بھائی چارے کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش؟
Time to Make India Muslim-Free
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔جہاں ہندو مسلم سکھ عیسائی سب شیر و شکر بن کے رہتے ہیں۔ملک کی آزادی میں ہندو بھائیوں کے ساتھ مسلمانوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔لیکن اس کے باوجود ملک میں اکثر و بیشر اس طرح کی آوازیں بلند ہوتی ہیں کہ مسلمان ملک کے غدار ہیں۔مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑ دینا چاہئے۔مسلمانوں کا ملک میں کوئی حصہ نہیں ہے۔خاص کرمرکز میں این ڈی اے حکومت بننے کے بعد اس طرح کے بیانات کی بھر مار ہے۔حالیہ دنوں میں بی جے پی رکن پارلیمنٹ سادھوی پراچی نے کہا کہ مسلمانوں کو ہندوستان سے نکالنے کا وقت آ گیا ہے۔پراچی نے کہا کہ ملک کو کانگریس سے پاک کرنے کا مشن مکمل ہو چکا ہے اور اب مسلمانوں سے بھی پاک کرنے کا وقت آ گيا ہے۔سادھوی پراچی کے اس متنازعہ بیان پر سیاسی لیڈران سے لیکر عام آدمی تک نے نارضگی کا اظہار کیا۔خود وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے سادھوی کے اس بیان پر کہا کہ تنظیم نہیں چاہتی کہ مسلمانوں کو ملک سے نکال دیا جائے۔جبکہ بی جے پی کے سربراہ امت شاہ نے کہا ’پارٹی سادھوی پراچی کے متنازع بیانات کی حمایت نہیں کرتی، پارٹی کا واحد ایجنڈا ترقی ہے۔خیر۔بی جے پی اور وی ایچ پی لیڈران کی صفائی اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ سادھوی پراچی اور ان کے ہم خیال اور ہم نظریہ رہنماؤں کے بیانات کو کتنی سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ کیونکہ نہ ایسی بات پہلی مرتبہ کہی گئی ہے، اور نہ مسلمانوں کو پاکستان یا کہیں اور چلے جانے کا یہ آخری مشورہ ہوگا۔اس کے لیے ہندوستان کے سیاسی منظرنامے کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہاں ایک طبقہ ’جارح مسلمان بادشاہوں کی ایک ہزار سال کی حکمرانی‘ کا نام و نشان مٹانا چاہتا ہے اور وقفے وقفے سے اس نوعیت کے اشتعال انگیز بیانات دینے والے رہنما اسی نظریہ اور نصب العین کی عکاسی کرتی ہیں۔لیکن یہ بیان دینے والوں کو بھی معلوم ہے اور جن کے لیے یہ بیان دیے جاتے ہیں انھیں بھی، کہ کوئی کہیں نہیں جائے گا۔ہندوستان میں عام خیال ہے کہ جب جب انتخابات قریب ہوتے ہیں ۔تب تب ایسے بیانات سامنے آتے ہیں۔ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اور اپنے اپنے حق میں ماحول بنانے کی ہوڑ لگ جاتی ہے۔عام تاثر یہ ہے کہ آئندہ برس اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات مکمل ہونے تک اس طرح کے بیانات سے سیاسی ماحول کو گرم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔اور یہ سچ ہے کہ ہندوستان کی سیاست میں اتر پردیش کی خاص اہمیت ہے، یہاں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی ہے اور روایتی طور پر جو اتر پردیش کو کنٹرول کرتا ہے، دہلی پر اسی کا راج ہوتا ہے۔اس لیے اتر پردیش کی اس انتخابی جنگ میں تاریخ اور مذہب دونوں سے جس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، اٹھایا جائے گا۔شہروں میں رہنے والے بہت سے لوگ اس طرح کے بیانات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے لیکن دیہات میں، جہاں ہر ہوٹلوں ،نائی کی دکان اور چوپال پر سیاسی بحث مباحثے ہوتے ہیں، کوئی کسی کی کہی ہوئی بات نہیں بھولتا۔ اور اس کا خطرہ یہ ہے کہ مذہبی کشیدگی بڑھتی جاتی ہے، اور جو نقصان ہوتا ہے چاہ کر بھی الیکشن کے بعد اس کی تلافی نہیں کی جاسکتی۔سوال یہ ہے کہ اس طرح کے بیانات کو روکا کیسے جائے۔ ماضی میں جب بی جے پی کے کچھ سینیئر رہنماؤں نے ان مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دیا جو وزیراعظم نریندر مودی کو پسند نہیں کرتے، یا گاؤ کشی کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا، تو تجزیہ نگاروں کا یہ مشورہ تھا کہ وزیراعظم کو پہل کرنی چاہیے، وہ یہ واضح پیغام دیں کہ کوئی اشتعال انگیز بیان برداشت نہیں کیا جائے گا۔انھوں نے یہ تو کہا کہ ہندوستان میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو برابر حقوق حاصل ہیں، لیکن کسی رہنما کے ِخلاف کارروائی نہیں کی گئی حالانکہ یوگی آدتیہ ناتھ جیسے بہت سے رہنماؤں نے کئی مرتبہ مہذب سیاسی بحث کی حدود کو پار کیا۔دوسرا مسئلہ ان قوانین کے اطلاق کا ہے جو نفرت آمیز بیانات کو روکنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ شاید ہی کبھی کسی بڑے رہنما کو نفرت پھیلانے کے جرم میں سزا ہوئی ہو۔سادھوی پراچی کا تعلق وشو ہندو پریشد سے تھا۔ وی ایچ پی اور حکمراں بی جے پی دونوں نے ان کے بیان سے کنارہ کشی اختیار کی ہے۔لیکن جب تک ان لوگوں کے دلوں میں، جنھیں اپنی زبان پر یا تو قابو نہیں یا وہ کرنا نہیں چاہتے، قانون کا خوف گھر نہیں کرے گا، اس طرح کی بیان بازی ہوتی رہے گی۔ہندوستان کے مسلمان ایک عرصے سے کافی دباؤ محسوس کر رہے ہیں۔ بی جے پی کو مسلمان عموماً ایک مسلم مخالف پارٹی سمجھتے ہیں اس لیے بیشتر مسلمان اسے ووٹ نہیں دیتے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے اور اس کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثر و رسوخ سے مسمانوں کے اضطراب اور بےچینی میں اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم اور معیشت میں سب سے پیچھے رہ جانے کے بعد مسلمانوں میں اب نئے چیلنجز کا مقابلہ تعلیم کےذریعے کرنے کا رججان تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔سول سروسز کےامتحان ہوں یا مرکزی اور ریاستی تعلیمی بورڈوں کےامتحانات، ہر جگہ مسلمانوں کی تعداد بـڑھ رہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے قصبوں میں تعلیم کے میدان میں مسلمان بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔مسلمانوں کی معاشرتی سوچ میں بھی نمایاں تبدیلی آ رہی ہے۔ ایک جانب شادی اور طلاق کے سلسلے میں مسلم خواتین کے جمہوری حقوق کا مطابہ کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب خاندانی منصوبہ بندی پر عمل بھی زیادہ موثر طریقے سے ہو رہا ہے۔ مسلمان اب تیزی سے چھوٹی فیملی کا اصول اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ کم عمری میں بچیوں کی شادی کا چلن بھی بہت کم ہوگیا ہے۔تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جہاں مسلمان بڑی شدت سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ تعلیم کا جنون اتنا زیادہ ہے کہ ایک رپورٹ کےمطابق اتر پردیش کے صرف 13 ضلعوں میں آر ایس ایس کے زیرِ انتظام شیشو مندر سکولوں میں بھی 4,500 ہزار سے زیادہ مسلم طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ یہ تعداد ہر برس بڑھ رہی ہے۔کچھ دنوں پہلے یہ تصور بھی ممکن نہیں تھا۔دہشت گردی، مسلمانوں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر نفرت کی روش، تعلیم کی کمی اور 14 فی صد آبادی ہونے کے باوجود انڈیا کی سیاست اور معیشت میں بے اثر ہونے کےسبب ہندوستانی مسلمان ابھی تک دباؤ میں رہتے آئے ہیں۔ نفرتوں اور کئی سطح پر تفریق اور مشکلات نے مسلمانوں کی نئی نسل کو اور بھی زیادہ مضبوط بنا دیا ہے۔
No comments:
Post a Comment