Sunday 12 June 2016

بھائی چارے کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش؟

Time to Make India Muslim-Free

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔جہاں ہندو مسلم سکھ عیسائی سب شیر و شکر بن کے رہتے ہیں۔ملک کی آزادی میں ہندو بھائیوں کے ساتھ مسلمانوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔لیکن اس کے باوجود ملک میں اکثر و بیشر اس طرح کی آوازیں بلند ہوتی ہیں کہ مسلمان ملک کے غدار ہیں۔مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑ دینا چاہئے۔مسلمانوں کا ملک میں کوئی حصہ نہیں ہے۔خاص کرمرکز میں این ڈی اے حکومت بننے کے بعد اس طرح کے بیانات کی بھر مار ہے۔حالیہ دنوں میں بی جے پی رکن پارلیمنٹ  سادھوی پراچی نے کہا کہ مسلمانوں کو ہندوستان سے نکالنے کا وقت آ گیا ہے۔پراچی نے کہا کہ ملک کو کانگریس سے پاک کرنے کا مشن مکمل ہو چکا ہے اور اب مسلمانوں سے بھی پاک کرنے کا وقت آ گيا ہے۔سادھوی پراچی کے اس متنازعہ بیان پر سیاسی لیڈران سے لیکر عام آدمی تک نے نارضگی کا اظہار کیا۔خود وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے سادھوی کے اس بیان پر کہا کہ تنظیم نہیں چاہتی کہ مسلمانوں کو ملک سے نکال دیا جائے۔جبکہ بی جے پی کے سربراہ امت شاہ نے کہا ’پارٹی سادھوی پراچی کے متنازع بیانات کی حمایت نہیں کرتی، پارٹی کا واحد ایجنڈا ترقی ہے۔خیر۔بی جے پی اور وی ایچ پی لیڈران کی صفائی اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ سادھوی پراچی اور ان کے ہم خیال اور ہم نظریہ رہنماؤں کے بیانات کو کتنی سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ کیونکہ نہ ایسی بات پہلی مرتبہ کہی گئی ہے، اور نہ مسلمانوں کو پاکستان یا کہیں اور چلے جانے کا یہ آخری مشورہ ہوگا۔اس کے لیے ہندوستان کے سیاسی منظرنامے کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہاں ایک طبقہ ’جارح مسلمان بادشاہوں کی ایک ہزار سال کی حکمرانی‘ کا نام و نشان مٹانا چاہتا ہے اور وقفے وقفے سے اس نوعیت کے اشتعال انگیز بیانات دینے والے رہنما اسی نظریہ اور نصب العین کی عکاسی کرتی ہیں۔لیکن یہ بیان دینے والوں کو بھی معلوم ہے اور جن کے لیے یہ بیان دیے جاتے ہیں انھیں بھی، کہ کوئی کہیں نہیں جائے گا۔ہندوستان میں عام خیال ہے کہ جب جب انتخابات قریب ہوتے ہیں ۔تب تب ایسے بیانات سامنے آتے ہیں۔ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اور اپنے اپنے حق میں ماحول بنانے کی ہوڑ لگ جاتی ہے۔عام تاثر یہ ہے کہ آئندہ برس اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات مکمل ہونے تک اس طرح کے بیانات سے سیاسی ماحول کو گرم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔اور یہ سچ ہے کہ ہندوستان کی سیاست میں اتر پردیش کی خاص اہمیت ہے، یہاں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی ہے اور روایتی طور پر جو اتر پردیش کو کنٹرول کرتا ہے، دہلی پر اسی کا راج ہوتا ہے۔اس لیے اتر پردیش کی اس انتخابی جنگ میں تاریخ اور مذہب دونوں سے جس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، اٹھایا جائے گا۔شہروں میں رہنے والے بہت سے لوگ اس طرح کے بیانات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے لیکن دیہات میں، جہاں ہر ہوٹلوں ،نائی کی دکان اور چوپال پر سیاسی بحث مباحثے ہوتے ہیں، کوئی کسی کی کہی ہوئی بات نہیں بھولتا۔ اور اس کا خطرہ یہ ہے کہ مذہبی کشیدگی بڑھتی جاتی ہے، اور جو نقصان ہوتا ہے چاہ کر بھی الیکشن کے بعد اس کی تلافی نہیں کی جاسکتی۔سوال یہ ہے کہ اس طرح کے بیانات کو روکا کیسے جائے۔ ماضی میں جب بی جے پی کے کچھ سینیئر رہنماؤں نے ان مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دیا جو وزیراعظم نریندر مودی کو پسند نہیں کرتے، یا گاؤ کشی کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا، تو تجزیہ نگاروں کا یہ مشورہ تھا کہ وزیراعظم کو پہل کرنی چاہیے، وہ یہ واضح پیغام دیں کہ کوئی اشتعال انگیز بیان برداشت نہیں کیا جائے گا۔انھوں نے یہ تو کہا کہ ہندوستان میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو برابر حقوق حاصل ہیں، لیکن کسی رہنما کے ِخلاف کارروائی نہیں کی گئی حالانکہ یوگی آدتیہ ناتھ جیسے بہت سے رہنماؤں نے کئی مرتبہ مہذب سیاسی بحث کی حدود کو پار کیا۔دوسرا مسئلہ ان قوانین کے اطلاق کا ہے جو نفرت آمیز بیانات کو روکنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ شاید ہی کبھی کسی بڑے رہنما کو نفرت پھیلانے کے جرم میں سزا ہوئی ہو۔سادھوی پراچی کا تعلق وشو ہندو پریشد سے تھا۔ وی ایچ پی اور حکمراں بی جے پی دونوں نے ان کے بیان سے کنارہ کشی اختیار کی ہے۔لیکن جب تک ان لوگوں کے دلوں میں، جنھیں اپنی زبان پر یا تو قابو نہیں یا وہ کرنا نہیں چاہتے، قانون کا خوف گھر نہیں کرے گا، اس طرح کی بیان بازی ہوتی رہے گی۔ہندوستان کے مسلمان ایک عرصے سے کافی دباؤ محسوس کر رہے ہیں۔ بی جے پی کو مسلمان عموماً ایک مسلم مخالف پارٹی سمجھتے ہیں اس لیے بیشتر مسلمان اسے ووٹ نہیں دیتے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے اور اس کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثر و رسوخ سے مسمانوں کے اضطراب اور بےچینی میں اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم اور معیشت میں سب سے پیچھے رہ جانے کے بعد مسلمانوں میں اب نئے چیلنجز کا مقابلہ تعلیم کےذریعے کرنے کا رججان تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔سول سروسز کےامتحان ہوں یا مرکزی اور ریاستی تعلیمی بورڈوں کےامتحانات، ہر جگہ مسلمانوں کی تعداد بـڑھ رہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے قصبوں میں تعلیم کے میدان میں مسلمان بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔مسلمانوں کی معاشرتی سوچ میں بھی نمایاں تبدیلی آ رہی ہے۔ ایک جانب شادی اور طلاق کے سلسلے میں مسلم خواتین کے جمہوری حقوق کا مطابہ کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب خاندانی منصوبہ بندی پر عمل بھی زیادہ موثر طریقے سے ہو رہا ہے۔ مسلمان اب تیزی سے چھوٹی فیملی کا اصول اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ کم عمری میں بچیوں کی شادی کا چلن بھی بہت کم ہوگیا ہے۔تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جہاں مسلمان بڑی شدت سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ تعلیم کا جنون اتنا زیادہ ہے کہ ایک رپورٹ کےمطابق اتر پردیش کے صرف 13 ضلعوں میں آر ایس ایس کے زیرِ انتظام شیشو مندر سکولوں میں بھی 4,500 ہزار سے زیادہ مسلم طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ یہ تعداد ہر برس بڑھ رہی ہے۔کچھ دنوں پہلے یہ تصور بھی ممکن نہیں تھا۔دہشت گردی، مسلمانوں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر نفرت کی روش، تعلیم کی کمی اور 14 فی صد آبادی ہونے کے باوجود انڈیا کی سیاست اور معیشت میں بے اثر ہونے کےسبب ہندوستانی مسلمان ابھی تک دباؤ میں رہتے آئے ہیں۔ نفرتوں اور کئی سطح پر تفریق اور مشکلات نے مسلمانوں کی نئی نسل کو اور بھی زیادہ مضبوط بنا دیا ہے۔

Tuesday 7 June 2016



دادری میں پھر ماحول خراب کرنے کی کوشش؟

Dadri holds Panchayat On Beef Report

اترپردیش کے دادری میں ایک بار پھر ماحول خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔دراصل دادری میں محمد اخلاق کے قتل میں اخلاق حسین پر گائے کا گوشت رکھنے کے الزام میں شرپسندوں نے اخلاق کے افراد خاندان پر حملہ کیا ۔دوسری اور مبینہ فارنسک رپورٹ کے مطابق اخلاق کے فریج میں گائے کا گوشت تھا ۔ رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد اس معاملے پر سیاست تیز ہوگئی ہے ۔ اخلاق حسین کے خاندان پر حملہ کرنے کے الزام میں ایک درجن سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ فی الوقت یہ تمام افراد جیل میں قید ہیں ۔ اس معاملے میں دو فارنسک رپورٹس سامنے آئی ہیں اور دونوں ہی رپورٹس الگ الگ ہیں۔سوال دوسری پر اٹھ رہے ہیں کہ اتنے عرصے میں یہ رپورٹ کیسے بدل گئی؟۔بساڑہ گاؤں میں پیر کو ایک پنچایت منعقد کی گئی۔اس پنچایت میں  لوگوں نے حکومت سے محمد اخلاق کے اہل خانہ کے خلاف بیس دن کے اندر اندرگئو کشی کا مقدمہ درج کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔گاؤں والوں نے کہا کہ متھرا کی لیبارٹری کی رپورٹ کی بنیاد پر محمد اخلاق کے اہل خانہ کے خلاف گئوکشی کا مقدمہ درج کیا جائے۔واضح رہے کہ گزشتہ سال گائے کا گوشت رکھنے کے شبہ میں ایک مشتعل ہجوم نے بساڑہ گاؤں میں محمد اخلاق کے گھر پر حملہ کر دیا تھا۔ حملے میں محمد اخلاق کی موت ہو گئی تھی جبکہ ان کا چھوٹا بیٹا شدید زخمی ہو گیا تھا۔گزشتہ دنوں سامنے آئی لیبارٹری کی رپورٹ کے بعد گاؤں والوں نے مبینہ طور پر ایک سو سے زیادہ گاؤں کی مہا پنچایت بلائی تھی۔ حالانکہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کوئی مہا پنچایت نہیں ہوئی۔ بلکہ صرف میٹنگ بلائی گئی تھی۔اس میٹنگ میں بنیادی طور پر محمد اخلاق کے قتل کے سلسلے میں گرفتار کیے گئے لوگوں کے اہل خانہ کے علاوہ کچھ مقامی لوگ بھی تھے۔واقعہ کے سلسلے میں ایک مقامی رہنما کے بیٹے سمیت کل اٹھارہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔اس سے قبل ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اخلاق کے گھر کے فرج سے برآمد گوشت بکرے کا تھا جبکہ حال ہی میں ملزمان کے وکیل متھرا کی لیبارٹری کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جو گوشت سڑک پر محمد اخلاق کی لاش کے پاس سے برآمد ہوا تھا وہ بیف تھا۔اجلاس میں واضح طور پر محمد اخلاق کے گھر والوں پر مجرمانہ مقدمہ درج کرنےکے مطالبے کے ساتھ ساتھ خاندان کو دیا گیا معاوضہ واپس لینے کی مانگ بھی کی گئی۔لیکن۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ انتظامیہ کی سخت تنبیہ کے باوجو دادری میں پنچایت کیسے منعقد ہوئی؟اور سوال یہ بھی ہے کہ گاؤں کے لوگ قانون کیسے ہاتھ میں لے سکتے ہیں؟کیا یوپی اسمبلی انتخابات کو لیکر ایک بار پھر ریاست کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اور کیا اس پنچایت کے پیچھے سیاست کار فرما ہے؟ 

Thursday 2 June 2016

فیصلے سے متاثرین کے زخم بھریں گے؟

Special court convicts 24 for Gulbarg Society massacre

دو ہزار دو گجرات فسادات آزاد ہندوستان کے ماتھے کا بدنماداغ ہے ۔ گودھرا ٹرین آتشزدگی کے ٹھیک ایک دن بعد احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی میں ہونے والے قتلِ عام نے ریاستی سرکار پرسوال کھڑے کئے تھے۔اب چودہ سال کے طویل انتظار کے بعد گلبرگ سوسائٹی قتلِ عام کے مقدمے کا فیصلہ آیا ہے۔اس فیصلے میں چوبیس ملزمین کو قصوروار ٹھہرایا گیاہے۔جبکہ چھتیس  کو بری کر دیا گیا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتنی تاخیر سے آیا یہ یصلہ۔ کیا متاثرین کے زخموں پر مرہم کا کام کرے گا؟واضح رہے کہ سزا کا تعین چھ جون کوکیا جائیگا ۔ جن افراد کو عدالت نے مجرم قرار دیا ہے اس میں وشو ہندو پریشد کے ایک رہنما اتل ویدیہ بھی شامل ہیں۔۔ہم آپ کو بتا دیں کہ مشتعل ہجوم نے اٹھائیس  فروری دو ہزار دو کو احمد آباد کی گلبرگ ہاؤسنگ سوسائٹی میں داخل ہو کر انہتر افراد کوموت کے گھاٹ اتار دیا تھا جن میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمان احسان جعفری بھی  تھے۔۔ گلبرگ ہاؤسنگ سوسائٹی کیس کا یہ مقدمہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں چلا۔ گجرات فسادات سے متعلق دیگر مقدمات بھی سپریم کورٹ کی نگرانی میں جاری ہیں۔ مقدمے کی سماعت کے دوران چار افراد کی موت ہو چکی ہے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران چار ججوں کے تبادلے بھی ہوئے تھے۔جبکہ تین سو سے زیادہ افراد کی گواہی شامل کی گئی تھی ۔اس قتل عام نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔  سابق رکن پارلیمان احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری نے کہا کہ فیصلہ ادھورا ہے۔وہ اس معاملے کو اعلیٰ عدالت میں لے جائیں گی۔متاثرین کا کہنا ہے کہ شک عدالت کے فیصلے پر نہیں بلکہ ریاستی اور مرکزی حکومت کی نیت  پرہے۔

Wednesday 1 June 2016


اترپردیش میں نئی سیاسی صف بندی؟

Azam,Bukhari & Owaisi can come on a platform?

آسام میں بی جے پی کی جیت نے اترپردیش میں اس کے کارکنوں میں نئی جوش بھردی ہے۔ سہارنپور میں وزیراعظم نے چناوی بگل پھونک دی ۔ ریاست اترپردیش میں دو ہزار چودہ عام انتخابات میں بی جے پی کا مظاہرہ شانداررہا تھا اور اب پارٹی  اترپردیش پر فوکس کررہی ہے۔ یہاں بی جے پی کو سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی سے کڑی ٹکر ملنے والی ہے۔ یوپی کی چناوی بساط پرمہرے بچھائے جارہے ہیں ۔ کانگریس اپنی زمین تلاش میں لگی ہے۔ اترپردیش میں سبھی جماعتوں کی نگاہیں مسلمانوں کے ووٹ پر ہے۔اس بیچ  خبریہ ہے کہ دو ہزار سترہ اسمبلی انتخابات میں اقلیتی کے تین بڑے چہرے اور لیڈر یعنی اعظم خان۔اسد الدین اویسی اور امام بخاری ایک پلیٹ فارم پر آسکتے ہیں۔ان تینوں کے ساتھ آنے کے پیچھے  دلیل یا ترک دیا جا رہا ہے کہ مسلم ووٹ بینک کو بکھرنے سے بچانے کے لئے یہ محاذ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف اس محاذ یا اتحاد پر سوال بھی اٹھ رہے ہیں۔ بنیادی سوال یہ کہ کیا یہ تینوں لیڈ ایک پلیٹ فارم پر آسانی سے آسکتے ہیں؟کیوں کہ ان تینوں لیڈران کی راہیں الگ الگ ہیں۔اور ماضی میں یہ لیڈران ایک دوسرے کی نکتہ چینی کرچکے ہیں ۔ایسے میں کیا یہ لوگ ماضی کی تلخیاں بھلا پائیں گے؟کیا یوپی کی سیاست میں اس بار مسلم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوپائیں گے؟