اظہار خیال کی آزادی خطرے میں؟
Madhya Pradesh Govt removes Barwani collector for praising Nehru
ملک میں اکثرو بیشتر اظہار خیال کی آزادی پر بات ہوتی رہتی ہے۔اس کی بڑی وجہ ہے۔ملک میں رونما ہونے والے ایسے واقعات ۔جو اظہار خیال کی آزادی کے خلاف سامنے آتے ہیں۔چاہے وہ کانگریس کا زمانہ رہا ہو یا بی جے پی کا۔ہر دور میں اس طرح کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔اور اب ایسا ہی ایک واقعہ سامنے آیا ہے۔مدھیہ پردیش میں ۔جہاں ایک افسر کا تبادلہ صرف اس بنا پر کردیا گیا۔کیوں کہ انہوں نے گاندھی ۔نہرو خاندان کی تعریف کی تھی۔اور وہ بھی سوشل میڈیا یعنی فیس بک پر۔ کلکٹر اجے گنگوار کو فیس بک پرنہرو اور گاندھی خاندان کی تعریف کرنا اتنا مہنگا پڑے گا۔شاید کلکٹر صاحب نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔
چلئے اب۔ذرا آپ کو اس پوسٹ کے بارے میں بتا دیں جو اجے گنگوار نے بدھ کے روز اپنی فیس بک پوسٹ کیا تھا۔انہوں نے لکھا تھا۔ذرا وہ غلطیاں بتا دیجیئے جو نہرو کو نہیں کرنی چاہیے تھیں۔ اگر انہوں نے سنہ انیس سو سینتالیس میں آپ کو ہندو طالبان قوم بننے سے روکا تو کیا یہ ان کی غلطی تھی۔ انہوں اے آئی آئی ٹی۔اسرو۔ آئی آئی ایس بی۔ آئی آئی ایم۔ بھیل اسٹیل پلانٹز۔ڈیمز۔ تھرمل پاور پلانٹ لگوائے ۔یہ ان غلطی تھی ۔اجے گنگوار نے مزید لکھا تھا: 'آسارام اور رام دیو جیسے انٹیلیکچولزکی جگہ سارا بھائی اور ہومی جہانگیر کو عزت اور کام کرنے کا موقع دیا یہ ان کی غلطی تھی، انہوں نے ملک میں گاؤشالہ اور مندر کی جگہ یونیورسٹیاں کھولیں یہ بھی ان کی بڑی غلطی تھی۔
دراصل مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے۔یہی وجہ ہے کہ تمام تنقیدیں ریاستی سرکار کی ہو رہی ہیں۔اجے گنگوار کو کلیکٹر کے عہدے سے ہٹا کر سیکرٹریٹ میں نائب سکریٹری مقرر کیا گیاہے۔پہلے فیس بک پر اجے گنگوار کی اس پوسٹ پر بحث اور اب اس معاملے پر سیاست شروع ہوگئی ہے۔ریاستی وزیر لعل سنگھ آریہ نے بھی اجے گنگوار کی اس پوسٹ پر اعتراض کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی یہ بات طے مانی جا رہی تھی کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔لال سنگھ آریہ نے کہا تھا کہ سول سروسز کے اصول و ضوابط اور قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی جانی چاہیے۔ اظہار خیال کی آزادی سب کو ہے لیکن قوانین پر بھی عمل ہونا چاہیے۔خیر۔ملک میں یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔جہاں کسی کی تعریف اور ہجو میں اس طرح کا سلوک کیا گیا ہو۔آپ کو یاد دلا دیں کہ اس سے پہلے ضلع نرسنگھ پور کے کلیکٹر سی بی چکرورتی نےتمل ناڈو میں جے للتا کی جیت پر سوشل میڈیا میں مبارکباد پیش کی تھی۔ لیکن مخالفت کے بعد انھوں نے بھی اپنی پوسٹ کو ہٹا لیا تھا۔خیر۔ملک میں اب کیرل سے لیکر جموں کشمیر تک بی جے پی اور اسکی اتحادی پارٹیوں کی حکومت ہے۔ایسے میں کبھی اظہار خیال کی آزادی۔کبھی نصابی کتابوں میں ترمیم ۔اور کبھی مجاہدین آزادی اور کانگریسی رہنماؤں کے ناموں اور انکے کارناموں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعات سامنے آنا عام سی بات ہوگئی ہے۔ چند روز قبل ہی کی بات ہے کہ ریاست راجستھان میں اسکول کی نصابی کتابوں سے نہرو کا نام حذف کرنے کی خبریں آئی تھیں۔جب میڈیا میں اس طرح کی خبریں آئیں تو بیان جاری کر کے کہا گيا کہ یہ غلطی سے ہوگیا ہے۔ جسے جلد ہی درست کر لیا جائے گا۔ماہرین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی اپنے قائدین کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ کانگریسی رہنماؤں کے نام پر بہت سی اسکیموں کے نام بھی تبدیل کر رہی ہے۔جبکہ اپوزیشن کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ اسے بی جے پی کے رہنماؤں کی تشہیر سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اس کے رہنماؤں نے جنگ آزادی میں اہم کردار ادا کیا تھا اور جدید بھارت کی بنیاد رکھی تھی اس لیے انہیں نظر انداز نہیں کیا جا نا چاہیے۔خیر۔اس طرح کی خبروں سے ملک و ریاست کی شبیہ داغ دار ہوتی ہے۔ایسے واقعات پر لگام لگنی چاہئے۔
No comments:
Post a Comment