Monday 23 May 2016

ٹریننگ کے پیچھے کا سچ؟

Bajrang Dal men get arms training 'to save Hindus'

جیسے جیسے اترپردیش اسمبلی انتخابات قریب آرہے ہیں۔ویسے ویسے یوپی میں ہندو تنظیمیں متحرک ہو رہی ہیں۔پچھلے دنوں بنارس میں ہندو آرمی بنانے کی خبر سامنے آئی تھی ۔اور اس وقت اس تنظیم نے ترک دیا تھا کہ وہ آئی ایس اور داعش جیسی تنظیموں سے نمٹنے کے لئے اپنی تیاری کر رہے ہیں۔تو اب  خبر آئی ہے کہ ہندو بھگوا سنگٹھن بجرنگ دل  اپنے کارکنان کو  اسلحہ  کی ٹریننگ  دے رہا ہے۔ اترپردیش میں ہندو بھگوا سنگٹھن بجرنگ دل نے اپنے کارکنان کو رائفل و جدید اسلحہ چلانے  اور تلوار بازی کے ساتھ لاٹھی چلانے کی ٹریننگ دینی  شروع کی ہے ۔ بجرنگ دل کا کہنا ہے کہ یہ ٹریننگ ہم اپنی حفاظت کے لئے کر رہے ہیں ۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ ٹریننگ کیمپ یو پی میں سب سے حساس شہر  ایو دھیا میں لگایا گیا  ۔ جہاں بابری مسجد کا معاملہ برسوں سے چلا آرہا ہے۔غورطلب ہے کہ یہ سنگٹھن اسلحہ چلانے کی ٹریننگ کئی برسوں سے دیتا رہا ہے ۔ اس سے پہلے سال دوہزار دو میں بھی اس سنگٹھن نے ایودھیا میں اسلحہ چلانے و بم بنانے کی ٹریننگ دی تھی۔ ٹائمس آف انڈیا میں چھپی خبر کے مطابق پانچ جون کو سلطان پور۔ گورکھپور۔ پیلی بھیت۔ نویڈا۔ اور فتح پور میں بھی اس طرح کے کیمپ لگائے جائیں گے۔ وہیں ہندو بھگوا سنگٹھن بجرنگ دل کا کہنا ہے کہ ہم اپنی حفاظت کیلئے اس طرح کی ٹریننگ کیمپ کا انعقاد کرتے ہیں۔ جس میں رائفل وجدید اسلحہ چلانے کے ساتھ تلوار بازی اور لاٹھی چلانے کی ٹریننگ دیتے ہیں۔ اس ٹریننگ کا ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آیا ہے۔جس میں چونکا دینے والی تصاویر سامنے آئیں ہیں ۔اس  ویڈیو میں ٹریننگ کرنے والے افراد اپنے سروں پر ٹوپی لگائے ہوئے ہیں ۔  سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہندو بھگوا سنگٹھن بجرنگ دل یہ بتانا چاہتا ہے کہ ٹریننگ  لینے والے مسلمان ہیں؟ آخر بجرنگ دل کے  ٹریننگ لینے والے کارکنان کی ٹوپی پہننے کی وجہ کیا ہے؟کیا یہ محض مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش ہے؟یا یہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں اشتعال پھیلانے کی تیاری؟واضح رہے کہ جب جب اترپردیش میں انتخابی ماحول ہوتا ہے۔تب تب ہندو تنظیمیں ۔ریاست میں اشتعال انگیز ماحول بھی تیار کرتی ہیں۔حالیہ دنوں اعظم گڑھ میں فرقہ وارانہ فساد ہوا ہے۔ایسے میں بجرنگ دل کا اس طرح ٹریننگ دینا کتنا جائز ہے؟سوال یوپی کی حکومت پر بھی اٹھتا ہے۔جہاں اکھلیش یادو کی سرکار ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ یوپی کی سرکار اس طرح کی حرکتوں پر خاموش کیوں رہتی ہے۔کیوں کی اشتعال اور نفرت پھیلانے کا یہ یوپی  میں پہلا واقعہ نہیں ہے۔امن و امان کو چوٹ پہچانے والی ایسی طاقتوں پر سرکار لگام کیوں نہیں لگاتی؟سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا بجرنگ دل کو ملک و ریاست کی سیکورٹی ایجنسیاں اور پولیس پر بھروسہ نہیں ہے۔جو وہ اپنی حفاظت کے لئے اتنی تیاری کر رہا ہے؟خیر۔کھوٹ نیت میں نظر آتی ہے۔ایسے میں سرکاروں کو سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔تاکہ ریاست اور ملک کا بھائی چارے اتحاد اور امن و امان کا ماحول خراب نہ ہونے پائے

No comments:

Post a Comment