Sunday 22 May 2016

 وزیر اعظم مودی کے ایران دورے سے ہندوستان کو کیا حاصل ہوگا؟

PM Modi's visit to Iran

وزیر اعظم نریندر مودی ایران کے دوروزہ دورے پر ہیں۔مودی  پہلی بار ایران کے دورے پر گئے ہیں۔وزیر اعظم مودی کا یہ سفر اس وقت ہو ا ہے جب دنیا کی اقتصادی  طاقتیں چین، جاپان اور کئی یورپی ممالک ایران میں سرمایہ کاری کرنے کو آرہے ہیں اور ایران اپنی تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانا چاہتا ہے۔سال دو ہزار چودہ میں وزیر اعظم بننے کے بعدمودی کا یہ  ایران  کا پہلا سفر ہے۔وزیر اعظم مودی کا  ایران دورہ کئی معنوں میں کافی اہم ہے۔اس سفر کے دوران دونوں ممالک توانائی ، مواصلات، تجارت اورسرمایہ کاری کو لے کر اہم فیصلے لے سکتے ہیں ۔تو دوسری طرف ایران اپنے جوہری پروگرام کی وجہ سے سالوں سے بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ پڑے رہنے کے بعد علاقائی طاقت کے طور پراپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ چین کے بعدہندوستان ، ایران سے تیل درآمد کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور ہندوستان  اپنے درآمد ادکو اور بڑھانے کی سمت میں سوچ رہا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کی ایران دورے کے دوران چابهار بندرگاہ میں ہندوستان کی شرکت کا مسئلہ بات چیت کا اہم مسئلہ مانا جا رہا ہے۔ ہندوستان نے پہلے ہی چابهار بندرگاہ اور اسپیشل اكنومک ژون میں بیس ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش ہوئی ہے۔اس بات کی بھی امید ہے کہ چابهار کو لے کر  ہندوستان، ایران اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی معاہدے پر دستخط کی طرف بڑھ سکتا ہے۔یہ معاہدہ ہندوستان کو ایران کے راستے افغانستان تک پہنچنے کا راستہ کھول سکتا ہے۔اس سے بھارت کو توانائی اور خاص کر وسط ایشیا سے جڑنے کا راستہ بھی مل سکتا ہے۔ہندوستان اور ایران ٹھپ پڑی ہوئے توانائی کے منصوبے پھارذاد بی گیس فیلڈ کو لے کر بھی بات کر رہے ہیں۔چابهار بندرگاہ معاملے میں ہندوستان کے بڑھتے ہوئے قدم کو، چین کو دیا گیا ایک اسٹریٹجک جواب مانا جا رہا ہے۔پاکستان کے گوادر بندرگاہ کی تعمیر میں چین سرمایہ کاری کر رہا ہے۔اقتصادی كاریڈور کی تعمیر میں چین 46 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔اس  كاریڈور  سے پاکستان کے گوادر بندرگاہ کو چین کے شنجيانگ صوبے سے جوڑا جا سکے گا۔خیر۔ ہندوستان اور ایران کے تعلقات بہت پرانےاوربہت گہرے  رہے ہیں۔  ایران کے خلاف امریکہ اور یورپ کی پابندیوں کے دوران بھی ہندوستان ایران کے ساتھ کھڑا رہا تھا۔اب  وزیر اعظم مودی انہیں تعلقات کو پھر پٹری پر لانے کے لئے کوشاں ہیں۔مودی سے پہلےمرکزی وزیر برائے  شاہراہ اور شپنگ نتین گڈکری، تیل کے وزیر دھرمیندر پردھان اور وزیر خارجہ سشما سوراج بھی تہران کا دورہ کر چکی ہیں۔ہندوستان ایران سے تیل خریدنے والا ایک اہم ملک ہے اور اس نے یورپ اور امریکہ کی پابندیوں کے درمیان امریکہ کے شدید دباؤ کے باوجود ایران سے خام تیل لینا جاری رکھا تھا۔پابندیوں کے درمیان  ہندوستان  کو ایران سے کافی مراعات بھی ملتی تھیں۔ہندوستان اور ایران کے درمیان چابہار بندرگاہ کی توسیع وتعمیر کے منصوبے کے ایک معاہدے پر باضابطہ دستخط کیے جانے کی توقع ہے۔ ایران سے ہندوستان کے ہمیشہ قریبی تعلقات رہے ہیں۔ چند برس قبل ایران میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق ایران میں انڈیا کی مقبولیت تقریباً 70 فیصدتھی جو کہ دنیا کے سبھی ممالک سے زیادہ تھی۔ ہندوستان  میں بھی ایران کے تعلق سے ایک مثبت رویہ رہا ہے۔پابندیوں کے خاتمے کے بعد ہندوستان نہ صرف تیل اور گیس کی اپنی مستقبل کی ضروریات کے لیے ایران کی طرف مائل ہے بلکہ وہ پابندیوں کے بعد ایران کی تعمیر نو میں سرمایہ کاری کا ایک بہترین موقع دیکھ رہا ہے۔ایرانیوں کو بھی  ہندوستان  میں گہری دلچسپی ہے۔ایران انڈیا کی مستقبل کی پالیسی کا ایک انتہائی ملک ہے۔ پاکستان میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کے پیش نظر انڈیا، افغانستان اور ایران کے ساتھ وسط ایشیا تک رسائی کے لیے ایک متبادل راستہ تلاش کررہا ہے۔ افغانستان کو شامل کر کے پاکستان کو الگ تھلگ کرنا بھی ایران سے انڈیا کے گہرے ہوتے ہوئے تعلقات کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔یعنی ۔وزیر اعظم کا ایران دورہ کئی معنوں میں ہندوستان کے لئے بہت اہم ہے۔اب دیکھنا یہ دلچسپ ہوگا کہ اس دورے سے وزیر اعظم مودی کیا کچھ حاصل کرتے ہیں؟

No comments:

Post a Comment