Thursday 12 May 2016

کیا یہ محض سرخیاں بٹورنے کے لئے ہے؟

Trupti Desai enters Haji Ali dargah

ہندوستان میں خواتین کے مسائل ہر دور میں رہے ہیں۔کبھی ستی کا مسئلہ تو کبھی  شادی اور طلاق کی بحث اور کبھی مندروں اور عبادت گاہوں میں پوجا پاٹ کو لیکر تکرار۔یعنی سماج میں خواتین کو لیکر ہمیشہ ہی ایک بحث بنی رہتی ہے۔کبھی درگاہوں میں خواتین پرپابندی کی بات کی جاتی ہے ۔تو کبھی مندروں میں داخلے پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔اب ممبئی کی حاجی علی درگاہ  میں خواتین کی پابندی کو لیکر ایک بحث چھڑی ہوئی ہے۔بھوماتا برگیڈ کی صدر ترپتی دیسائی نے  صبح سویرے حاجی علی درگاہ پر حاضری دی۔اور دعا کی کہ خواتین کو مزار پر حاضری کی اجازت ملے۔حالانکہ  ترپتی دیسائی  درگاہ میں اسی مقام تک گیئں  جہاں تک  درگاہ ٹرسٹ نے انہیں اجازت دی تھی۔خیر۔درگاہ میں خواتین کی حاضری کو لیکر ایک بحث  تو چھڑی ہوئی ہے۔ کیوں کہ جہاں یہ معاملہ خواتین کے حقوق سے جڑا ہوا ہے۔تو وہیں یہ ایشو مذہبی  معاملات اور مسائل سے بھی جڑا ہوا ہے۔ایسے میں یہ معاملہ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے۔کہ خواتین کو درگاہوں پر جانا چاہیئے یا نہیں؟آپ کو یاد دلادیں کہ اس سے پہلے ترپتی اٹھائیس اپریل کو درگاہ میں جانے کی کوشش کر چکی ہیں۔لیکن انہیں روک دیا گیا تھا۔اس وقت کئی تنظیموں نے ترپتی دیسائی کے حاجی علی درگاہ میں داخلے پر اعتراض جتایا تھا۔ترپتی دیسائی اس سے پہلے  بھی اس طرح کے مسائل اٹھاتی رہیں ہیں۔گذشتہ دنوںوہ  مہاراشٹر کے احمد نگر میں واقع شنی مندر میں  خواتین کی پوجا  کو لیکر سرخیوں میں رہ چکی ہیں۔حالانکہ ترپتی کے اس قدم پر مختلف بیانا ت سامنے آرہے ہیں۔کسی نے اسے سستی شہرت سے تعبیر کیا ہے۔تو کسی نے کہا کہ ترپتی عیسائی ٹمپل بھی جا کر دیکھائیں ۔خیر ان سب سے ہٹ کر۔سوال یہ اٹھتا ہے۔کہ ترقی کے اس دور میں بھی خواتین کے ساتھ یہ سلو ک کیوں ؟کیا خواتین کو ہر مذہبی جگہ پر عبادت کا حق ملنا چاہئے؟کیا خواتین کو بھی مردوں کے مقابلے اصل دھارے میں لانے کی ضرورت ہے؟سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جب سماج کے ہر حصے میں خواتین ۔مردوں کے مقابلے شانہ بشانہ کھڑی  ہو سکتی ہیں۔تو پھر  درگاہوں ۔مندروں اور عبادت گاہوں میں  پوجا ۔عبادت  اور درشن کو لیکر واویلا مچانے کی ضرورت کیا ہے؟یہ معاملہ صرف  حاجی علی درگاہ  کا ہی نہیں ہے۔ایسی ہی خبرملک کے کئی حصوں سے  بھی آتی رہتی ہیں ۔جہاں   درگاہوں اور عبادت گاہوں  میں خواتین کے داخلے پر  پابندی عائد ہے۔یعنی  اس طرح کے مسائل سے خواتین ملک کے کئی حصوں میں  گذر رہی ہیں۔اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

No comments:

Post a Comment