد کو عدالت نے مجرم قرار دیا ہے اس میں وشو ہندو پریشد کے ایک رہنما اتل ویدیہ بھی شامل ہیں۔۔ہم آپ کو بتا دیں کہ مشتعل ہجوم نے اٹھائیس فروری دو ہزار دو کو احمد آباد کی گلبرگ ہاؤسنگ سوسائٹی میں داخل ہو کر انہتر افراد کوموت کے گھاٹ اتار دیا تھا جن میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمان احسان جعفری بھی تھے۔۔ گلبرگ ہاؤسنگ سوسائٹی کیس کا یہ مقدمہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں چلا۔ گجرات فسادات سے متعلق دیگر مقدمات بھی سپریم کورٹ کی نگرانی میں جاری ہیں۔ مقدمے کی سماعت کے دوران چار افراد کی موت ہو چکی ہے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران چار ججوں کے تبادلے بھی ہوئے تھے۔جبکہ تین سو سے زیادہ افراد کی گواہی شامل کی گئی تھی ۔اس قتل عام نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ سابق رکن پارلیمان احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری نے کہا کہ فیصلہ ادھورا ہے۔وہ اس معاملے کو اعلیٰ عدالت میں لے جائیں گی۔متاثرین کا کہنا ہے کہ شک عدالت کے فیصلے پر نہیں بلکہ ریاستی اور مرکزی حکومت کی نیت پرہے۔
Wednesday 1 June 2016
اترپردیش میں نئی سیاسی صف بندی؟
Azam,Bukhari & Owaisi can come on a platform?
آسام میں بی جے پی کی جیت نے اترپردیش میں اس کے کارکنوں میں نئی جوش بھردی ہے۔ سہارنپور میں وزیراعظم نے چناوی بگل پھونک دی ۔ ریاست اترپردیش میں دو ہزار چودہ عام انتخابات میں بی جے پی کا مظاہرہ شانداررہا تھا اور اب پارٹی اترپردیش پر فوکس کررہی ہے۔ یہاں بی جے پی کو سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی سے کڑی ٹکر ملنے والی ہے۔ یوپی کی چناوی بساط پرمہرے بچھائے جارہے ہیں ۔ کانگریس اپنی زمین تلاش میں لگی ہے۔ اترپردیش میں سبھی جماعتوں کی نگاہیں مسلمانوں کے ووٹ پر ہے۔اس بیچ خبریہ ہے کہ دو ہزار سترہ اسمبلی انتخابات میں اقلیتی کے تین بڑے چہرے اور لیڈر یعنی اعظم خان۔اسد الدین اویسی اور امام بخاری ایک پلیٹ فارم پر آسکتے ہیں۔ان تینوں کے ساتھ آنے کے پیچھے دلیل یا ترک دیا جا رہا ہے کہ مسلم ووٹ بینک کو بکھرنے سے بچانے کے لئے یہ محاذ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف اس محاذ یا اتحاد پر سوال بھی اٹھ رہے ہیں۔ بنیادی سوال یہ کہ کیا یہ تینوں لیڈ ایک پلیٹ فارم پر آسانی سے آسکتے ہیں؟کیوں کہ ان تینوں لیڈران کی راہیں الگ الگ ہیں۔اور ماضی میں یہ لیڈران ایک دوسرے کی نکتہ چینی کرچکے ہیں ۔ایسے میں کیا یہ لوگ ماضی کی تلخیاں بھلا پائیں گے؟کیا یوپی کی سیاست میں اس بار مسلم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوپائیں گے؟
Subscribe to:
Posts (Atom)