اچھے دن کب آیئں گے؟
2 Years Of Narendra Modi Government
این ڈی اے حکومت اور مودی کی وزرات عظمیٰ کو دو سال مکمل ہونے پر این ڈی اے اور خاص کر بی جے پی جشن میں ڈوبی ہوئی ہے۔اس جشن کا سلسلہ یوپی میں سہارنپور میں بی جے پی کی شاندار ریلی سے شروع ہوا۔اور اب دہلی کے انڈیا گیٹ پر پانچ گھنٹے طویل جشن منایا جا رہا ہے۔جس میں مختلف کلچرل پروگرام پیش کئے جائیں گے۔اس پروگرام میں وزیر اعظم مودی۔مرکزی وزرا۔بی جے پی اقتدار والی ریاستوں کے وزرا اعلیٰ۔اور بی جے پی کی اتحادی پارٹیوں کے سربراہان اور کارکنان شرکت کریں گے۔اور جشن کا یہ سلسلہ یہیں نہیں تھمے گا۔بی جے پی پورے ملک میں دو سو مقامات پر جشن کے پروگرام منعقد کرے گی۔ہم آپ کو یاد دلادیں کہ سال دو ہزار چودہ میں چھبیس مئی کے دن مودی نے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لیا تھا۔اور پہلی بار دہلی کے تخت پر براجمان ہوئے تھے۔اس وقت مودی نے دہلی کے لال قلعہ سے عوام کو ترقی۔بھائی چارے۔بد عنوانی سے پاک ہندوستان۔غربت کا خاتمہ کرنے جیسے سینکڑوں وعدے کئے تھے۔لیکن۔ان دو برسوں میں این ڈی اے حکومت اور مودی جی نے کتنے وعدے وفا کئے۔یہ تو سرکار کی دو سالہ رپورٹ کارڈ سے ہی صاف ظاہر ہو جاتا ہے۔وزیر اعظم مودی کے دو سال مکمل ہونے پر اب سوال یہ اٹھ رہا ہےکہ ان دو برسوں میں مودی حکومت نے کیا پایا اور کیا کھویا؟اور سوال یہ بھی ہے کہ مودی حکومت نے ان دو برسوں میں کتنے وعدے وفا کئے؟کیوں کہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے حصوں میں ایک امید جگی تھی۔عوام کو وزیر اعظم مودی سے کافی امیدیں وابستہ تھیں۔اور اس بات کا ثبوت تھا دو ہزار چودہ میں این ڈی اے کو ملی بھاری بھرکم جیت۔اس جیت میں ملک کی تمام ریاستوں اور ہر طبقے کا ساتھ مودی کو ملا۔بی جے پی اور خاص کر نریندر مودی نے ملک کی تصویر بدلنے کا عوام سے وعدہ کیا۔ بیلک منی کو ملک واپس لانا۔بدعنوانی پر لگام کسنا۔مہنگائی پر قابو پانا وغیر وغیرہ۔ملک کی عوام نے مودی پر آنکھ موند کر بھروسہ کیا۔عوام کو اس سرکار سے معیشت میں بہتری لانے کی امید تھی۔کیوں کہ جب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے ۔تب انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہی ایک لیڈر ہیں جو ہندوستان کو آگے لے جاسکتے ہیں۔اس وقت لگا تھا کہ اب ملک کی قسمت بدلنے والی ہے۔لیکن ان دو برسوں میں اس سرکار نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔جس سے کہا جائے کہ یہ حکومت اپنے وعدوں پر کھرا اتری ہے۔بلکہ سرکار اور بی جے پی ملکی اور اپنے اندرونی خلفشار کا ہی شکار رہی۔مرکز میں نئی سرکار آتے ہی گھر واپسی ۔گاؤ کشی ہتیہ پر پابندی کی مانگ اٹھی۔اسی بیچ حیدرآباد یونیورسٹی میں ویمولا خودکشی اور جے این یو میں ملک مخالف نعرے بازی کا معاملہ سرخیوں میں رہا۔ملک میں پھیلی بے چینی کے بیچ اپوزیشن ایک پلیٹ فارم پر نظر آیا اور پارلیمنٹ میں سرکار کی ایک نہ چلنے دی۔اور کئی اہم بل ایوان میں لٹکے ہی رہ گئے۔دوسری جانب مودی سرکار اپنے پڑوسی ممالک سے رشتے سدھارنے میں تھوڑی کامیاب نظر آئی۔پاکستان اور چین سے اچھے رشتے قائم ہوئے۔خیر۔ان دو برسوں میں مودی حکومت نے جہاں بہت کچھ پایا ہے۔تو وہیں بہت کچھ کھویا بھی ہے۔ایک طرف جہاں ملک کی عوم کو ان دو برسوں میں صرف وعدے اور بیرون ممالک کے سفر ہی ہاتھ لگے ہیں۔تو وہیں عوام اس انتظار میں بھی ہے کہ یہ سرکار ایکشن میں نظر کب آئے گی؟عوام کو انتظار ہے اچھے دنوں کا۔دوسری طرف اپوزیشن مودی حکومت کے ان دو برسوں کو خامیوں سے پر تعبیر کر رہی ہے ۔کانگریس کا کہنا ہے کہ ان دو برسوں میں مودی سرکار نے کہا زیادہ اور کیا کچھ نہیں۔مودی بدعنوانی پر لگام لگانے کی قسم تو کھاتے ہیں ۔پر حقیقت میں وسندھرا راجےسے لیکر رمن سنگھ تک اپنے ہی وزرائے اعلیٰ پر لگ رہے بد عنوانی کے الزامات کو ان دیکھا کرتے ہیں۔انکی پارٹی پاکستان کو سبق سکھانے کی بات تو کرتی ہے۔لیکن مودی اپنی حلف برداری تقریب سے لیکر نوازشریف کی ناتن کی شادی تک میں ان سے ہاتھ ملاتے دکھتے ہیں۔یعنی جو گجرات کی گدی سے دکھتا تھا۔وہ دہلی کے لال قلعہ سے کچھ اور ہی دکھتا ہے۔ادھر۔مودی سرکار کے ان دو برسوں میں اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کو بھی مایوسی ہی ہاتھ لگی ہے۔مودی سرکار کی مسلم سماج سے بے رخی اور فرقہ پرستی کو ہوا ملی یوپی کےدادری واقعہ سے ۔جہاں محض گائے کا گوشت رکھنے کی افواہ پر مشتعل بھیڑ نے ایک مسلم شخص کا بہیمانہ قتل کر دیا ۔اس واقعہ کو لیکر ملک میں عدم رواداری پر ایک نئی بحث چھڑ گئی۔اور ایوارڈ اور اعزاز واپسی کے سلسلے نے مودی حکومت کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔اس کا اثر بہار میں دیکھنے کو ملا۔جہاں بی جے پی کی کراری شکست ہوئی۔خیر۔اب آسام کی جیت نے بی جے پی کے لئے کچھ راحت کا کام کیا ہے۔لیکن،بات پھر اس سرکار کے وعدوں پر آکر رک جاتی ہے۔کہ مودی جی۔اچھے دن کب آئیں گے؟اور اب لوگ پوچھنے لگے ہیں کہ دو ہزار انیس میں کیا ہوگا؟