Saturday 28 May 2016

اچھے دن کب آیئں گے؟

2 Years Of Narendra Modi Government

این ڈی اے حکومت اور مودی کی وزرات عظمیٰ کو دو سال مکمل ہونے پر این ڈی اے اور خاص کر بی جے پی جشن میں ڈوبی ہوئی ہے۔اس جشن کا سلسلہ یوپی میں سہارنپور میں بی جے پی کی شاندار ریلی سے شروع ہوا۔اور اب دہلی کے انڈیا گیٹ پر پانچ گھنٹے طویل جشن منایا جا رہا ہے۔جس میں مختلف کلچرل پروگرام پیش کئے جائیں گے۔اس پروگرام میں وزیر اعظم مودی۔مرکزی وزرا۔بی جے پی اقتدار والی ریاستوں کے وزرا اعلیٰ۔اور بی جے پی کی اتحادی پارٹیوں کے سربراہان اور کارکنان شرکت کریں گے۔اور جشن کا یہ سلسلہ یہیں نہیں تھمے گا۔بی جے پی پورے ملک میں دو سو مقامات پر جشن کے پروگرام منعقد کرے گی۔ہم آپ کو یاد دلادیں کہ سال دو ہزار چودہ میں چھبیس مئی کے دن مودی نے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لیا تھا۔اور پہلی بار دہلی کے تخت پر براجمان ہوئے تھے۔اس وقت مودی نے دہلی کے لال قلعہ سے عوام کو ترقی۔بھائی چارے۔بد عنوانی سے پاک ہندوستان۔غربت کا خاتمہ کرنے جیسے سینکڑوں وعدے کئے تھے۔لیکن۔ان دو برسوں میں این ڈی اے حکومت اور مودی جی نے کتنے وعدے وفا کئے۔یہ تو سرکار کی دو سالہ رپورٹ کارڈ سے ہی صاف ظاہر ہو جاتا ہے۔وزیر اعظم مودی کے دو سال مکمل ہونے پر اب سوال یہ اٹھ رہا ہےکہ ان دو برسوں میں مودی حکومت نے کیا پایا اور کیا کھویا؟اور سوال یہ بھی ہے کہ مودی حکومت نے ان دو برسوں میں کتنے وعدے وفا کئے؟کیوں کہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے حصوں میں ایک امید جگی تھی۔عوام کو وزیر اعظم مودی سے کافی امیدیں وابستہ تھیں۔اور اس بات کا ثبوت تھا دو ہزار چودہ میں این ڈی اے کو ملی بھاری بھرکم جیت۔اس جیت میں ملک کی تمام ریاستوں اور ہر طبقے کا ساتھ مودی کو ملا۔بی جے پی اور خاص کر نریندر مودی نے ملک کی تصویر بدلنے کا عوام سے وعدہ کیا۔ بیلک منی کو ملک واپس لانا۔بدعنوانی پر لگام کسنا۔مہنگائی پر قابو پانا وغیر وغیرہ۔ملک کی عوام نے مودی پر آنکھ موند کر بھروسہ کیا۔عوام کو اس سرکار سے معیشت میں بہتری لانے کی امید تھی۔کیوں کہ جب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے ۔تب انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہی ایک لیڈر ہیں جو ہندوستان کو آگے لے جاسکتے ہیں۔اس وقت لگا تھا کہ اب ملک کی قسمت بدلنے والی ہے۔لیکن ان دو برسوں میں اس سرکار نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔جس سے کہا جائے کہ یہ حکومت اپنے وعدوں پر کھرا اتری ہے۔بلکہ سرکار اور بی جے پی ملکی اور اپنے اندرونی خلفشار کا ہی شکار رہی۔مرکز میں نئی سرکار آتے ہی گھر واپسی ۔گاؤ کشی ہتیہ پر پابندی کی مانگ اٹھی۔اسی بیچ حیدرآباد یونیورسٹی میں ویمولا خودکشی اور جے این یو میں ملک مخالف نعرے بازی کا معاملہ سرخیوں میں رہا۔ملک میں پھیلی بے چینی کے بیچ اپوزیشن ایک پلیٹ فارم پر نظر آیا اور پارلیمنٹ میں سرکار کی ایک نہ چلنے دی۔اور کئی اہم بل ایوان میں لٹکے ہی رہ گئے۔دوسری جانب مودی سرکار اپنے پڑوسی ممالک سے رشتے سدھارنے میں تھوڑی کامیاب نظر آئی۔پاکستان اور چین سے اچھے رشتے قائم ہوئے۔خیر۔ان دو برسوں میں مودی حکومت نے  جہاں بہت کچھ پایا ہے۔تو وہیں بہت کچھ کھویا بھی ہے۔ایک طرف جہاں ملک کی عوم کو ان دو برسوں میں  صرف وعدے اور بیرون ممالک کے سفر  ہی ہاتھ لگے ہیں۔تو وہیں عوام اس انتظار میں بھی ہے  کہ یہ سرکار ایکشن میں نظر کب آئے گی؟عوام کو انتظار ہے اچھے دنوں کا۔دوسری طرف اپوزیشن  مودی حکومت کے ان دو برسوں کو خامیوں سے پر تعبیر کر رہی ہے ۔کانگریس کا کہنا ہے کہ ان دو برسوں میں مودی سرکار نے  کہا زیادہ اور کیا کچھ نہیں۔مودی بدعنوانی پر لگام لگانے کی قسم  تو کھاتے ہیں ۔پر حقیقت میں وسندھرا راجےسے لیکر رمن سنگھ تک اپنے ہی وزرائے اعلیٰ پر لگ رہے بد عنوانی کے الزامات کو ان دیکھا کرتے ہیں۔انکی پارٹی پاکستان کو سبق سکھانے کی بات تو کرتی ہے۔لیکن مودی اپنی حلف برداری تقریب سے لیکر نوازشریف کی ناتن کی شادی تک میں ان سے ہاتھ ملاتے  دکھتے ہیں۔یعنی جو گجرات کی گدی سے دکھتا تھا۔وہ دہلی کے لال قلعہ سے کچھ اور ہی دکھتا ہے۔ادھر۔مودی سرکار  کے ان دو برسوں میں اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں  کو بھی  مایوسی ہی ہاتھ لگی ہے۔مودی سرکار کی مسلم سماج سے بے رخی اور فرقہ پرستی کو ہوا ملی یوپی کےدادری واقعہ سے ۔جہاں محض گائے کا گوشت رکھنے کی افواہ پر مشتعل بھیڑ نے ایک  مسلم شخص کا بہیمانہ قتل کر دیا ۔اس واقعہ کو لیکر ملک میں عدم رواداری پر ایک نئی بحث چھڑ گئی۔اور ایوارڈ اور اعزاز واپسی کے سلسلے نے مودی حکومت کو  سوچنے پر مجبور کر دیا۔اس کا اثر بہار میں دیکھنے کو ملا۔جہاں بی جے پی کی کراری شکست ہوئی۔خیر۔اب آسام کی جیت نے بی جے پی کے لئے کچھ راحت کا کام کیا ہے۔لیکن،بات پھر اس سرکار کے وعدوں پر آکر  رک جاتی ہے۔کہ مودی جی۔اچھے دن کب آئیں گے؟اور اب لوگ پوچھنے لگے ہیں کہ دو ہزار انیس میں کیا ہوگا؟

Friday 27 May 2016


اظہار خیال کی آزادی خطرے میں؟

Madhya Pradesh Govt removes Barwani collector for praising Nehru

ملک میں اکثرو بیشتر اظہار خیال کی آزادی  پر بات ہوتی رہتی ہے۔اس کی بڑی وجہ ہے۔ملک میں رونما ہونے والے ایسے واقعات ۔جو اظہار خیال کی آزادی کے خلاف سامنے آتے ہیں۔چاہے وہ کانگریس کا زمانہ رہا ہو یا بی جے پی کا۔ہر دور میں اس طرح کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔اور اب ایسا ہی ایک واقعہ سامنے آیا ہے۔مدھیہ پردیش میں ۔جہاں ایک افسر کا تبادلہ صرف اس بنا پر کردیا گیا۔کیوں کہ انہوں نے گاندھی ۔نہرو خاندان کی تعریف کی تھی۔اور وہ بھی سوشل میڈیا یعنی فیس بک پر۔  کلکٹر اجے گنگوار کو فیس بک پرنہرو اور گاندھی خاندان کی تعریف کرنا اتنا  مہنگا  پڑے گا۔شاید کلکٹر صاحب نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔
چلئے اب۔ذرا آپ کو اس پوسٹ کے بارے میں بتا دیں جو اجے گنگوار نے  بدھ کے روز اپنی فیس بک پوسٹ  کیا تھا۔انہوں نے  لکھا تھا۔ذرا وہ غلطیاں بتا دیجیئے جو نہرو کو نہیں کرنی چاہیے تھیں۔ اگر انہوں نے سنہ انیس سو سینتالیس میں آپ کو ہندو طالبان قوم بننے سے روکا تو کیا یہ ان کی غلطی تھی۔ انہوں اے آئی آئی ٹی۔اسرو۔ آئی آئی ایس بی۔ آئی آئی ایم۔ بھیل اسٹیل پلانٹز۔ڈیمز۔ تھرمل پاور پلانٹ لگوائے ۔یہ ان غلطی تھی ۔اجے گنگوار نے مزید لکھا تھا: 'آسارام اور رام دیو جیسے انٹیلیکچولزکی جگہ سارا بھائی اور ہومی جہانگیر کو عزت اور کام کرنے کا موقع دیا یہ ان کی غلطی تھی، انہوں نے ملک میں گاؤشالہ اور مندر کی جگہ یونیورسٹیاں کھولیں یہ بھی ان کی بڑی غلطی تھی۔
دراصل مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے۔یہی وجہ ہے کہ تمام تنقیدیں ریاستی سرکار کی ہو رہی ہیں۔اجے گنگوار کو کلیکٹر کے عہدے سے ہٹا کر سیکرٹریٹ میں نائب سکریٹری مقرر کیا  گیاہے۔پہلے فیس بک پر اجے گنگوار کی اس پوسٹ پر بحث اور اب اس معاملے پر سیاست شروع ہوگئی ہے۔ریاستی وزیر لعل سنگھ آریہ نے بھی اجے گنگوار کی اس پوسٹ پر اعتراض کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی یہ بات طے مانی جا رہی تھی کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔لال سنگھ آریہ نے کہا تھا کہ سول سروسز کے اصول و ضوابط اور قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی جانی چاہیے۔ اظہار  خیال کی آزادی سب کو ہے لیکن قوانین پر بھی عمل ہونا چاہیے۔خیر۔ملک میں یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔جہاں کسی کی تعریف اور ہجو میں اس طرح کا سلوک کیا گیا ہو۔آپ کو یاد دلا دیں کہ اس سے پہلے ضلع نرسنگھ پور کے کلیکٹر سی بی چکرورتی نےتمل ناڈو میں جے للتا کی جیت پر سوشل میڈیا میں مبارکباد پیش کی تھی۔ لیکن مخالفت کے بعد انھوں نے بھی اپنی پوسٹ کو ہٹا لیا تھا۔خیر۔ملک میں اب کیرل سے لیکر جموں کشمیر تک بی جے پی اور اسکی اتحادی پارٹیوں کی حکومت ہے۔ایسے میں کبھی اظہار خیال کی آزادی۔کبھی نصابی کتابوں میں ترمیم ۔اور کبھی  مجاہدین آزادی اور کانگریسی رہنماؤں کے ناموں اور انکے کارناموں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعات سامنے آنا عام سی بات ہوگئی ہے۔ چند روز قبل ہی کی بات ہے کہ ریاست راجستھان میں اسکول کی نصابی کتابوں سے نہرو کا نام حذف کرنے کی خبریں آئی تھیں۔جب میڈیا میں اس طرح کی خبریں آئیں تو بیان جاری کر کے کہا گيا کہ یہ غلطی سے ہوگیا ہے۔ جسے جلد ہی درست کر لیا جائے گا۔ماہرین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی اپنے قائدین کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ کانگریسی رہنماؤں کے نام پر بہت سی اسکیموں کے نام بھی تبدیل کر رہی ہے۔جبکہ اپوزیشن کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ اسے بی جے پی کے رہنماؤں کی تشہیر سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اس کے رہنماؤں نے جنگ آزادی میں اہم کردار ادا کیا تھا اور جدید بھارت کی بنیاد رکھی تھی اس لیے انہیں نظر انداز نہیں کیا جا نا چاہیے۔خیر۔اس طرح کی خبروں سے ملک و ریاست کی شبیہ داغ دار ہوتی ہے۔ایسے واقعات پر لگام لگنی چاہئے۔

Thursday 26 May 2016

 
کتنا سچا  ہے تیرا وعدہ ؟

Narendra Modi Government Completes Two Years In Power
این ڈی اے حکومت اور مودی کی وزرات عظمیٰ کو دو سال مکمل ہوگئے ہیں۔سال دو ہزار چودہ میں چھبیس مئی کے ہی دن مودی نے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لیا تھا۔وزیر اعظم مودی کے دو سال مکمل ہونے پر سوال یہ اٹھ رہا ہےکہ ان دو برسوں میں مودی حکومت نے کیا پایا اور کیا کھویا؟اور سوال یہ بھی ہے کہ مودی حکومت نے ان دو برسوں میں کتنے وعدے وفا کئے؟سال دو ہزار چودہ میں لوک سبھا انتخابات کے وقت نریندر مودی نے ملک کے عوام سے کئی بڑے بڑے وعدے کئے تھے۔جن میں بیلک منی کو ملک واپس لانا۔بدعنوانی پر لگام کسنا۔مہنگائی پر قابو پانا وغیر وغیرہ۔اور اس وقت مودی نے ملک کے عوام کو ایک نعرہ دیا تھا۔سب کا ساتھ سب کا وکاس۔اقتدار کے  دو سال مکمل ہونے پر  ۔  بی جے پی نے  اپنے جشن کا آغاز یوپی کے سہارنپور سے کیا ہے۔دراصل بی جے پی ۔ سہارنپور ریلی   کے ذریعہ ۔ایک تیر سے کئی نشانے سادھنے کی تاک  میں ہے۔ایک طرف مرکزی حکومت کا دو سالہ جشن تو دوسری طرف یوپی اسمبلی انتخابات کے لئے بگل بجانا۔اور تیسر ے ۔اس ریلی کے ذریعہ بی جے پی کیڈر کو متحد کر نا اور ایک پلیٹ فارم پر لانا۔خیر۔ان دو برسوں میں مودی حکومت نے  جہاں بہت کچھ پایا ہے۔تو وہیں بہت کچھ کھویا بھی ہے۔ایک طرف جہاں ملک کی عوم کو ان دو برسوں میں  صرف وعدے اور بیرون ممالک کے سفر  ہی ہاتھ لگے ہیں۔تو وہیں عوام اس انتظار میں بھی ہے  کہ یہ سرکار ایکشن میں نظر کب آئے گی؟عوام کو انتظار ہے اچھے دنوں کا۔دوسری طرف اپوزیشن  مودی حکومت کے ان دو برسوں کو خامیوں سے پر تعبیر کر رہی ہے ۔کانگریس کا کہنا ہے کہ ان دو برسوں میں مودی سرکار نے  کہا زیادہ اور کیا کچھ نہیں۔مودی بدعنوانی پر لگام لگانے کی قسم  تو کھاتے ہیں ۔پر حقیقت میں وسندھرا راجےسے لیکر رمن سنگھ تک اپنے ہی وزرائے اعلیٰ پر لگ رہے بد عنوانی کے الزامات کو ان دیکھا کرتے ہیں۔انکی پارٹی پاکستان کو سبق سکھانے کی بات تو کرتی ہے۔لیکن مودی اپنی حلف برداری تقریب سے لیکر نوازشریف کی بیٹی کی شادی تک میں ان سے ہاتھ ملاتے  دکھتے ہیں۔یعنی جو گجرات کی گدی سے دکھتا تھا۔وہ دہلی کے لال قلعہ سے کچھ اور ہی دکھتا ہے۔ادھر۔مودی سرکار  کے ان دو برسوں میں اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں  کو بھی  مایوسی ہی ہاتھ لگی ہے۔مودی سرکار کی مسلم سماج سے بے رخی اور فرقہ پرستی کو ہو املی یوپی کےدادری واقعہ سے ۔جہاں محض گائے کا گوشت رکھنے کی افواہ پر مشتعل بھیڑ نے ایک  مسلم شخص کا بہیمانہ قتل کر دیا ۔اس واقعہ کو لیکر ملک میں عدم رواداری پر ایک نئی بحث چھڑ گئی۔اور ایوارڈ اور اعزاز واپسی کے سلسلے نے مودی حکومت کو  سوچنے پر مجبور کر دیا۔اس کا اثر بہار میں دیکھنے کو ملا۔جہاں بی جے پی کی کراری شکست ہوئی۔خیر۔اب آسام کی جیت نے بی جے پی کے لئے کچھ راحت کا کام کیا ہے۔لیکن،بات پھر اس سرکار کے وعدوں پر آکر  رک جاتی ہے۔کہ مودی جی۔اچھے دن کب آئیں گے؟اور اب لوگ پوچھنے لگے ہیں کہ دو ہزار انیس میں کیا ہوگا؟

Monday 23 May 2016

ٹریننگ کے پیچھے کا سچ؟

Bajrang Dal men get arms training 'to save Hindus'

جیسے جیسے اترپردیش اسمبلی انتخابات قریب آرہے ہیں۔ویسے ویسے یوپی میں ہندو تنظیمیں متحرک ہو رہی ہیں۔پچھلے دنوں بنارس میں ہندو آرمی بنانے کی خبر سامنے آئی تھی ۔اور اس وقت اس تنظیم نے ترک دیا تھا کہ وہ آئی ایس اور داعش جیسی تنظیموں سے نمٹنے کے لئے اپنی تیاری کر رہے ہیں۔تو اب  خبر آئی ہے کہ ہندو بھگوا سنگٹھن بجرنگ دل  اپنے کارکنان کو  اسلحہ  کی ٹریننگ  دے رہا ہے۔ اترپردیش میں ہندو بھگوا سنگٹھن بجرنگ دل نے اپنے کارکنان کو رائفل و جدید اسلحہ چلانے  اور تلوار بازی کے ساتھ لاٹھی چلانے کی ٹریننگ دینی  شروع کی ہے ۔ بجرنگ دل کا کہنا ہے کہ یہ ٹریننگ ہم اپنی حفاظت کے لئے کر رہے ہیں ۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ ٹریننگ کیمپ یو پی میں سب سے حساس شہر  ایو دھیا میں لگایا گیا  ۔ جہاں بابری مسجد کا معاملہ برسوں سے چلا آرہا ہے۔غورطلب ہے کہ یہ سنگٹھن اسلحہ چلانے کی ٹریننگ کئی برسوں سے دیتا رہا ہے ۔ اس سے پہلے سال دوہزار دو میں بھی اس سنگٹھن نے ایودھیا میں اسلحہ چلانے و بم بنانے کی ٹریننگ دی تھی۔ ٹائمس آف انڈیا میں چھپی خبر کے مطابق پانچ جون کو سلطان پور۔ گورکھپور۔ پیلی بھیت۔ نویڈا۔ اور فتح پور میں بھی اس طرح کے کیمپ لگائے جائیں گے۔ وہیں ہندو بھگوا سنگٹھن بجرنگ دل کا کہنا ہے کہ ہم اپنی حفاظت کیلئے اس طرح کی ٹریننگ کیمپ کا انعقاد کرتے ہیں۔ جس میں رائفل وجدید اسلحہ چلانے کے ساتھ تلوار بازی اور لاٹھی چلانے کی ٹریننگ دیتے ہیں۔ اس ٹریننگ کا ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آیا ہے۔جس میں چونکا دینے والی تصاویر سامنے آئیں ہیں ۔اس  ویڈیو میں ٹریننگ کرنے والے افراد اپنے سروں پر ٹوپی لگائے ہوئے ہیں ۔  سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہندو بھگوا سنگٹھن بجرنگ دل یہ بتانا چاہتا ہے کہ ٹریننگ  لینے والے مسلمان ہیں؟ آخر بجرنگ دل کے  ٹریننگ لینے والے کارکنان کی ٹوپی پہننے کی وجہ کیا ہے؟کیا یہ محض مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش ہے؟یا یہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں اشتعال پھیلانے کی تیاری؟واضح رہے کہ جب جب اترپردیش میں انتخابی ماحول ہوتا ہے۔تب تب ہندو تنظیمیں ۔ریاست میں اشتعال انگیز ماحول بھی تیار کرتی ہیں۔حالیہ دنوں اعظم گڑھ میں فرقہ وارانہ فساد ہوا ہے۔ایسے میں بجرنگ دل کا اس طرح ٹریننگ دینا کتنا جائز ہے؟سوال یوپی کی حکومت پر بھی اٹھتا ہے۔جہاں اکھلیش یادو کی سرکار ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ یوپی کی سرکار اس طرح کی حرکتوں پر خاموش کیوں رہتی ہے۔کیوں کی اشتعال اور نفرت پھیلانے کا یہ یوپی  میں پہلا واقعہ نہیں ہے۔امن و امان کو چوٹ پہچانے والی ایسی طاقتوں پر سرکار لگام کیوں نہیں لگاتی؟سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا بجرنگ دل کو ملک و ریاست کی سیکورٹی ایجنسیاں اور پولیس پر بھروسہ نہیں ہے۔جو وہ اپنی حفاظت کے لئے اتنی تیاری کر رہا ہے؟خیر۔کھوٹ نیت میں نظر آتی ہے۔ایسے میں سرکاروں کو سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔تاکہ ریاست اور ملک کا بھائی چارے اتحاد اور امن و امان کا ماحول خراب نہ ہونے پائے

Sunday 22 May 2016

 وزیر اعظم مودی کے ایران دورے سے ہندوستان کو کیا حاصل ہوگا؟

PM Modi's visit to Iran

وزیر اعظم نریندر مودی ایران کے دوروزہ دورے پر ہیں۔مودی  پہلی بار ایران کے دورے پر گئے ہیں۔وزیر اعظم مودی کا یہ سفر اس وقت ہو ا ہے جب دنیا کی اقتصادی  طاقتیں چین، جاپان اور کئی یورپی ممالک ایران میں سرمایہ کاری کرنے کو آرہے ہیں اور ایران اپنی تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانا چاہتا ہے۔سال دو ہزار چودہ میں وزیر اعظم بننے کے بعدمودی کا یہ  ایران  کا پہلا سفر ہے۔وزیر اعظم مودی کا  ایران دورہ کئی معنوں میں کافی اہم ہے۔اس سفر کے دوران دونوں ممالک توانائی ، مواصلات، تجارت اورسرمایہ کاری کو لے کر اہم فیصلے لے سکتے ہیں ۔تو دوسری طرف ایران اپنے جوہری پروگرام کی وجہ سے سالوں سے بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ پڑے رہنے کے بعد علاقائی طاقت کے طور پراپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ چین کے بعدہندوستان ، ایران سے تیل درآمد کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور ہندوستان  اپنے درآمد ادکو اور بڑھانے کی سمت میں سوچ رہا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کی ایران دورے کے دوران چابهار بندرگاہ میں ہندوستان کی شرکت کا مسئلہ بات چیت کا اہم مسئلہ مانا جا رہا ہے۔ ہندوستان نے پہلے ہی چابهار بندرگاہ اور اسپیشل اكنومک ژون میں بیس ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش ہوئی ہے۔اس بات کی بھی امید ہے کہ چابهار کو لے کر  ہندوستان، ایران اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی معاہدے پر دستخط کی طرف بڑھ سکتا ہے۔یہ معاہدہ ہندوستان کو ایران کے راستے افغانستان تک پہنچنے کا راستہ کھول سکتا ہے۔اس سے بھارت کو توانائی اور خاص کر وسط ایشیا سے جڑنے کا راستہ بھی مل سکتا ہے۔ہندوستان اور ایران ٹھپ پڑی ہوئے توانائی کے منصوبے پھارذاد بی گیس فیلڈ کو لے کر بھی بات کر رہے ہیں۔چابهار بندرگاہ معاملے میں ہندوستان کے بڑھتے ہوئے قدم کو، چین کو دیا گیا ایک اسٹریٹجک جواب مانا جا رہا ہے۔پاکستان کے گوادر بندرگاہ کی تعمیر میں چین سرمایہ کاری کر رہا ہے۔اقتصادی كاریڈور کی تعمیر میں چین 46 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔اس  كاریڈور  سے پاکستان کے گوادر بندرگاہ کو چین کے شنجيانگ صوبے سے جوڑا جا سکے گا۔خیر۔ ہندوستان اور ایران کے تعلقات بہت پرانےاوربہت گہرے  رہے ہیں۔  ایران کے خلاف امریکہ اور یورپ کی پابندیوں کے دوران بھی ہندوستان ایران کے ساتھ کھڑا رہا تھا۔اب  وزیر اعظم مودی انہیں تعلقات کو پھر پٹری پر لانے کے لئے کوشاں ہیں۔مودی سے پہلےمرکزی وزیر برائے  شاہراہ اور شپنگ نتین گڈکری، تیل کے وزیر دھرمیندر پردھان اور وزیر خارجہ سشما سوراج بھی تہران کا دورہ کر چکی ہیں۔ہندوستان ایران سے تیل خریدنے والا ایک اہم ملک ہے اور اس نے یورپ اور امریکہ کی پابندیوں کے درمیان امریکہ کے شدید دباؤ کے باوجود ایران سے خام تیل لینا جاری رکھا تھا۔پابندیوں کے درمیان  ہندوستان  کو ایران سے کافی مراعات بھی ملتی تھیں۔ہندوستان اور ایران کے درمیان چابہار بندرگاہ کی توسیع وتعمیر کے منصوبے کے ایک معاہدے پر باضابطہ دستخط کیے جانے کی توقع ہے۔ ایران سے ہندوستان کے ہمیشہ قریبی تعلقات رہے ہیں۔ چند برس قبل ایران میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق ایران میں انڈیا کی مقبولیت تقریباً 70 فیصدتھی جو کہ دنیا کے سبھی ممالک سے زیادہ تھی۔ ہندوستان  میں بھی ایران کے تعلق سے ایک مثبت رویہ رہا ہے۔پابندیوں کے خاتمے کے بعد ہندوستان نہ صرف تیل اور گیس کی اپنی مستقبل کی ضروریات کے لیے ایران کی طرف مائل ہے بلکہ وہ پابندیوں کے بعد ایران کی تعمیر نو میں سرمایہ کاری کا ایک بہترین موقع دیکھ رہا ہے۔ایرانیوں کو بھی  ہندوستان  میں گہری دلچسپی ہے۔ایران انڈیا کی مستقبل کی پالیسی کا ایک انتہائی ملک ہے۔ پاکستان میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کے پیش نظر انڈیا، افغانستان اور ایران کے ساتھ وسط ایشیا تک رسائی کے لیے ایک متبادل راستہ تلاش کررہا ہے۔ افغانستان کو شامل کر کے پاکستان کو الگ تھلگ کرنا بھی ایران سے انڈیا کے گہرے ہوتے ہوئے تعلقات کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔یعنی ۔وزیر اعظم کا ایران دورہ کئی معنوں میں ہندوستان کے لئے بہت اہم ہے۔اب دیکھنا یہ دلچسپ ہوگا کہ اس دورے سے وزیر اعظم مودی کیا کچھ حاصل کرتے ہیں؟

Friday 20 May 2016

مرکز ی حکومت کی نیت پر شک؟

Sadhvi Pragya gets clean chit,question on center

پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو قومی جانچ ایجنسی این آئی اے کی طرف سے کلین چٹ دیئے جانے کے بعد سے ہی مرکزی حکومت پر  سوال اٹھ رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ خود مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو اب پرگیہ کے معاملے  پر صفائی دینی پڑ رہی ہے۔ راج ناتھ سنگھ نے جانچ ایجنسیوں کے کام کاج میں حکومت کی جانب سےدباؤ کی بات سے انکار کیا ہے۔راجناتھ سنگھ نے کہا کہ جانچ ایجنسیوں پر حکومت کی جانب سے کوئی دباؤ نہیں ہے اور وہ کسی بھی جانچ کیلئے آزاد ہیں۔ادھر۔سادھوی پرگیہ نے اجین  کے مہا کمبھ میں شرکت کو لیکر انتظامیہ کو پریشان کیا۔اور جب انتظامیہ نے پرگیہ کو مہا کمبھ میں جانے کی اجازت نہیں دی۔تو انہوں نے احتجاج شروع کر دیا۔اور اس کے لئے انہوں نے مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔خیر دباؤ میں آکر انتظامیہ نے پرگیہ کو کمبھ میں شرکت کی اجازت دے دی ۔اس سے پہلے پرگیہ نے  کلین چٹ ملنے پر بیان دیا تھا کہ  اب این آئی اے کی جانچ صحیح سمت میں جا رہی ہے۔آپ کو یاد دلا دیں کہ مالیگاؤں دھماکہ  معاملے میں بھگوا دہشت گردوں کے شامل ہونے کی جانچ  وقتا فوقتاکئی ایجنسیوں کے حوالے کی گئی۔اور اس جانچ پر کئی طرح کے سوال بھی اٹھتے رہے۔خیال رہے کہ  اس معاملے کی پیروی کرنے والی سابق سرکاری وکیل روہنی سالیان نےاین آئی اے پر الزام لگایا تھا کہ ان پر  اس معاملے میں گرفتار ملزمین کے خلاف نرم رخ  اختیار کرنے کا دباؤ بنایا جارہا ہے۔اس وقت بھی بھگوا دہشت گردوں پر سرکار اور  جانچ ایجنسیوں کے نرم رویئے پر کافی بحث ہوئی تھی۔ این آئی اے کے مطابق پرگیہ کو اس معاملے میں اے ٹی ایس کی جانب سے جان بوجھ کر پھسایا گیا تھا۔ خیر۔دو ہزار آٹھ مالیگاؤں بم دھماکہ معاملے نے کئی کروٹیں لیں۔اور کئی بار اس معاملے کو لیکر سرکاروں۔جانچ ایجنسیوں  پر سوال اٹھتے رہے۔مالیگاؤں میں ستمبر  دو ہزار آٹھ  میں بم دھماکے کیے گئے تھے جن میں چھ افراد ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔پہلے مقامی مسلمانوں اور لشکر طیبہ پر شک ظاہر کیا گیا تھا لیکن بعد میں مہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی دستے نے ابھینو بھارت نامی ایک ہندو شدت پسند تنظیم کو بے نقاب کیا تھا اور اس مقدمے میں اس کے کئی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا۔سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر ان میں سے ایک ہیں۔

Wednesday 18 May 2016

کون مارے گا بازی؟

Elections 2016: Your Guide to What's at Stake in the Five States

پانچ ریاستوں کے نتائج کل یعنی جمعرات کو آجائیں گے۔ ایک طرف جہاں تمام پارٹیوں اور امیدواروں  کو انیس تاریخ کا بے صبری سے انتطار ہے۔تو وہیں عوام بھی اپنے فیصلے کے لئے نتائج کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔اس سال کا مینڈیٹ سننے کا موقع جیسے جیسے نزدیک آ رہا ہے، دہلی کی فضا گرم ہوتی جا رہی ہے. اتراکھنڈ میں حکومت اور آگسٹا ویسٹ لینڈ معاملے میں مبینہ رشوت خوری پر کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی ایک دوسرے پر حملہ بولے ہوئے ہیں۔لیکن مرکز کے سیاسی مساوات میں ان دونوں جماعتوں کے لئے ریاستوں سے جو نئی ہوا  بنی ہے، وہ  انیس مئی کو ای وی ایم مشینوں سے نکلے گی۔فی الحال جن پانچ ریاستوں - آسام۔مغربی بنگال،۔کیرالہ۔تمل ناڈو  اور پدوچیری  کے مینڈیٹ نئی سیاسی فضا تیار کریں گے۔اس میں آسام ہی واحد ریاست ہے جس کے نتیجہ ان دونوں پارٹیوں کے اعلی رہنماؤں کی سیاست کے لئے سب سے زیادہ کام کے ہوں گے. کانگریس کا تو داؤ کیرالہ میں بھی ہے اور مغربی بنگال میں بھی ہے. اگر بایاں محاذ کے ساتھ مل کر وہ ممتا بنرجی کو کچھ جھٹکا دے پاتی ہے تو اس کے مرکزی قیادت کو راحت ملے گی۔لیکن بی جے پی میں مودی شاہ جیٹلی  تینوں کے لئے تو آسام سے ہی ٹھنڈک مل سکتی ہے جو دہلی اور بہار سے چلی سیاسی لو کی تپن کچھ ہلکی کردے بشرطیکہ وہاں کے لوگوں نے واقعی کوئی بدلاؤ کے لئے ہی  بٹن دبایا ہے۔ان پانچوں ریاستوں میں سب سے زیادہ نگاہیں مغربی بنگال اور آسام پر لگی ہوئی ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ اس الیکشن میں جیت آخر کس کی ہوگی اور پلڑا کس کا اور  کس وجہ سے بھاری رہا؟بات اگر مغربی بنگال سے شروع کی جائے تو  یقینی طور پر کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں میں تال میل ہونے کے بعد ترنمول کی مشکل بڑھی اور انتخابات میں اس مشکل کو آخری مرحلے تک جھیلنا پڑا۔لیکن ترنمول اگر ایک بار پھر ممتا بنرجی کی قیادت میں حکومت میں واپس آ جائے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔لیکن کانگریس بائیں بازو اتحاد کی وجہ سے مسلم ووٹر یہاں تک کہ اگر وہ اردو بولنے والے مسلم ہوں یا بنگالی مسلمان، ترنمول کے تئیں ان کادو ہزار گیارہ  کی طرح جھکاؤ نہیں دکھا۔ مسلم ووٹروں کے ووٹ دونوں طرف گئے. تاہم ترنمول کو مسلم ووٹروں کے ووٹ زیادہ ملنے کی امید ہے۔بائیں باز و اور کانگریس  اتحادنے رفتار تو پکڑی ۔لیکن کیرالہ کے انتخابات کی وجہ سے شروع میں تال میل بٹھانے  میں ہچکچاہٹ دکھائی۔بعد میں راہل اور سابق وزیر اعلی بدھا دیب بھٹاچاریہ ایک پلیٹ فارم پر آئے۔لیکن اس وقت تک ووٹنگ کے چار مرحلے ہو چکے تھے۔اب بات آسام کی کر لیتے ہیں۔جہاں اگزٹ پول نے گوگوئی کو تقریبا اقتدار سے ہٹا دیا ہے۔آسام باشندوں سے آج کل باقی ہندوستان میں رہنے والے ان کے متعلق اور دوست ایک ہی سوال پوچھ رہے ہیں - کیا ہوگا اس بار کے اسمبلی انتخابات کے بعد ؟  یہ سوال صرف سیاست یا صحافت سے منسلک ہوئے لوگ نہیں، کاروبار یا دیگر علاقوں میں نوکری کرنے والے بھی پوچھ رہے ہیں۔آسام کے باشندوں کو اس بات کا ملال رہتا ہے کہ باقی ہندوستان میں زیادہ تر لوگ کولکتہ کے آگے شمال مشرقی کے تمام شعبوں کو آسام سمجھتے ہیں، جبکہ وہاں سات دیگر ریاست بھی ہیں۔آسام میں انتخابی مہم کا بھی وہ اثر ملک بھر میں نہیں لگتا جو دیگر ریاستوں کے انتخابات کے دوران نظر آتا ہے ۔ریاست میں گزشتہ تین انتخابات کے بعد سے کانگریس کی حکومت بنتی آ رہی ہے۔ لیکن اب موجودہ وزیر اعلی ترون گوگوئی کی پکڑ کمزور نظر آرہی ہے۔اپنے تسلط اور اثر کو برقرار رکھنے کے لئے انہوں نے بڑی چالاکی سے آسام کے انتخابات کو کانگریس بمقابلہ بی جے پی کے بجائے مودی بنام گگوئی کا درجہ دینے کی کوشش کی ۔ لیکن آسام میں غیر قانونی تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے آبادی میں اور یہاں کی روایتی ثقافت میں آئے تبدیلی کے فی مقامی باشندوں میں غصہ ہے. بی جے پی نے اسی روش کی بدولت اکثریت کمیونٹی کے درمیان پکڑ بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے اور گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں ریاست کی ساتوں نشستیں بی جے پی نے جیت کر اپنی اس مضبوطی کا احساس بھی کرایا تھا۔۔خیر۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دو ہزار سولہ  کے اسمبلی انتخابات اب تک کےنہ صرف سب سے زیادہ منصفانہ  رہے بلکہ اس انتخاب میں کسی پارٹی کو نہ تو اپنے مخالفین کو ڈرانے کا موقع ملا اور نہ ہی الیکشن کمیشن پر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر خاموش تماشائی بنے رہنے کا الزام لگانے کا بہانہ ملا۔الیکشن کمیشن نے ثابت کر دیا کہ اگر وہ چاہے تو الیکشن میں دھاندلی مشکل ہی  بلکہ ناممکن ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ان ریاستوں میں کس کی سرکار بنے گی؟یہ اب سے کچھ دیر میں صاف ہوجائے گا۔

Tuesday 17 May 2016

یوم یوگ کے دوران اوم منتر کو جپنا ضروری۔وزارت آیوش

Chanting Om on Yoga Day: Modi government

یوگ پر ایک بار پھر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔دراصل  آنے والے اکیس جون کو منائے جانے والے عالمی یوم یوگ کو لےکر وزارت آیوش نے نیا فرمان جاری کر دیا ہے۔  اس فرمان کے مطابق یوم یوگ کے دوران اوم منتر کو جپنا ضروری ہوگا۔اکیس جون کو پوری دنیا میں منائے جانے والے عالمی یوم یوگ کو لےکر وزارت آیوش کے نئے فرمان سے تنازعہ بڑھ سکتا ہے۔ وزارت نے حکم  دیا ہے کہ اکیس جون کو یوگ کے دوران لفظ  اوم  کا جاپ کرنا ضروری ہوگا۔ ذرائع کے مطابق وزارت نے اس تعلق سے  پوری تیاری بھی شروع کر دی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اکیس جون کو یوگ کے دوران لفظ اوم کا جاپ  یوگ میں حصہ لینے والے ہر شخص  کے لئے ضروری ہوگا۔ وزارت آیوش کی پریس ریلیز کے مطابق۔یوم یوگ پر کل پینتالس منٹ کا پروگرام ہوگا۔اس میں چھ منٹ کندھے اور گردن سے جڑے  آسن ہونگے۔دو منٹ کی پرا رتھنا ہوگی۔اور اس کے بعد یوگ کے تیئس آسن کئے جائیں گے۔ وزارت آیوش نے فرمان تو جاری کر دیا ہے لیکن اس کے مختلف رد عمل سامنے آ رہے ہیں۔ اداکار انوپم کھیر جہاں اس فیصلے کی حمایت کر رہے ہیں۔ وہیں مسلم مذہبی رہنما  رشید فرنگی  محلی  نے کہا کہ یہ فیصلہ عقیدت کے خلاف ہے۔ وہیں کانگریس  بھی اس فیصلے کے خلاف ہے۔یعنی اس معاملے پر سیاست بھی شروع ہوگئی ہے۔کیوں کہ یہ معاملہ مذہب سے جڑا ہوا ہے۔ایسے میں مسلم تنظموں کی طرف سے بھی اس پر سخت ردعمل مل رہا ہے۔مسلم اسکالرس اور علمائے دین کا کہنا ہے کہ یوگ کے دوران لفظ  اوم  کا جاپ کرنا  اور سوریہ نمسکار۔یہ دونوں ہی عمل اسلام کے خلاف ہیں۔ایسے میں اس عمل کو مسلمانوں پر تھوپنا جائز اور مناسب نہیں ہے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب سوریہ نمسکارپر پہلے ہی اتنا وبال ہو چکا ہے۔تو پھر  لفظ  اوم  کا جاپ کرنا   لازمی کرنا کتنا مناسب ہے؟سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا اس طرح کے فرمان جان بوجھ کر دیئے جاتے ہیں؟اور کیا اس فرمان کے پیچھے بھی سیاست کارفرما ہے؟ہم آپ کو یاد دلادیں کہ پہلی مرتبہ اکیس جون دو ہزار پندرہ کو عالمی یوم یوگ منایا گیا تھا۔ اس کا آغاز وزیر اعظم نریندر مودی نے سال دو ہزار چودہ میں یو این کونسل میں اپنے خطاب سے کیا تھا۔  تب سے ہی ہر سال یوم یوگا منایا جاتا ہے۔تو دوسری طرف ہندوستان میں یوگا کے فروغ پر  شروع سے ہی تنازعہ بھی ہے۔ جس میں بعض مسلم تنظیموں نے کہا تھا کہ یوگا کا تعلق بطور خاص ہندو مذہب سے ہے اور یہ اسلام کے منافی ہے۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کا اس قدیم ہندوستانی فن کو فروغ دینے کا ایجنڈا ہے۔ تاہم حکام نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یوگا میں شامل ہونا سب کے لیے لازمی نہیں ہے اور یہ بات کہ مسلمان یوگا کے خلاف ہیں ،مبالغہ آرائی ہے

Friday 13 May 2016

مالیگاؤں دھماکہ : پرگیہ کو این آئی اے کی کلین چٹ

 NIA's new Malegaon script,Clean chit to Sadhvi

مالیگاؤں دھماکہ معاملے کی اہم ملزمہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے لئے قومی جانچ ایجنسی این آئی اے کی طرف سے بڑی راحت کی خبر آئی ہے۔جانچ ایجنسی این آئی اے کا کہنا ہے کہ اسے پرگیہ کے خلاف  مالیگاؤں دھماکہ معاملے میں کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پرگیہ پر سے مکوکہ ہٹا لیا گیا ہے۔جی ہاں مالیگاؤں دوہزار آٹھ بم دھماکہ معاملے میں گرفتار اہم ملزمہ سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر کو این آئی اے نے کلین چٹ دینے کا منصوبہ بنایا ہے۔ این آئی اے کے مطابق پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے خلاف خاطر خواہ ثبوت نہیں ہیں۔ اس لئے اس پر مکوکا نہیں لگایا جاسکتا۔ دوسری جانب این آئی اےاس معاملے کے دوسرے اہم ملزم کرنل پروہیت کے خلاف بھی مکوکا ہٹاسکتی ہے۔ این آئی اے کے مطابق آنجہانی  ہیمنت کرکرے کے قیادت میں کام کرنے والی اے ٹی ایس نے ہی  پروہیت کے مکان پر آر ڈی ایکس پلانٹ کیا تھا۔البتہ اس معاملہ میں ملزمین کے ناموں کی فہرست سے پروہیت کا نام نہیں ہٹایا جاسکتا۔ این آئی اے ذرائع کے مطابق ایجنسی کے پاس ایسے ثبوت موجود ہیں  جو پروہت کے اس معاملے میں شامل ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔این آئی اے کے پاس پروہت کے وہ کال ریکارڈس بھی  ہیں جن میں وہ  ایک دوسرے ملزم کو ثبوت مٹانے کی ہدایت دے رہے ہیں۔این آئی اے کے مطابق اس پورے معاملے میں راکیش دھاوڑے نامی ملزم کے خلاف مکوکا کے تحت چارجیس لگائے جاسکتے ہیں۔ دھاوڑے  کے خلاف پربھنی دوہزار تین اور جالنہ دوہزار چودہ بم دھماکہ  معاملے میں کیس درج ہے۔واضح رہے کہ مالیگاؤں دھماکہ  معاملے میں بھگوا دہشت گردوں کے شامل ہونے کی جانچ  وقتا فوقتاکئی ایجنسیوں کے حوالے کی گئی۔اور اس جانچ پر کئی طرح کے سوال بھی اٹھتے رہے۔خیال رہے کہ  اس معاملے کی پیروی کرنے والی سابق سرکاری وکیل روہنی سالیان نےاین آئی اے پر الزام لگایا تھا کہ ان پر  اس معاملے میں گرفتار ملزمین کے خلاف نرم رخ  اختیار کرنے کا دباؤ بنایا جارہا ہے۔اس وقت بھی بھگوا دہشت گردوں پر سرکار اور  جانچ ایجنسیوں کے نرم رویئے پر کافی بحث ہوئی تھی۔تو ادھر۔مالیگاؤں دھماکہ معاملے میں پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو راحت ملنے کی خبر کے ساتھ ہی ۔اب  اے ٹی ایس کی جانچ پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں۔جبکہ دوسری طرف روہنی سالیان  کے اس بیان کو بھی حققت سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے ۔ این آئی اے کے مطابق پرگیہ کو اس معاملے میں اے ٹی ایس کی جانب سے جان بوجھ کر پھسایا گیا تھا۔ خیر۔دو ہزار آٹھ مالیگاؤں بم دھماکہ معاملے نے کئی کروٹیں لیں۔اور کئی بار اس معاملے کو لیکر سرکاروں۔جانچ ایجنسیوں  پر سوال اٹھتے رہے۔این آئی اے نے اپنی تازہ فرد جرم میں سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر کا نام شامل نہیں کیا اس لیے اب ان کی رہائی کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔مالیگاؤں میں ستمبر سنہ 2008 میں بم دھماکے کیے گئے تھے جن میں چھ افراد ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔پہلے مقامی مسلمانوں اور لشکر طیبہ پر شک ظاہر کیا گیا تھا لیکن بعد میں مہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی دستے نے ابھینو بھارت نامی ایک ہندو شدت پسند تنظیم کو بے نقاب کیا تھا اور اس مقدمے میں اس کے کئی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا۔سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر ان میں سے ایک ہیں۔ دوسرے اہم ملزم کرنل پروہت ہیں جو اس وقت حاضر سروس افسر تھے۔ان پر الزام تھا کہ دھماکوں میں جو موٹر سائیکل استعمال کی گئی تھی وہ انہی کی تھی۔ لیکن این آئی اے کا اب کہنا ہے کہ سادھوی اور چھ دیگر افراد کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہیں، لہٰذا ان کے نام نئی فرد جرم میں شامل نہیں کیے گئے۔سینئیر وکیل اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے لیڈر مجید میمن نے کہا: ’انصاف اور سچائی کا گلا گھوٹنے کی کھلے عام کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت بدل جانے سے سچائی نہیں بدل جاتی۔یہ مقدمہ کانگریس کے دورِ اقتدار میں قائم کیا گیا تھا۔ اب این آئی اے کا کہنا ہے کہ اے ٹی ایس نے فرضی شواہد کی بنیاد پر یہ مقدمہ قائم کیا تھا۔کانگریس کے سنئیر لیڈر دگ وجے سنگھ نے کہا کہ ایسے لوگوں کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو واضح طور پر شدت پسندی میں ملوث تھے۔نائب وزیر داخلہ کرن ریجیجو نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ این آئی اے حکومت کے دباؤ میں کام کر رہی ہے۔اس مقدمے کے دوسرے ملزم کرنل پروہت کے خلاف بھی مہاراشٹر کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ (مکوکا) ہٹانے کی سفارش کی گئی ہے۔یہ انتہائی سخت قانون ہے جس میں گرفتار کیے جانے والوں کو آسانی سے ضمانت نہیں ملتی۔ مکوکا ہٹ جانے سے کرنل پروہت کے خلاف بھی مقدمہ کی نوعیت کم سنگین ہو جائےگی۔خیر۔مالیگاؤں میں دوہزار چھ اور پھر دو ہزار آٹھ میں بم دھماکے ہوئے تھے۔ دو ہزار چھ میں ہوئے بم دھماکے کے نو ملزمین کو چند دن قبل ہی مالیگاؤں بم دھماکہ معاملے میں دس سال  کے طویل انتظار کے بعد نو ملزمین کو ممبئی کی مکوکہ کورٹ نے  بری کر دیا  تھا۔آپ کو بتا دیں کہ آٹھ ستمبر دو ہزار چھ کومالیگاؤں میں کل چار دھماکے ہوئے تھے۔تین دھماکے حمیدیہ مسجد میں اور ایک مشاورت چوک میں ۔ان دھماکوں میں اکتیس افراد کی موت ہوئی تھی۔اور تقریبا  تین سو بارہ لوگ زخمی ہوئے تھے۔اس معاملے میں  دو طرفہ کیس درج ہوئے۔ایک تو مسلم نو جوانوں پر اور دوسرے بھگوا دہشت گردوں پر۔اس بیچ ۔جانچ کو لیکر  اے ٹی ایس پر سوال اٹھے اور یہ معاملہ ۔سی بی آئی کے حوالے کیا گیا تھا۔سی بی آئی  نے بھی  اے ٹی ایس کی کہانی کو آگے بڑھایا تھا۔اس بیچ اے ٹی ایس کی جانچ میں ابھینو بھارت تنظیم کا نام سامنے آیا تھا۔اس معاملے میں سوامی اسیمانند۔کرنل پروہت۔اور سادھوی پرگیہ کو گرفتار کیا گیا تھا

Thursday 12 May 2016

کیا یہ محض سرخیاں بٹورنے کے لئے ہے؟

Trupti Desai enters Haji Ali dargah

ہندوستان میں خواتین کے مسائل ہر دور میں رہے ہیں۔کبھی ستی کا مسئلہ تو کبھی  شادی اور طلاق کی بحث اور کبھی مندروں اور عبادت گاہوں میں پوجا پاٹ کو لیکر تکرار۔یعنی سماج میں خواتین کو لیکر ہمیشہ ہی ایک بحث بنی رہتی ہے۔کبھی درگاہوں میں خواتین پرپابندی کی بات کی جاتی ہے ۔تو کبھی مندروں میں داخلے پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔اب ممبئی کی حاجی علی درگاہ  میں خواتین کی پابندی کو لیکر ایک بحث چھڑی ہوئی ہے۔بھوماتا برگیڈ کی صدر ترپتی دیسائی نے  صبح سویرے حاجی علی درگاہ پر حاضری دی۔اور دعا کی کہ خواتین کو مزار پر حاضری کی اجازت ملے۔حالانکہ  ترپتی دیسائی  درگاہ میں اسی مقام تک گیئں  جہاں تک  درگاہ ٹرسٹ نے انہیں اجازت دی تھی۔خیر۔درگاہ میں خواتین کی حاضری کو لیکر ایک بحث  تو چھڑی ہوئی ہے۔ کیوں کہ جہاں یہ معاملہ خواتین کے حقوق سے جڑا ہوا ہے۔تو وہیں یہ ایشو مذہبی  معاملات اور مسائل سے بھی جڑا ہوا ہے۔ایسے میں یہ معاملہ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے۔کہ خواتین کو درگاہوں پر جانا چاہیئے یا نہیں؟آپ کو یاد دلادیں کہ اس سے پہلے ترپتی اٹھائیس اپریل کو درگاہ میں جانے کی کوشش کر چکی ہیں۔لیکن انہیں روک دیا گیا تھا۔اس وقت کئی تنظیموں نے ترپتی دیسائی کے حاجی علی درگاہ میں داخلے پر اعتراض جتایا تھا۔ترپتی دیسائی اس سے پہلے  بھی اس طرح کے مسائل اٹھاتی رہیں ہیں۔گذشتہ دنوںوہ  مہاراشٹر کے احمد نگر میں واقع شنی مندر میں  خواتین کی پوجا  کو لیکر سرخیوں میں رہ چکی ہیں۔حالانکہ ترپتی کے اس قدم پر مختلف بیانا ت سامنے آرہے ہیں۔کسی نے اسے سستی شہرت سے تعبیر کیا ہے۔تو کسی نے کہا کہ ترپتی عیسائی ٹمپل بھی جا کر دیکھائیں ۔خیر ان سب سے ہٹ کر۔سوال یہ اٹھتا ہے۔کہ ترقی کے اس دور میں بھی خواتین کے ساتھ یہ سلو ک کیوں ؟کیا خواتین کو ہر مذہبی جگہ پر عبادت کا حق ملنا چاہئے؟کیا خواتین کو بھی مردوں کے مقابلے اصل دھارے میں لانے کی ضرورت ہے؟سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جب سماج کے ہر حصے میں خواتین ۔مردوں کے مقابلے شانہ بشانہ کھڑی  ہو سکتی ہیں۔تو پھر  درگاہوں ۔مندروں اور عبادت گاہوں میں  پوجا ۔عبادت  اور درشن کو لیکر واویلا مچانے کی ضرورت کیا ہے؟یہ معاملہ صرف  حاجی علی درگاہ  کا ہی نہیں ہے۔ایسی ہی خبرملک کے کئی حصوں سے  بھی آتی رہتی ہیں ۔جہاں   درگاہوں اور عبادت گاہوں  میں خواتین کے داخلے پر  پابندی عائد ہے۔یعنی  اس طرح کے مسائل سے خواتین ملک کے کئی حصوں میں  گذر رہی ہیں۔اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

Tuesday 10 May 2016

کانگریس ایک جیت کے ساتھ کئی نشانےسادھنے کی تیاری میں؟

Uttarakhand floor test

اتراکھنڈ  کا سیاسی بحران تو ایک طرح سے  تھم  گیاہے۔لیکن اب انتظار ہے فلور ٹسٹ کے باضابطہ   نتائج کا ۔جو بند لفافے میں سپریم کورٹ کے حوالے کر دئیے گئے ہیں۔اب یہ لفافہ سپریم کورٹ میں کھلے گا۔اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔خیر ۔ کانگریس نے اسے جمہوریت کی جیت سے تعبیر کیا ہے۔   ہریش راوت نے اپنی جیت کا دعویٰ کر دیا ہے۔اور کہا ہے کہ امید ہے کہ ناامیدی کے بادل چھٹ جائیں گے۔اور صورتحال صاف ہوجائے گی۔ہریش راوت نے سبھی کا شکریہ ادا کیا۔یعنی ایک طرح سے اتراکھنڈ کا سیاسی بحران یا سیاسی ڈرامہ تھم گیا  ہے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس لڑائی میں کس کو کیا ملا۔بی جے پی یہ کہہ کر مطمئین ہے کہ کانگریس کی ایک لیڈر نے بی جے پی کا دامن تھام لیا ہے۔اور بی جے پی  فائدے میں ہی ہے۔بی جے پی کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ  انہوں نے پیسوں کا سہارا نہیں لیا ۔ورنہ  وہ بھی اکثریت ثابت کر سکتے تھے۔بی جے پی نے کانگریس پر الزام لگایا کہ کانگریس نے ریاست میں خوب خرید فروخت کی ہے۔یہی وجہ ہے کی بی جے پی  نے اصولی جیت حاصل کی ہے ۔لیکن عددی طور  پر اسکی شکست ہوئی ہے۔ادھر کانگریسی خیمے میں جشن کا ماحول ہے۔اور کانگریس  کو بس انتظار ہے تو ۔لفافہ کھلنے کا۔خیر ۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ جو کام آج سے دو ماہ پہلے ہی کیا جاسکتا تھا وہ اب کیا گیا۔یعنی کافی تاخیر سے فلور ٹسٹ ہوا۔ اس میں آخر نقصان  کس کا ہے؟ادھر سپریم کورٹ میں نو باغی ارکان کا معاملہ ابھی بھی زیر غور ہے۔یعنی ۔اگر راوت کو اکثریت  مل بھی جاتی ہے۔تو سرکار بنانے میں اڑچن آسکتی ہے۔کیوں کہ   اگر سپریم کورٹ اسپیکر کے فیصلے کو بدلتے ہوئے  باغی ارکان کو صحیح ٹھراتا ہے۔تو کیا اسمبلی میں پھر طاقت کا مظاہرہ ہوگا؟اور کیا نو باغی ارکان کی ممبرشپ پر آخری فیصلہ لینے سے پہلے ہریش راوت کو سرکار بنانے کی اجازت ملے گی؟وہیں ۔اتراکھنڈ سیاسی بحران کے دوران ۔ہمیشہ  ہارس ٹریڈنگ اور پیسے کے لین دین کی بات سر خیوں میں رہی ۔اب سوال یہ  ہے کہ کیا  ہارس ٹریڈنگ کی جو بات اتراکھنڈ میں ہوتی رہی ہے۔کیا اس پر واقعی میں  جانچ  ہو گی  اور جمہوریت  کے اس عمل کو صاف و شفاف  بنایا جائے گا

Monday 9 May 2016

 کیا واقعی اتحاد ملت وقت کی ضرورت ہے؟

Maulana Tauqeer Raza Khan visits Darul Uloom Deoband

ملک کے موجودہ  ماحول  اور مسلم مسائل اور خاص کر بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کے درمیان اتحاد ملی کونسل کے صدر مولانا توقیر رضا اتوار کو دیوبند پہنچے ۔جہاں انھوں نے دیو بند سے گرفتار کئے گئے  نوجوان کے گھروالوں سے ملاقات کی ۔اور انکے اہل خانہ کو ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی۔ اس دوران مولانا توقیر رضا  دیوبند کے دارالعلوم بھی گئے ۔جہاں انہوں نے  دیوبند کے مہتمم مفتی ابو  القاسم نعمانی سے ملاقات کی اور  مسلمانوں سے جڑے کئی مسائل پر بات چیت کی۔اس ملاقات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اختلافات اور عقائد اپنی جگہ ہیں۔لیکن دہشت گردی کی روک تھام اور ملت کے مسائل کے حل کے لئے وہ ایک پلیٹ فارم پرآسکتے ہیں۔حالانکہ مولانا توقیر رضا   کے دیوبند   دورے کو لے کر ملی جلی رائے سامنے آ رہی ہے۔اور  کئی لوگوں کو مولانا توقیر رضا کا دارالعلوم جانا ناگوار گزر رہا ہے۔ تو وہیں اس معاملے میں خودمولانا توقیر رضا کا کہنا ہے جو لوگ انکی مخالفت کر رہے ہیں وہ انکا  مقصد نہیں سمجھتے۔ خیر۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا واقعی ۔اتحاد ملت وقت کی ضرورت ہے۔یا مسلکی مسائل اور اختلافات کو بھلا کر ۔مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا  چاہیئے۔سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اس طرح کی کوششیں اس سے پہلے بھی کی جا چکی ہیں۔ایسے میں کیا مولانا توقیر رضا  کے ذریعہ اٹھایا گیا قدم کیا واقعی میں قوم اور خاص کر مسلم سماج کے لئے سود مند ثابت ہوگا؟ مولانا توقیر رضا نے کہا کہ انکے دیوبند دورے کامقصد صرف اتنا ہے کہ بریلوی اور دیوبندی بھلے ہی مسلکی اعتبار سے الگ الگ ہوں ۔لیکن اگر معاملہ قوم و ملت کا ہوگا۔تو دونوں ایک پلیٹ فارم پر نظر آئیں گے۔مولانا نے کہا کہ آر ایس ایس کے ایجنڈے کے خلاف اور ملک کی جمہوریت اور سیکولرزم کے تحفظ کے لئے وہ ہمیشہ فرقہ پرست طاقتوں سے لڑتے رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس مسلمانوں کے درمیان موجود مسلکی اختلافات سے فائدہ  اٹھا رہا ہے۔انہوں نے کہا  کہ متحد ہوکرکام کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ادھر سوشل میڈیا پر مولانا توقیر رضا کے اس قدم کی خوب پذیرائی کی جا رہی ہے۔یہ تو سچ ہے کہ مولانا کا یہ قدم قابل ستائش ہے۔لیکن اس ایشو پر مولانا کو قوم کا اور مسلم سماج کا کتنا ساتھ ملتا ہے۔یہ دیکھنا اہم ہوگا

Tuesday 3 May 2016

ہندوستان میں عدم رواداری کو پہنچی چوٹ

Intolerance in India rose in 2015, says USCIRF

یوایس کمیشن فار انٹرنیشنل ریلجیس فریڈم کی سالانہ رپورٹ آئی ہے۔ اس رپورٹ میں ہندوستان میں اقلیتوں کے تعلق سے جو باتیں  کی گئی ہیں وہ اپنے آپ میں بہت بڑے سوال کھڑاے کرتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سال دو ہزار پندرہ میں ہندوستان میں اقلیتی طبقوں کو تشدد کا شکار بنایا گیا۔رپورٹ کہتی ہے کہ  سال دو ہزار پندرہ میں ہندوستان  کے مسلمانوں ،عیسائیوں اور سیکھوں  کا سب سے زیادہ استحصال ہوا ہے۔اور رپورٹ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ  ہندوستان میں پولیس اور عدلیہ کی خامیوں کے چلتے اقلیتی طبقے خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔سال دوہزار پندرہ میں ہندوستان   میں عدم رواداری کے واقعات میں ہوا اضافہ۔اور ملک کے مذہبی رہنماؤں نے  غیر معیاری بیانات دیئے۔ان بیانات سے اقلیتی طبقوں اور خاص کر مسلم طبقے میں ڈر و خوف کا ماحو ل دیکھا گیا۔رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال مسلمانوں کو بڑھتے ظلم و ستم، تشدد اور اشتعال انگیز تقاریر کا شکار ہونا پڑا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ اور ساکشی مہاراج جیسے بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ نے مسلمانوں کی آبادی کو روکنے کے لیے قانون بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ فروری   دو ہزار پندرہ میں سنگھ پریوار کے ایک اجلاس کے ویڈیو میں بی جے پی کے کئی قومی لیڈر   اسٹیج پر بیٹھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس اجلاس میں کئی لیڈر مسلمانوں کو ’شیطان‘ کہتے ہوئے اور انھیں برباد کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔وہیں اس رپورٹ نے  بے گناہ گرفتار کئے گئے مسلم نوجوانوں کے بارے میں بھی تبصرہ کیا ہے۔ ان کے مطابق پولیس شدت پسندی کے الزام میں مسلمان لڑکوں کو گرفتار کرتی ہے اور بغیر مقدمے کے سالوں تک انھیں جیل میں رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی کئی ریاستوں میں گو کشی  سے مسلم طبقے کو کن پریشانیوں کا سامنا ہے۔اس کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق گائے ذبح کرنے پر پابندی کی وجہ سے مسلمانوں اور دلتوں کا اقتصادی نقصان تو ہو ہی رہا ہے، اس کے علاوہ اس قانون کی مبینہ خلاف ورزی کا معاملہ بنا کر مسلمانوں کو پریشان کیا جا رہا ہے اور ہندوؤں کو تشدد کے لیے اکسایا جا رہا ہے۔ وہیں اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تبدیلیِ مذہب کے قانون کی وجہ سے مسلمانوں اور عیسائیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دسمبرسنہ 2014 میں ہندو تنظیموں نے گھر واپسی کے پروگرام کا اعلان کیا تھا جس کے تحت ہزاروں مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ لیکن اس معاملے پر اندرون و بیرونِ ملک ہنگاموں کے بعد آر ایس ایس نے اسے ملتوی کر دیا۔ سنہ 2015 میں بی جے پی کے صدر امت شاہ نے تبدیلیِ مذہب پر پابندی لگانے کے لیے ملک بھر میں قانون بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ وزارت داخلہ کے مطابق سنہ 2015 میں گذشتہ سال (2014) کے مقابلے میں فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے میں 17 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مسلمانوں کا الزام ہے کہ مذہب کی بنیاد پر انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن حکومت اسے دو دھڑوں کے درمیان تشدد کی واردات بتاتی ہے۔مارچ سنہ 2016 میں ہندوستان کی حکومت نے يو ایس سی آئی آر ایف کی ٹیم کو ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔خیر۔اس رپورٹ میں يو ایس سی آئی آر ایف نے اپنی رپورٹ میں امریکی حکومت کو کچھ تجاویز بھی دی ہیں۔    انڈیا میں واقع امریکی سفارت خانے کی توجہ ان امور کی جانب مرکوز کی جائے۔ سفارت خانے کے حکام کو اس طرح کے واقعات کا جائزہ لینے کے لیے جائے وقوع کا دورہ کرنا چاہیے اور مذہبی رہنماؤں، مقامی حکام سے ملاقات کرنی چاہیے۔حکومت ہند پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ يو ایس سی آئی آر ایف کی ٹیم کو  ہندوستان  کا دورہ کرنے کی اجازت دے۔خیر۔اس رپورٹ پر بھی کئی طرح کے سوال اٹھ رہے ہیں۔پہلا سوال تو یہ کہ اس طرح کی رپورٹ صرف ہندوستان کے لئے ہی کیوں تیار کی جاتی ہے؟کیا يو ایس سی آئی آر ایف کی نظر ،فلسطین کے بے گناہوں ۔افغانستان کے مظلوموں اور عراق ایران کے پریشان حالوں پر نہیں پڑتی ہے۔جہاں مذہبی   بنیاد پر مسلم طبقے کے ساتھ  وحشیانہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔کیا اس طرح کی رپورٹ اسرائیل کو نہ بھیجی جائے۔اور اسرائیل کے ذریعہ  فلسطین کے معصوموں اور بے گناہوں پر کئے جا رہے  مظالم کے بارے میں سوال کئے جائیں۔اور دنیا کے سامنے حقیقت لائی جائے؟

Monday 2 May 2016

یوپی میں کانگریس کو بچا پائیں گے راہل ،پرینکا؟

'Only Priyanka or Rahul can revive Congress' position in UP'

یوپی میں اسمبلی انتخابات میں اب ایک سال سے بھی کم کا وقت بچا ہے۔ایسے میں تمام سیاسی پارٹیوں نے حکمت عملی بنانی شروع کر دی ہے۔خاص کر ان دنوں کانگریس کی تیاریوں کی باتیں  ہو رہی ہیں۔در اصل بہار میں اپنی سیاسی بصیرت اور حکمت عملی کا لوہا منوا چکے پرشانت کشور۔اب ۔ یوپی میں کانگریس کے لئے کچھ نیا کرنے کی  کوشش میں ہیں۔اور خبر ۔یہ بھی ہے کہ پرشانت کشورنےیو پی   میں راہل گاندھی کو پارٹی کا چہرہ بنانے کی وکالت کی ہے۔پرشانت کی نظر میں ۔یوپی میں وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لئے راہل پہلے نمبر پر تو  انکی بہن پرینکا دوسرے نمبر پر ہیں۔پھر کیا تھا۔سیاسی گلیاروں میں اب اس ایشو پر ایک بحث چھڑ گئی ہے۔سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا راہل یا پرینکا ۔یوپی میں کانگریس کا چہرہ بن سکتے ہیں؟ حالاں کہ کانگریس کے زیادہ تر لیڈران راہل گاندھی  میں مستقبل کا وزیر اعظم دیکھتے ہیں۔اب تو خبر یہ بھی ہے۔کہ یوپی میں راہل گاندھی کے وزیر اعلیٰ بنانے کی بات ۔محض افواہ نہیں ہے۔بلکہ اس پر پارٹی میں سنجیدگی سے سوچا جا رہا ہے۔کیوں کہ اس کے پیچھے ترک دیا جا رہا ہے کہ دلی ابھی دور ہے۔کیوں نہ یوپی میں ہی کام کیا جائے۔خیر۔جب میڈیا نمائندوں نے راہل گاندھی سے۔اس سے متعلق سوال کیا۔تو راہل  سوال کو ٹال گئے۔سوال یہ اٹھتا ہے۔کہ اس افواہ کے پیچھے اگر سچائی ہے۔تو کیا راہل اس کے لئے تیار ہیں؟اور اگر راہل یا پرینکا ۔کانگریس کا چہرہ بنتے ہیں۔تو کیا یہ یوپی میں کانگریس کی نیا پار لگا پایئں گے؟کیا راہل۔پرینکا ۔یوپی میں ملائم اور مایا وتی کی مضبوط  لیڈر شپ کے سامنے ٹک پائیں گے؟اور سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ  راہل اور پرینکا  ۔یوپی کی ذات پات کی سیاست میں اپنے آپ کو ڈھال پائیں گے؟اس کے علاوہ ۔یوپی یوا وزیر اعلیٰ اکھیلیش یادو کی موجودگی میں راہل یا پرینکا نوجوانوں کو کتنا متاثر کر پائیں گے۔یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا۔ان سب چیلنجز کے بیچ ۔کیا راہل پرینکا ۔یوپی کے سب سے اہم اور بڑے ووٹ بینک ۔یعنی مسلم ووٹ بینک پر کیا چھاپ چھوڑ پائیں گے؟