ہندوستان میں عدم رواداری کو پہنچی چوٹ
Intolerance in India rose in 2015, says USCIRF
یوایس کمیشن فار انٹرنیشنل ریلجیس فریڈم کی سالانہ رپورٹ آئی ہے۔ اس رپورٹ میں ہندوستان میں اقلیتوں کے تعلق سے جو باتیں کی گئی ہیں وہ اپنے آپ میں بہت بڑے سوال کھڑاے کرتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سال دو ہزار پندرہ میں ہندوستان میں اقلیتی طبقوں کو تشدد کا شکار بنایا گیا۔رپورٹ کہتی ہے کہ سال دو ہزار پندرہ میں ہندوستان کے مسلمانوں ،عیسائیوں اور سیکھوں کا سب سے زیادہ استحصال ہوا ہے۔اور رپورٹ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ ہندوستان میں پولیس اور عدلیہ کی خامیوں کے چلتے اقلیتی طبقے خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔سال دوہزار پندرہ میں ہندوستان میں عدم رواداری کے واقعات میں ہوا اضافہ۔اور ملک کے مذہبی رہنماؤں نے غیر معیاری بیانات دیئے۔ان بیانات سے اقلیتی طبقوں اور خاص کر مسلم طبقے میں ڈر و خوف کا ماحو ل دیکھا گیا۔رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال مسلمانوں کو بڑھتے ظلم و ستم، تشدد اور اشتعال انگیز تقاریر کا شکار ہونا پڑا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ اور ساکشی مہاراج جیسے بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ نے مسلمانوں کی آبادی کو روکنے کے لیے قانون بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ فروری دو ہزار پندرہ میں سنگھ پریوار کے ایک اجلاس کے ویڈیو میں بی جے پی کے کئی قومی لیڈر اسٹیج پر بیٹھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس اجلاس میں کئی لیڈر مسلمانوں کو ’شیطان‘ کہتے ہوئے اور انھیں برباد کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔وہیں اس رپورٹ نے بے گناہ گرفتار کئے گئے مسلم نوجوانوں کے بارے میں بھی تبصرہ کیا ہے۔ ان کے مطابق پولیس شدت پسندی کے الزام میں مسلمان لڑکوں کو گرفتار کرتی ہے اور بغیر مقدمے کے سالوں تک انھیں جیل میں رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی کئی ریاستوں میں گو کشی سے مسلم طبقے کو کن پریشانیوں کا سامنا ہے۔اس کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق گائے ذبح کرنے پر پابندی کی وجہ سے مسلمانوں اور دلتوں کا اقتصادی نقصان تو ہو ہی رہا ہے، اس کے علاوہ اس قانون کی مبینہ خلاف ورزی کا معاملہ بنا کر مسلمانوں کو پریشان کیا جا رہا ہے اور ہندوؤں کو تشدد کے لیے اکسایا جا رہا ہے۔ وہیں اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تبدیلیِ مذہب کے قانون کی وجہ سے مسلمانوں اور عیسائیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دسمبرسنہ 2014 میں ہندو تنظیموں نے گھر واپسی کے پروگرام کا اعلان کیا تھا جس کے تحت ہزاروں مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ لیکن اس معاملے پر اندرون و بیرونِ ملک ہنگاموں کے بعد آر ایس ایس نے اسے ملتوی کر دیا۔ سنہ 2015 میں بی جے پی کے صدر امت شاہ نے تبدیلیِ مذہب پر پابندی لگانے کے لیے ملک بھر میں قانون بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ وزارت داخلہ کے مطابق سنہ 2015 میں گذشتہ سال (2014) کے مقابلے میں فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے میں 17 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مسلمانوں کا الزام ہے کہ مذہب کی بنیاد پر انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن حکومت اسے دو دھڑوں کے درمیان تشدد کی واردات بتاتی ہے۔مارچ سنہ 2016 میں ہندوستان کی حکومت نے يو ایس سی آئی آر ایف کی ٹیم کو ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔خیر۔اس رپورٹ میں يو ایس سی آئی آر ایف نے اپنی رپورٹ میں امریکی حکومت کو کچھ تجاویز بھی دی ہیں۔ انڈیا میں واقع امریکی سفارت خانے کی توجہ ان امور کی جانب مرکوز کی جائے۔ سفارت خانے کے حکام کو اس طرح کے واقعات کا جائزہ لینے کے لیے جائے وقوع کا دورہ کرنا چاہیے اور مذہبی رہنماؤں، مقامی حکام سے ملاقات کرنی چاہیے۔حکومت ہند پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ يو ایس سی آئی آر ایف کی ٹیم کو ہندوستان کا دورہ کرنے کی اجازت دے۔خیر۔اس رپورٹ پر بھی کئی طرح کے سوال اٹھ رہے ہیں۔پہلا سوال تو یہ کہ اس طرح کی رپورٹ صرف ہندوستان کے لئے ہی کیوں تیار کی جاتی ہے؟کیا يو ایس سی آئی آر ایف کی نظر ،فلسطین کے بے گناہوں ۔افغانستان کے مظلوموں اور عراق ایران کے پریشان حالوں پر نہیں پڑتی ہے۔جہاں مذہبی بنیاد پر مسلم طبقے کے ساتھ وحشیانہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔کیا اس طرح کی رپورٹ اسرائیل کو نہ بھیجی جائے۔اور اسرائیل کے ذریعہ فلسطین کے معصوموں اور بے گناہوں پر کئے جا رہے مظالم کے بارے میں سوال کئے جائیں۔اور دنیا کے سامنے حقیقت لائی جائے؟
nice, worth reading...
ReplyDelete