Sunday 4 December 2016

 Abdurrahman : First photo shoot
  Abdurrahman : First photo shoot
  Abdurrahman : First photo shoot
 Abdurrahman : First photo shoot

Monday 26 September 2016

Sunday 25 September 2016




Mann ki Baat have completed 2 years
اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے کئی اہم کام کئے۔جہاں وزیر اعظم نے اسٹارٹ اپ انڈیا۔۔اسٹینڈ اپ انڈیا  اور میک ان انڈیا کی  پہل کی۔تو ملک کے عوام کے خیالات۔افکار۔ملک کے موجودہ حالاتپر بات کرنے کے لئے ایک انوکھی پہل بھی کی۔جس کا نام رکھا من کی بات۔ وزیر اعظم نے من کی بات کے ذریعہ  عوام تک اپنی آواز پہنچائی۔ من کی بات کو دو سال مکمل ہوچکے ہیں ۔من کی بات پروگرام  سےوزیر اعظم نریندر مودی  براہ راست ملک کے ہر گھر تک پہنچے۔یہ ایک وزیر اعظم کا اپنے عوام تک اپنی بات پہنچانے کا ایک انوکھا طریقہ تھا۔۔مودی سے پہلے کبھی کسی وزیر اعظم نے اس طرح کی پہل نہیں کی۔۔ہاں۔کبھی کبھی یوم آزادی یا جشن جمہوریہ کے موقع پر وزیر اعظم ۔پلک کے عوام کو پیغام دیا کرتے تھے۔۔لیکن من کی کی بات اپنے آپ میں ایک نئی پہل تھی۔من کی بات میں وزیراعظم  مودی نے کبھی ملک کی تہذیب و ثقافت کی بات۔تو کبھی  ملک کے بدلتے ماحول کی۔کبھی کسانوں کے مسائل اٹھائے ۔تو کبھی دوردراز علاقوں میں رہنے والی ستر فیصد آبادی کو مخاطب کیا۔وزیر اعظم  من کی بات سے کبھی کھلاڑیوں میں  حوصلہ بڑھاتے نظر آئے۔تو بھی سرحدوں پر موجود جوانوں کی پیٹھ تھپتھپاتے دکھے۔من کی بات میں وزیر اعظم نے جہاں اپنے ہی وزرا کی کلاس لی تو  وزراتوں  کی کارکردگی  سوال بھی اٹھائے۔کشمیر سے لیکر کنیا کماری تک کے عوام کے مسائل کا ذکر کیا۔ملک کے مستقبل یعنی طلبا کو محنت اور لگن کا درس دیا۔۔تو بے روزگار نوجوانوں کو سجھاؤ اور مشورے بھی دئے۔تو  کبھی بیرون ممالک میں اپنے اہل و عیال سے دور رہ رہے لوگوں کے درد کو بھی بانٹا۔من کی بات میں وزیر اعظم نے ہمیشہ سب کا ساتھ سب کے وکاس   کے نعرے  کا بار بار ذکر کیا۔لیکن،ان سب کے بیچ وزیر اعظم کی من کی بات پر انگلیاں بھی اٹھیں۔گوکشی کے خلاف ملک میں بگڑے حالات۔گو رکشا کے نام پر ہو رہی غندہ گردی  پر وزیر  اعظم کی خاموشی پر سوال اٹھائے گئے وہیں پٹھان کوٹ اور اڑی حملے پر وزیر اعظم کی خاموشی اور ایکشن نہ لینے والے رویئے پر بھی ملک کے عوام میں ناراضگی دکھی۔لوگوں نے  یہاں تک کہہ ڈالا کہ وزیر اعظم صاحب اب من کی بات بہت ہوئی ۔اب ایکشن کی ضرورت ہے۔

Wednesday 14 September 2016

Hockey coach Muhammad Imran

 Once a hero, now a roadside vendor

Sunday 28 August 2016

Saturday 6 August 2016

Hum hain Tayyar  - Rio Olympics Special-On 31st July 2016

Friday 22 July 2016

 A special tribute to legend Mohd Shahid
 A special tribute to legend Mohd Shahid
 A special tribute to legend Mohd Shahid
A special tribute to legend Mohd Shahid

Sunday 12 June 2016

بھائی چارے کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش؟

Time to Make India Muslim-Free

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔جہاں ہندو مسلم سکھ عیسائی سب شیر و شکر بن کے رہتے ہیں۔ملک کی آزادی میں ہندو بھائیوں کے ساتھ مسلمانوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔لیکن اس کے باوجود ملک میں اکثر و بیشر اس طرح کی آوازیں بلند ہوتی ہیں کہ مسلمان ملک کے غدار ہیں۔مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑ دینا چاہئے۔مسلمانوں کا ملک میں کوئی حصہ نہیں ہے۔خاص کرمرکز میں این ڈی اے حکومت بننے کے بعد اس طرح کے بیانات کی بھر مار ہے۔حالیہ دنوں میں بی جے پی رکن پارلیمنٹ  سادھوی پراچی نے کہا کہ مسلمانوں کو ہندوستان سے نکالنے کا وقت آ گیا ہے۔پراچی نے کہا کہ ملک کو کانگریس سے پاک کرنے کا مشن مکمل ہو چکا ہے اور اب مسلمانوں سے بھی پاک کرنے کا وقت آ گيا ہے۔سادھوی پراچی کے اس متنازعہ بیان پر سیاسی لیڈران سے لیکر عام آدمی تک نے نارضگی کا اظہار کیا۔خود وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے سادھوی کے اس بیان پر کہا کہ تنظیم نہیں چاہتی کہ مسلمانوں کو ملک سے نکال دیا جائے۔جبکہ بی جے پی کے سربراہ امت شاہ نے کہا ’پارٹی سادھوی پراچی کے متنازع بیانات کی حمایت نہیں کرتی، پارٹی کا واحد ایجنڈا ترقی ہے۔خیر۔بی جے پی اور وی ایچ پی لیڈران کی صفائی اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ سادھوی پراچی اور ان کے ہم خیال اور ہم نظریہ رہنماؤں کے بیانات کو کتنی سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ کیونکہ نہ ایسی بات پہلی مرتبہ کہی گئی ہے، اور نہ مسلمانوں کو پاکستان یا کہیں اور چلے جانے کا یہ آخری مشورہ ہوگا۔اس کے لیے ہندوستان کے سیاسی منظرنامے کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہاں ایک طبقہ ’جارح مسلمان بادشاہوں کی ایک ہزار سال کی حکمرانی‘ کا نام و نشان مٹانا چاہتا ہے اور وقفے وقفے سے اس نوعیت کے اشتعال انگیز بیانات دینے والے رہنما اسی نظریہ اور نصب العین کی عکاسی کرتی ہیں۔لیکن یہ بیان دینے والوں کو بھی معلوم ہے اور جن کے لیے یہ بیان دیے جاتے ہیں انھیں بھی، کہ کوئی کہیں نہیں جائے گا۔ہندوستان میں عام خیال ہے کہ جب جب انتخابات قریب ہوتے ہیں ۔تب تب ایسے بیانات سامنے آتے ہیں۔ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اور اپنے اپنے حق میں ماحول بنانے کی ہوڑ لگ جاتی ہے۔عام تاثر یہ ہے کہ آئندہ برس اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات مکمل ہونے تک اس طرح کے بیانات سے سیاسی ماحول کو گرم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔اور یہ سچ ہے کہ ہندوستان کی سیاست میں اتر پردیش کی خاص اہمیت ہے، یہاں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی ہے اور روایتی طور پر جو اتر پردیش کو کنٹرول کرتا ہے، دہلی پر اسی کا راج ہوتا ہے۔اس لیے اتر پردیش کی اس انتخابی جنگ میں تاریخ اور مذہب دونوں سے جس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، اٹھایا جائے گا۔شہروں میں رہنے والے بہت سے لوگ اس طرح کے بیانات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے لیکن دیہات میں، جہاں ہر ہوٹلوں ،نائی کی دکان اور چوپال پر سیاسی بحث مباحثے ہوتے ہیں، کوئی کسی کی کہی ہوئی بات نہیں بھولتا۔ اور اس کا خطرہ یہ ہے کہ مذہبی کشیدگی بڑھتی جاتی ہے، اور جو نقصان ہوتا ہے چاہ کر بھی الیکشن کے بعد اس کی تلافی نہیں کی جاسکتی۔سوال یہ ہے کہ اس طرح کے بیانات کو روکا کیسے جائے۔ ماضی میں جب بی جے پی کے کچھ سینیئر رہنماؤں نے ان مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دیا جو وزیراعظم نریندر مودی کو پسند نہیں کرتے، یا گاؤ کشی کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا، تو تجزیہ نگاروں کا یہ مشورہ تھا کہ وزیراعظم کو پہل کرنی چاہیے، وہ یہ واضح پیغام دیں کہ کوئی اشتعال انگیز بیان برداشت نہیں کیا جائے گا۔انھوں نے یہ تو کہا کہ ہندوستان میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو برابر حقوق حاصل ہیں، لیکن کسی رہنما کے ِخلاف کارروائی نہیں کی گئی حالانکہ یوگی آدتیہ ناتھ جیسے بہت سے رہنماؤں نے کئی مرتبہ مہذب سیاسی بحث کی حدود کو پار کیا۔دوسرا مسئلہ ان قوانین کے اطلاق کا ہے جو نفرت آمیز بیانات کو روکنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ شاید ہی کبھی کسی بڑے رہنما کو نفرت پھیلانے کے جرم میں سزا ہوئی ہو۔سادھوی پراچی کا تعلق وشو ہندو پریشد سے تھا۔ وی ایچ پی اور حکمراں بی جے پی دونوں نے ان کے بیان سے کنارہ کشی اختیار کی ہے۔لیکن جب تک ان لوگوں کے دلوں میں، جنھیں اپنی زبان پر یا تو قابو نہیں یا وہ کرنا نہیں چاہتے، قانون کا خوف گھر نہیں کرے گا، اس طرح کی بیان بازی ہوتی رہے گی۔ہندوستان کے مسلمان ایک عرصے سے کافی دباؤ محسوس کر رہے ہیں۔ بی جے پی کو مسلمان عموماً ایک مسلم مخالف پارٹی سمجھتے ہیں اس لیے بیشتر مسلمان اسے ووٹ نہیں دیتے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے اور اس کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثر و رسوخ سے مسمانوں کے اضطراب اور بےچینی میں اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم اور معیشت میں سب سے پیچھے رہ جانے کے بعد مسلمانوں میں اب نئے چیلنجز کا مقابلہ تعلیم کےذریعے کرنے کا رججان تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔سول سروسز کےامتحان ہوں یا مرکزی اور ریاستی تعلیمی بورڈوں کےامتحانات، ہر جگہ مسلمانوں کی تعداد بـڑھ رہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے قصبوں میں تعلیم کے میدان میں مسلمان بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔مسلمانوں کی معاشرتی سوچ میں بھی نمایاں تبدیلی آ رہی ہے۔ ایک جانب شادی اور طلاق کے سلسلے میں مسلم خواتین کے جمہوری حقوق کا مطابہ کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب خاندانی منصوبہ بندی پر عمل بھی زیادہ موثر طریقے سے ہو رہا ہے۔ مسلمان اب تیزی سے چھوٹی فیملی کا اصول اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ کم عمری میں بچیوں کی شادی کا چلن بھی بہت کم ہوگیا ہے۔تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جہاں مسلمان بڑی شدت سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ تعلیم کا جنون اتنا زیادہ ہے کہ ایک رپورٹ کےمطابق اتر پردیش کے صرف 13 ضلعوں میں آر ایس ایس کے زیرِ انتظام شیشو مندر سکولوں میں بھی 4,500 ہزار سے زیادہ مسلم طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ یہ تعداد ہر برس بڑھ رہی ہے۔کچھ دنوں پہلے یہ تصور بھی ممکن نہیں تھا۔دہشت گردی، مسلمانوں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر نفرت کی روش، تعلیم کی کمی اور 14 فی صد آبادی ہونے کے باوجود انڈیا کی سیاست اور معیشت میں بے اثر ہونے کےسبب ہندوستانی مسلمان ابھی تک دباؤ میں رہتے آئے ہیں۔ نفرتوں اور کئی سطح پر تفریق اور مشکلات نے مسلمانوں کی نئی نسل کو اور بھی زیادہ مضبوط بنا دیا ہے۔

Tuesday 7 June 2016



دادری میں پھر ماحول خراب کرنے کی کوشش؟

Dadri holds Panchayat On Beef Report

اترپردیش کے دادری میں ایک بار پھر ماحول خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔دراصل دادری میں محمد اخلاق کے قتل میں اخلاق حسین پر گائے کا گوشت رکھنے کے الزام میں شرپسندوں نے اخلاق کے افراد خاندان پر حملہ کیا ۔دوسری اور مبینہ فارنسک رپورٹ کے مطابق اخلاق کے فریج میں گائے کا گوشت تھا ۔ رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد اس معاملے پر سیاست تیز ہوگئی ہے ۔ اخلاق حسین کے خاندان پر حملہ کرنے کے الزام میں ایک درجن سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ فی الوقت یہ تمام افراد جیل میں قید ہیں ۔ اس معاملے میں دو فارنسک رپورٹس سامنے آئی ہیں اور دونوں ہی رپورٹس الگ الگ ہیں۔سوال دوسری پر اٹھ رہے ہیں کہ اتنے عرصے میں یہ رپورٹ کیسے بدل گئی؟۔بساڑہ گاؤں میں پیر کو ایک پنچایت منعقد کی گئی۔اس پنچایت میں  لوگوں نے حکومت سے محمد اخلاق کے اہل خانہ کے خلاف بیس دن کے اندر اندرگئو کشی کا مقدمہ درج کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔گاؤں والوں نے کہا کہ متھرا کی لیبارٹری کی رپورٹ کی بنیاد پر محمد اخلاق کے اہل خانہ کے خلاف گئوکشی کا مقدمہ درج کیا جائے۔واضح رہے کہ گزشتہ سال گائے کا گوشت رکھنے کے شبہ میں ایک مشتعل ہجوم نے بساڑہ گاؤں میں محمد اخلاق کے گھر پر حملہ کر دیا تھا۔ حملے میں محمد اخلاق کی موت ہو گئی تھی جبکہ ان کا چھوٹا بیٹا شدید زخمی ہو گیا تھا۔گزشتہ دنوں سامنے آئی لیبارٹری کی رپورٹ کے بعد گاؤں والوں نے مبینہ طور پر ایک سو سے زیادہ گاؤں کی مہا پنچایت بلائی تھی۔ حالانکہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کوئی مہا پنچایت نہیں ہوئی۔ بلکہ صرف میٹنگ بلائی گئی تھی۔اس میٹنگ میں بنیادی طور پر محمد اخلاق کے قتل کے سلسلے میں گرفتار کیے گئے لوگوں کے اہل خانہ کے علاوہ کچھ مقامی لوگ بھی تھے۔واقعہ کے سلسلے میں ایک مقامی رہنما کے بیٹے سمیت کل اٹھارہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔اس سے قبل ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اخلاق کے گھر کے فرج سے برآمد گوشت بکرے کا تھا جبکہ حال ہی میں ملزمان کے وکیل متھرا کی لیبارٹری کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جو گوشت سڑک پر محمد اخلاق کی لاش کے پاس سے برآمد ہوا تھا وہ بیف تھا۔اجلاس میں واضح طور پر محمد اخلاق کے گھر والوں پر مجرمانہ مقدمہ درج کرنےکے مطالبے کے ساتھ ساتھ خاندان کو دیا گیا معاوضہ واپس لینے کی مانگ بھی کی گئی۔لیکن۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ انتظامیہ کی سخت تنبیہ کے باوجو دادری میں پنچایت کیسے منعقد ہوئی؟اور سوال یہ بھی ہے کہ گاؤں کے لوگ قانون کیسے ہاتھ میں لے سکتے ہیں؟کیا یوپی اسمبلی انتخابات کو لیکر ایک بار پھر ریاست کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اور کیا اس پنچایت کے پیچھے سیاست کار فرما ہے؟ 

Thursday 2 June 2016

فیصلے سے متاثرین کے زخم بھریں گے؟

Special court convicts 24 for Gulbarg Society massacre

دو ہزار دو گجرات فسادات آزاد ہندوستان کے ماتھے کا بدنماداغ ہے ۔ گودھرا ٹرین آتشزدگی کے ٹھیک ایک دن بعد احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی میں ہونے والے قتلِ عام نے ریاستی سرکار پرسوال کھڑے کئے تھے۔اب چودہ سال کے طویل انتظار کے بعد گلبرگ سوسائٹی قتلِ عام کے مقدمے کا فیصلہ آیا ہے۔اس فیصلے میں چوبیس ملزمین کو قصوروار ٹھہرایا گیاہے۔جبکہ چھتیس  کو بری کر دیا گیا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتنی تاخیر سے آیا یہ یصلہ۔ کیا متاثرین کے زخموں پر مرہم کا کام کرے گا؟واضح رہے کہ سزا کا تعین چھ جون کوکیا جائیگا ۔ جن افراد کو عدالت نے مجرم قرار دیا ہے اس میں وشو ہندو پریشد کے ایک رہنما اتل ویدیہ بھی شامل ہیں۔۔ہم آپ کو بتا دیں کہ مشتعل ہجوم نے اٹھائیس  فروری دو ہزار دو کو احمد آباد کی گلبرگ ہاؤسنگ سوسائٹی میں داخل ہو کر انہتر افراد کوموت کے گھاٹ اتار دیا تھا جن میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمان احسان جعفری بھی  تھے۔۔ گلبرگ ہاؤسنگ سوسائٹی کیس کا یہ مقدمہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں چلا۔ گجرات فسادات سے متعلق دیگر مقدمات بھی سپریم کورٹ کی نگرانی میں جاری ہیں۔ مقدمے کی سماعت کے دوران چار افراد کی موت ہو چکی ہے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران چار ججوں کے تبادلے بھی ہوئے تھے۔جبکہ تین سو سے زیادہ افراد کی گواہی شامل کی گئی تھی ۔اس قتل عام نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔  سابق رکن پارلیمان احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری نے کہا کہ فیصلہ ادھورا ہے۔وہ اس معاملے کو اعلیٰ عدالت میں لے جائیں گی۔متاثرین کا کہنا ہے کہ شک عدالت کے فیصلے پر نہیں بلکہ ریاستی اور مرکزی حکومت کی نیت  پرہے۔

Wednesday 1 June 2016


اترپردیش میں نئی سیاسی صف بندی؟

Azam,Bukhari & Owaisi can come on a platform?

آسام میں بی جے پی کی جیت نے اترپردیش میں اس کے کارکنوں میں نئی جوش بھردی ہے۔ سہارنپور میں وزیراعظم نے چناوی بگل پھونک دی ۔ ریاست اترپردیش میں دو ہزار چودہ عام انتخابات میں بی جے پی کا مظاہرہ شانداررہا تھا اور اب پارٹی  اترپردیش پر فوکس کررہی ہے۔ یہاں بی جے پی کو سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی سے کڑی ٹکر ملنے والی ہے۔ یوپی کی چناوی بساط پرمہرے بچھائے جارہے ہیں ۔ کانگریس اپنی زمین تلاش میں لگی ہے۔ اترپردیش میں سبھی جماعتوں کی نگاہیں مسلمانوں کے ووٹ پر ہے۔اس بیچ  خبریہ ہے کہ دو ہزار سترہ اسمبلی انتخابات میں اقلیتی کے تین بڑے چہرے اور لیڈر یعنی اعظم خان۔اسد الدین اویسی اور امام بخاری ایک پلیٹ فارم پر آسکتے ہیں۔ان تینوں کے ساتھ آنے کے پیچھے  دلیل یا ترک دیا جا رہا ہے کہ مسلم ووٹ بینک کو بکھرنے سے بچانے کے لئے یہ محاذ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف اس محاذ یا اتحاد پر سوال بھی اٹھ رہے ہیں۔ بنیادی سوال یہ کہ کیا یہ تینوں لیڈ ایک پلیٹ فارم پر آسانی سے آسکتے ہیں؟کیوں کہ ان تینوں لیڈران کی راہیں الگ الگ ہیں۔اور ماضی میں یہ لیڈران ایک دوسرے کی نکتہ چینی کرچکے ہیں ۔ایسے میں کیا یہ لوگ ماضی کی تلخیاں بھلا پائیں گے؟کیا یوپی کی سیاست میں اس بار مسلم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوپائیں گے؟

Saturday 28 May 2016

اچھے دن کب آیئں گے؟

2 Years Of Narendra Modi Government

این ڈی اے حکومت اور مودی کی وزرات عظمیٰ کو دو سال مکمل ہونے پر این ڈی اے اور خاص کر بی جے پی جشن میں ڈوبی ہوئی ہے۔اس جشن کا سلسلہ یوپی میں سہارنپور میں بی جے پی کی شاندار ریلی سے شروع ہوا۔اور اب دہلی کے انڈیا گیٹ پر پانچ گھنٹے طویل جشن منایا جا رہا ہے۔جس میں مختلف کلچرل پروگرام پیش کئے جائیں گے۔اس پروگرام میں وزیر اعظم مودی۔مرکزی وزرا۔بی جے پی اقتدار والی ریاستوں کے وزرا اعلیٰ۔اور بی جے پی کی اتحادی پارٹیوں کے سربراہان اور کارکنان شرکت کریں گے۔اور جشن کا یہ سلسلہ یہیں نہیں تھمے گا۔بی جے پی پورے ملک میں دو سو مقامات پر جشن کے پروگرام منعقد کرے گی۔ہم آپ کو یاد دلادیں کہ سال دو ہزار چودہ میں چھبیس مئی کے دن مودی نے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لیا تھا۔اور پہلی بار دہلی کے تخت پر براجمان ہوئے تھے۔اس وقت مودی نے دہلی کے لال قلعہ سے عوام کو ترقی۔بھائی چارے۔بد عنوانی سے پاک ہندوستان۔غربت کا خاتمہ کرنے جیسے سینکڑوں وعدے کئے تھے۔لیکن۔ان دو برسوں میں این ڈی اے حکومت اور مودی جی نے کتنے وعدے وفا کئے۔یہ تو سرکار کی دو سالہ رپورٹ کارڈ سے ہی صاف ظاہر ہو جاتا ہے۔وزیر اعظم مودی کے دو سال مکمل ہونے پر اب سوال یہ اٹھ رہا ہےکہ ان دو برسوں میں مودی حکومت نے کیا پایا اور کیا کھویا؟اور سوال یہ بھی ہے کہ مودی حکومت نے ان دو برسوں میں کتنے وعدے وفا کئے؟کیوں کہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے حصوں میں ایک امید جگی تھی۔عوام کو وزیر اعظم مودی سے کافی امیدیں وابستہ تھیں۔اور اس بات کا ثبوت تھا دو ہزار چودہ میں این ڈی اے کو ملی بھاری بھرکم جیت۔اس جیت میں ملک کی تمام ریاستوں اور ہر طبقے کا ساتھ مودی کو ملا۔بی جے پی اور خاص کر نریندر مودی نے ملک کی تصویر بدلنے کا عوام سے وعدہ کیا۔ بیلک منی کو ملک واپس لانا۔بدعنوانی پر لگام کسنا۔مہنگائی پر قابو پانا وغیر وغیرہ۔ملک کی عوام نے مودی پر آنکھ موند کر بھروسہ کیا۔عوام کو اس سرکار سے معیشت میں بہتری لانے کی امید تھی۔کیوں کہ جب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے ۔تب انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہی ایک لیڈر ہیں جو ہندوستان کو آگے لے جاسکتے ہیں۔اس وقت لگا تھا کہ اب ملک کی قسمت بدلنے والی ہے۔لیکن ان دو برسوں میں اس سرکار نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔جس سے کہا جائے کہ یہ حکومت اپنے وعدوں پر کھرا اتری ہے۔بلکہ سرکار اور بی جے پی ملکی اور اپنے اندرونی خلفشار کا ہی شکار رہی۔مرکز میں نئی سرکار آتے ہی گھر واپسی ۔گاؤ کشی ہتیہ پر پابندی کی مانگ اٹھی۔اسی بیچ حیدرآباد یونیورسٹی میں ویمولا خودکشی اور جے این یو میں ملک مخالف نعرے بازی کا معاملہ سرخیوں میں رہا۔ملک میں پھیلی بے چینی کے بیچ اپوزیشن ایک پلیٹ فارم پر نظر آیا اور پارلیمنٹ میں سرکار کی ایک نہ چلنے دی۔اور کئی اہم بل ایوان میں لٹکے ہی رہ گئے۔دوسری جانب مودی سرکار اپنے پڑوسی ممالک سے رشتے سدھارنے میں تھوڑی کامیاب نظر آئی۔پاکستان اور چین سے اچھے رشتے قائم ہوئے۔خیر۔ان دو برسوں میں مودی حکومت نے  جہاں بہت کچھ پایا ہے۔تو وہیں بہت کچھ کھویا بھی ہے۔ایک طرف جہاں ملک کی عوم کو ان دو برسوں میں  صرف وعدے اور بیرون ممالک کے سفر  ہی ہاتھ لگے ہیں۔تو وہیں عوام اس انتظار میں بھی ہے  کہ یہ سرکار ایکشن میں نظر کب آئے گی؟عوام کو انتظار ہے اچھے دنوں کا۔دوسری طرف اپوزیشن  مودی حکومت کے ان دو برسوں کو خامیوں سے پر تعبیر کر رہی ہے ۔کانگریس کا کہنا ہے کہ ان دو برسوں میں مودی سرکار نے  کہا زیادہ اور کیا کچھ نہیں۔مودی بدعنوانی پر لگام لگانے کی قسم  تو کھاتے ہیں ۔پر حقیقت میں وسندھرا راجےسے لیکر رمن سنگھ تک اپنے ہی وزرائے اعلیٰ پر لگ رہے بد عنوانی کے الزامات کو ان دیکھا کرتے ہیں۔انکی پارٹی پاکستان کو سبق سکھانے کی بات تو کرتی ہے۔لیکن مودی اپنی حلف برداری تقریب سے لیکر نوازشریف کی ناتن کی شادی تک میں ان سے ہاتھ ملاتے  دکھتے ہیں۔یعنی جو گجرات کی گدی سے دکھتا تھا۔وہ دہلی کے لال قلعہ سے کچھ اور ہی دکھتا ہے۔ادھر۔مودی سرکار  کے ان دو برسوں میں اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں  کو بھی  مایوسی ہی ہاتھ لگی ہے۔مودی سرکار کی مسلم سماج سے بے رخی اور فرقہ پرستی کو ہوا ملی یوپی کےدادری واقعہ سے ۔جہاں محض گائے کا گوشت رکھنے کی افواہ پر مشتعل بھیڑ نے ایک  مسلم شخص کا بہیمانہ قتل کر دیا ۔اس واقعہ کو لیکر ملک میں عدم رواداری پر ایک نئی بحث چھڑ گئی۔اور ایوارڈ اور اعزاز واپسی کے سلسلے نے مودی حکومت کو  سوچنے پر مجبور کر دیا۔اس کا اثر بہار میں دیکھنے کو ملا۔جہاں بی جے پی کی کراری شکست ہوئی۔خیر۔اب آسام کی جیت نے بی جے پی کے لئے کچھ راحت کا کام کیا ہے۔لیکن،بات پھر اس سرکار کے وعدوں پر آکر  رک جاتی ہے۔کہ مودی جی۔اچھے دن کب آئیں گے؟اور اب لوگ پوچھنے لگے ہیں کہ دو ہزار انیس میں کیا ہوگا؟

Friday 27 May 2016


اظہار خیال کی آزادی خطرے میں؟

Madhya Pradesh Govt removes Barwani collector for praising Nehru

ملک میں اکثرو بیشتر اظہار خیال کی آزادی  پر بات ہوتی رہتی ہے۔اس کی بڑی وجہ ہے۔ملک میں رونما ہونے والے ایسے واقعات ۔جو اظہار خیال کی آزادی کے خلاف سامنے آتے ہیں۔چاہے وہ کانگریس کا زمانہ رہا ہو یا بی جے پی کا۔ہر دور میں اس طرح کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔اور اب ایسا ہی ایک واقعہ سامنے آیا ہے۔مدھیہ پردیش میں ۔جہاں ایک افسر کا تبادلہ صرف اس بنا پر کردیا گیا۔کیوں کہ انہوں نے گاندھی ۔نہرو خاندان کی تعریف کی تھی۔اور وہ بھی سوشل میڈیا یعنی فیس بک پر۔  کلکٹر اجے گنگوار کو فیس بک پرنہرو اور گاندھی خاندان کی تعریف کرنا اتنا  مہنگا  پڑے گا۔شاید کلکٹر صاحب نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔
چلئے اب۔ذرا آپ کو اس پوسٹ کے بارے میں بتا دیں جو اجے گنگوار نے  بدھ کے روز اپنی فیس بک پوسٹ  کیا تھا۔انہوں نے  لکھا تھا۔ذرا وہ غلطیاں بتا دیجیئے جو نہرو کو نہیں کرنی چاہیے تھیں۔ اگر انہوں نے سنہ انیس سو سینتالیس میں آپ کو ہندو طالبان قوم بننے سے روکا تو کیا یہ ان کی غلطی تھی۔ انہوں اے آئی آئی ٹی۔اسرو۔ آئی آئی ایس بی۔ آئی آئی ایم۔ بھیل اسٹیل پلانٹز۔ڈیمز۔ تھرمل پاور پلانٹ لگوائے ۔یہ ان غلطی تھی ۔اجے گنگوار نے مزید لکھا تھا: 'آسارام اور رام دیو جیسے انٹیلیکچولزکی جگہ سارا بھائی اور ہومی جہانگیر کو عزت اور کام کرنے کا موقع دیا یہ ان کی غلطی تھی، انہوں نے ملک میں گاؤشالہ اور مندر کی جگہ یونیورسٹیاں کھولیں یہ بھی ان کی بڑی غلطی تھی۔
دراصل مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے۔یہی وجہ ہے کہ تمام تنقیدیں ریاستی سرکار کی ہو رہی ہیں۔اجے گنگوار کو کلیکٹر کے عہدے سے ہٹا کر سیکرٹریٹ میں نائب سکریٹری مقرر کیا  گیاہے۔پہلے فیس بک پر اجے گنگوار کی اس پوسٹ پر بحث اور اب اس معاملے پر سیاست شروع ہوگئی ہے۔ریاستی وزیر لعل سنگھ آریہ نے بھی اجے گنگوار کی اس پوسٹ پر اعتراض کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی یہ بات طے مانی جا رہی تھی کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔لال سنگھ آریہ نے کہا تھا کہ سول سروسز کے اصول و ضوابط اور قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی جانی چاہیے۔ اظہار  خیال کی آزادی سب کو ہے لیکن قوانین پر بھی عمل ہونا چاہیے۔خیر۔ملک میں یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔جہاں کسی کی تعریف اور ہجو میں اس طرح کا سلوک کیا گیا ہو۔آپ کو یاد دلا دیں کہ اس سے پہلے ضلع نرسنگھ پور کے کلیکٹر سی بی چکرورتی نےتمل ناڈو میں جے للتا کی جیت پر سوشل میڈیا میں مبارکباد پیش کی تھی۔ لیکن مخالفت کے بعد انھوں نے بھی اپنی پوسٹ کو ہٹا لیا تھا۔خیر۔ملک میں اب کیرل سے لیکر جموں کشمیر تک بی جے پی اور اسکی اتحادی پارٹیوں کی حکومت ہے۔ایسے میں کبھی اظہار خیال کی آزادی۔کبھی نصابی کتابوں میں ترمیم ۔اور کبھی  مجاہدین آزادی اور کانگریسی رہنماؤں کے ناموں اور انکے کارناموں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعات سامنے آنا عام سی بات ہوگئی ہے۔ چند روز قبل ہی کی بات ہے کہ ریاست راجستھان میں اسکول کی نصابی کتابوں سے نہرو کا نام حذف کرنے کی خبریں آئی تھیں۔جب میڈیا میں اس طرح کی خبریں آئیں تو بیان جاری کر کے کہا گيا کہ یہ غلطی سے ہوگیا ہے۔ جسے جلد ہی درست کر لیا جائے گا۔ماہرین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی اپنے قائدین کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ کانگریسی رہنماؤں کے نام پر بہت سی اسکیموں کے نام بھی تبدیل کر رہی ہے۔جبکہ اپوزیشن کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ اسے بی جے پی کے رہنماؤں کی تشہیر سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اس کے رہنماؤں نے جنگ آزادی میں اہم کردار ادا کیا تھا اور جدید بھارت کی بنیاد رکھی تھی اس لیے انہیں نظر انداز نہیں کیا جا نا چاہیے۔خیر۔اس طرح کی خبروں سے ملک و ریاست کی شبیہ داغ دار ہوتی ہے۔ایسے واقعات پر لگام لگنی چاہئے۔

Thursday 26 May 2016

 
کتنا سچا  ہے تیرا وعدہ ؟

Narendra Modi Government Completes Two Years In Power
این ڈی اے حکومت اور مودی کی وزرات عظمیٰ کو دو سال مکمل ہوگئے ہیں۔سال دو ہزار چودہ میں چھبیس مئی کے ہی دن مودی نے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لیا تھا۔وزیر اعظم مودی کے دو سال مکمل ہونے پر سوال یہ اٹھ رہا ہےکہ ان دو برسوں میں مودی حکومت نے کیا پایا اور کیا کھویا؟اور سوال یہ بھی ہے کہ مودی حکومت نے ان دو برسوں میں کتنے وعدے وفا کئے؟سال دو ہزار چودہ میں لوک سبھا انتخابات کے وقت نریندر مودی نے ملک کے عوام سے کئی بڑے بڑے وعدے کئے تھے۔جن میں بیلک منی کو ملک واپس لانا۔بدعنوانی پر لگام کسنا۔مہنگائی پر قابو پانا وغیر وغیرہ۔اور اس وقت مودی نے ملک کے عوام کو ایک نعرہ دیا تھا۔سب کا ساتھ سب کا وکاس۔اقتدار کے  دو سال مکمل ہونے پر  ۔  بی جے پی نے  اپنے جشن کا آغاز یوپی کے سہارنپور سے کیا ہے۔دراصل بی جے پی ۔ سہارنپور ریلی   کے ذریعہ ۔ایک تیر سے کئی نشانے سادھنے کی تاک  میں ہے۔ایک طرف مرکزی حکومت کا دو سالہ جشن تو دوسری طرف یوپی اسمبلی انتخابات کے لئے بگل بجانا۔اور تیسر ے ۔اس ریلی کے ذریعہ بی جے پی کیڈر کو متحد کر نا اور ایک پلیٹ فارم پر لانا۔خیر۔ان دو برسوں میں مودی حکومت نے  جہاں بہت کچھ پایا ہے۔تو وہیں بہت کچھ کھویا بھی ہے۔ایک طرف جہاں ملک کی عوم کو ان دو برسوں میں  صرف وعدے اور بیرون ممالک کے سفر  ہی ہاتھ لگے ہیں۔تو وہیں عوام اس انتظار میں بھی ہے  کہ یہ سرکار ایکشن میں نظر کب آئے گی؟عوام کو انتظار ہے اچھے دنوں کا۔دوسری طرف اپوزیشن  مودی حکومت کے ان دو برسوں کو خامیوں سے پر تعبیر کر رہی ہے ۔کانگریس کا کہنا ہے کہ ان دو برسوں میں مودی سرکار نے  کہا زیادہ اور کیا کچھ نہیں۔مودی بدعنوانی پر لگام لگانے کی قسم  تو کھاتے ہیں ۔پر حقیقت میں وسندھرا راجےسے لیکر رمن سنگھ تک اپنے ہی وزرائے اعلیٰ پر لگ رہے بد عنوانی کے الزامات کو ان دیکھا کرتے ہیں۔انکی پارٹی پاکستان کو سبق سکھانے کی بات تو کرتی ہے۔لیکن مودی اپنی حلف برداری تقریب سے لیکر نوازشریف کی بیٹی کی شادی تک میں ان سے ہاتھ ملاتے  دکھتے ہیں۔یعنی جو گجرات کی گدی سے دکھتا تھا۔وہ دہلی کے لال قلعہ سے کچھ اور ہی دکھتا ہے۔ادھر۔مودی سرکار  کے ان دو برسوں میں اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں  کو بھی  مایوسی ہی ہاتھ لگی ہے۔مودی سرکار کی مسلم سماج سے بے رخی اور فرقہ پرستی کو ہو املی یوپی کےدادری واقعہ سے ۔جہاں محض گائے کا گوشت رکھنے کی افواہ پر مشتعل بھیڑ نے ایک  مسلم شخص کا بہیمانہ قتل کر دیا ۔اس واقعہ کو لیکر ملک میں عدم رواداری پر ایک نئی بحث چھڑ گئی۔اور ایوارڈ اور اعزاز واپسی کے سلسلے نے مودی حکومت کو  سوچنے پر مجبور کر دیا۔اس کا اثر بہار میں دیکھنے کو ملا۔جہاں بی جے پی کی کراری شکست ہوئی۔خیر۔اب آسام کی جیت نے بی جے پی کے لئے کچھ راحت کا کام کیا ہے۔لیکن،بات پھر اس سرکار کے وعدوں پر آکر  رک جاتی ہے۔کہ مودی جی۔اچھے دن کب آئیں گے؟اور اب لوگ پوچھنے لگے ہیں کہ دو ہزار انیس میں کیا ہوگا؟

Monday 23 May 2016

ٹریننگ کے پیچھے کا سچ؟

Bajrang Dal men get arms training 'to save Hindus'

جیسے جیسے اترپردیش اسمبلی انتخابات قریب آرہے ہیں۔ویسے ویسے یوپی میں ہندو تنظیمیں متحرک ہو رہی ہیں۔پچھلے دنوں بنارس میں ہندو آرمی بنانے کی خبر سامنے آئی تھی ۔اور اس وقت اس تنظیم نے ترک دیا تھا کہ وہ آئی ایس اور داعش جیسی تنظیموں سے نمٹنے کے لئے اپنی تیاری کر رہے ہیں۔تو اب  خبر آئی ہے کہ ہندو بھگوا سنگٹھن بجرنگ دل  اپنے کارکنان کو  اسلحہ  کی ٹریننگ  دے رہا ہے۔ اترپردیش میں ہندو بھگوا سنگٹھن بجرنگ دل نے اپنے کارکنان کو رائفل و جدید اسلحہ چلانے  اور تلوار بازی کے ساتھ لاٹھی چلانے کی ٹریننگ دینی  شروع کی ہے ۔ بجرنگ دل کا کہنا ہے کہ یہ ٹریننگ ہم اپنی حفاظت کے لئے کر رہے ہیں ۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ ٹریننگ کیمپ یو پی میں سب سے حساس شہر  ایو دھیا میں لگایا گیا  ۔ جہاں بابری مسجد کا معاملہ برسوں سے چلا آرہا ہے۔غورطلب ہے کہ یہ سنگٹھن اسلحہ چلانے کی ٹریننگ کئی برسوں سے دیتا رہا ہے ۔ اس سے پہلے سال دوہزار دو میں بھی اس سنگٹھن نے ایودھیا میں اسلحہ چلانے و بم بنانے کی ٹریننگ دی تھی۔ ٹائمس آف انڈیا میں چھپی خبر کے مطابق پانچ جون کو سلطان پور۔ گورکھپور۔ پیلی بھیت۔ نویڈا۔ اور فتح پور میں بھی اس طرح کے کیمپ لگائے جائیں گے۔ وہیں ہندو بھگوا سنگٹھن بجرنگ دل کا کہنا ہے کہ ہم اپنی حفاظت کیلئے اس طرح کی ٹریننگ کیمپ کا انعقاد کرتے ہیں۔ جس میں رائفل وجدید اسلحہ چلانے کے ساتھ تلوار بازی اور لاٹھی چلانے کی ٹریننگ دیتے ہیں۔ اس ٹریننگ کا ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آیا ہے۔جس میں چونکا دینے والی تصاویر سامنے آئیں ہیں ۔اس  ویڈیو میں ٹریننگ کرنے والے افراد اپنے سروں پر ٹوپی لگائے ہوئے ہیں ۔  سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہندو بھگوا سنگٹھن بجرنگ دل یہ بتانا چاہتا ہے کہ ٹریننگ  لینے والے مسلمان ہیں؟ آخر بجرنگ دل کے  ٹریننگ لینے والے کارکنان کی ٹوپی پہننے کی وجہ کیا ہے؟کیا یہ محض مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش ہے؟یا یہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں اشتعال پھیلانے کی تیاری؟واضح رہے کہ جب جب اترپردیش میں انتخابی ماحول ہوتا ہے۔تب تب ہندو تنظیمیں ۔ریاست میں اشتعال انگیز ماحول بھی تیار کرتی ہیں۔حالیہ دنوں اعظم گڑھ میں فرقہ وارانہ فساد ہوا ہے۔ایسے میں بجرنگ دل کا اس طرح ٹریننگ دینا کتنا جائز ہے؟سوال یوپی کی حکومت پر بھی اٹھتا ہے۔جہاں اکھلیش یادو کی سرکار ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ یوپی کی سرکار اس طرح کی حرکتوں پر خاموش کیوں رہتی ہے۔کیوں کی اشتعال اور نفرت پھیلانے کا یہ یوپی  میں پہلا واقعہ نہیں ہے۔امن و امان کو چوٹ پہچانے والی ایسی طاقتوں پر سرکار لگام کیوں نہیں لگاتی؟سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا بجرنگ دل کو ملک و ریاست کی سیکورٹی ایجنسیاں اور پولیس پر بھروسہ نہیں ہے۔جو وہ اپنی حفاظت کے لئے اتنی تیاری کر رہا ہے؟خیر۔کھوٹ نیت میں نظر آتی ہے۔ایسے میں سرکاروں کو سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔تاکہ ریاست اور ملک کا بھائی چارے اتحاد اور امن و امان کا ماحول خراب نہ ہونے پائے

Sunday 22 May 2016

 وزیر اعظم مودی کے ایران دورے سے ہندوستان کو کیا حاصل ہوگا؟

PM Modi's visit to Iran

وزیر اعظم نریندر مودی ایران کے دوروزہ دورے پر ہیں۔مودی  پہلی بار ایران کے دورے پر گئے ہیں۔وزیر اعظم مودی کا یہ سفر اس وقت ہو ا ہے جب دنیا کی اقتصادی  طاقتیں چین، جاپان اور کئی یورپی ممالک ایران میں سرمایہ کاری کرنے کو آرہے ہیں اور ایران اپنی تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانا چاہتا ہے۔سال دو ہزار چودہ میں وزیر اعظم بننے کے بعدمودی کا یہ  ایران  کا پہلا سفر ہے۔وزیر اعظم مودی کا  ایران دورہ کئی معنوں میں کافی اہم ہے۔اس سفر کے دوران دونوں ممالک توانائی ، مواصلات، تجارت اورسرمایہ کاری کو لے کر اہم فیصلے لے سکتے ہیں ۔تو دوسری طرف ایران اپنے جوہری پروگرام کی وجہ سے سالوں سے بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ پڑے رہنے کے بعد علاقائی طاقت کے طور پراپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ چین کے بعدہندوستان ، ایران سے تیل درآمد کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور ہندوستان  اپنے درآمد ادکو اور بڑھانے کی سمت میں سوچ رہا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کی ایران دورے کے دوران چابهار بندرگاہ میں ہندوستان کی شرکت کا مسئلہ بات چیت کا اہم مسئلہ مانا جا رہا ہے۔ ہندوستان نے پہلے ہی چابهار بندرگاہ اور اسپیشل اكنومک ژون میں بیس ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش ہوئی ہے۔اس بات کی بھی امید ہے کہ چابهار کو لے کر  ہندوستان، ایران اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی معاہدے پر دستخط کی طرف بڑھ سکتا ہے۔یہ معاہدہ ہندوستان کو ایران کے راستے افغانستان تک پہنچنے کا راستہ کھول سکتا ہے۔اس سے بھارت کو توانائی اور خاص کر وسط ایشیا سے جڑنے کا راستہ بھی مل سکتا ہے۔ہندوستان اور ایران ٹھپ پڑی ہوئے توانائی کے منصوبے پھارذاد بی گیس فیلڈ کو لے کر بھی بات کر رہے ہیں۔چابهار بندرگاہ معاملے میں ہندوستان کے بڑھتے ہوئے قدم کو، چین کو دیا گیا ایک اسٹریٹجک جواب مانا جا رہا ہے۔پاکستان کے گوادر بندرگاہ کی تعمیر میں چین سرمایہ کاری کر رہا ہے۔اقتصادی كاریڈور کی تعمیر میں چین 46 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔اس  كاریڈور  سے پاکستان کے گوادر بندرگاہ کو چین کے شنجيانگ صوبے سے جوڑا جا سکے گا۔خیر۔ ہندوستان اور ایران کے تعلقات بہت پرانےاوربہت گہرے  رہے ہیں۔  ایران کے خلاف امریکہ اور یورپ کی پابندیوں کے دوران بھی ہندوستان ایران کے ساتھ کھڑا رہا تھا۔اب  وزیر اعظم مودی انہیں تعلقات کو پھر پٹری پر لانے کے لئے کوشاں ہیں۔مودی سے پہلےمرکزی وزیر برائے  شاہراہ اور شپنگ نتین گڈکری، تیل کے وزیر دھرمیندر پردھان اور وزیر خارجہ سشما سوراج بھی تہران کا دورہ کر چکی ہیں۔ہندوستان ایران سے تیل خریدنے والا ایک اہم ملک ہے اور اس نے یورپ اور امریکہ کی پابندیوں کے درمیان امریکہ کے شدید دباؤ کے باوجود ایران سے خام تیل لینا جاری رکھا تھا۔پابندیوں کے درمیان  ہندوستان  کو ایران سے کافی مراعات بھی ملتی تھیں۔ہندوستان اور ایران کے درمیان چابہار بندرگاہ کی توسیع وتعمیر کے منصوبے کے ایک معاہدے پر باضابطہ دستخط کیے جانے کی توقع ہے۔ ایران سے ہندوستان کے ہمیشہ قریبی تعلقات رہے ہیں۔ چند برس قبل ایران میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق ایران میں انڈیا کی مقبولیت تقریباً 70 فیصدتھی جو کہ دنیا کے سبھی ممالک سے زیادہ تھی۔ ہندوستان  میں بھی ایران کے تعلق سے ایک مثبت رویہ رہا ہے۔پابندیوں کے خاتمے کے بعد ہندوستان نہ صرف تیل اور گیس کی اپنی مستقبل کی ضروریات کے لیے ایران کی طرف مائل ہے بلکہ وہ پابندیوں کے بعد ایران کی تعمیر نو میں سرمایہ کاری کا ایک بہترین موقع دیکھ رہا ہے۔ایرانیوں کو بھی  ہندوستان  میں گہری دلچسپی ہے۔ایران انڈیا کی مستقبل کی پالیسی کا ایک انتہائی ملک ہے۔ پاکستان میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کے پیش نظر انڈیا، افغانستان اور ایران کے ساتھ وسط ایشیا تک رسائی کے لیے ایک متبادل راستہ تلاش کررہا ہے۔ افغانستان کو شامل کر کے پاکستان کو الگ تھلگ کرنا بھی ایران سے انڈیا کے گہرے ہوتے ہوئے تعلقات کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔یعنی ۔وزیر اعظم کا ایران دورہ کئی معنوں میں ہندوستان کے لئے بہت اہم ہے۔اب دیکھنا یہ دلچسپ ہوگا کہ اس دورے سے وزیر اعظم مودی کیا کچھ حاصل کرتے ہیں؟