Friday 29 April 2016

گجرات حکومت کا اعلیٰ ذات کو ریزرویشن کا تحفہ

Gujarat announces 10% quota for economically backward among upper castes

ہندوستان میں ریزرویشن کا  ایشو پرانا ہے۔اقتصادی  طورسے کمزور  طبقوں کو اصل دھارا میں لانے کے لئے ریزرویشن کا سہارا لیا گیا۔ اسی اور نوے کی دہائی میں ۔ریزرویشن  کے ایشو میں تیزی آئی ۔سابق وزیر اعظم وی پی سنگھ کے دور میں ۔ریزرویشن کو لیکر ۔بڑے آندولن کئے گئے۔خیر۔اب ۔ریزرویشن ۔ملک کی سیاست کا ایک اہم ہتھیار بن گیا ہے۔اور ہر ریاست میں ریزرویشن کے نام پر ۔ووٹ بینک کا  استعمال کیا جا رہا ہے۔پچھلے دنوں  ملک کی مختلف ریاستوں جن میں گجرات ۔ہریانہ۔اترپردیش  کے نام قابل ذکر ہیں۔ان ریاستوں میں ریزرویشن کو لیکر کئی بڑے آندولن ہوئے۔دس ماہ قبل گجرات میں پاٹی دار آندولن نے ریزرویشن کے لئے بڑے پیمانے پر آواز اٹھائی ۔ہاردک پٹیل نے اس  آندولن کی کمان سنبھالی تھی ۔دیر آئد ۔درست آئد کے مصداق ۔گجرات حکومت نے اعلیٰ ذات کے  معاشی طور کمزور طبقے کے لئے ریزرویشن کا اعلان کر دیا ہے۔سالانہ چھ لاکھ تک کمائی کرنے والوں کو  اس ریزرویشن کا فائدہ ملے گا۔سرکاری نوکریوں  اور  تعلیمی اداروں میں داخلوں میں بھی اس ریزرویشن کا فائدہ مل سکے گا۔لیکن ۔اس ریزرویشن پر کئی طرح کے سوال اٹھائے جا رہے ہیں ۔کیوں کہ گجرات میں پہلے سے ہی انچاس فیصد کوٹہ مختص ہے۔اور اب دس فیصد کوٹہ بڑھنے کے بعد۔یہ کوٹہ انسٹھ فیصد ہو جائے گا۔ جو کہ سپریم کورٹ کی   مقررہ حد سے تجاوز کر جائے گا۔ایسے میں ۔ریاستی حکومت کے سامنے کیا چیلجز ہوسکتے ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ  ہوگا۔اس کے علاوہ  اس ریزرویشن کے اعلان کی ٹائمنگ پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں ۔ کیوں کہ گجرات میں پاٹی دار آندولن ایک بار پھر سر اٹھا رہا تھا۔ایسے میں ریاست کےاعلیٰ ذ اتوں کو ریزرویشن کا اعلان کئی سوال کھڑے کر رہا ہے۔تو ادھر ۔ریاست کی مین اپوزیشن کانگریس  نے بھی  ریزرویشن کے اعلان پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ۔اسے  سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے جلد بازی میں اٹھایا گیا قدم  بتایا ہے۔کانگریس  کا کہنا ہے کہ ای بی سی کو دس نہیں بلکہ بیس فیصد ریزرویشن ملنا چاہیئے۔کانگریس نے کہا کہ وہ اس ایشو کو زور و شور سے اٹھائے گی۔۔خیر۔ان سب سے ہٹ کر۔اگر گجرات کے مسلمانوں کی بات کر لی جائے۔کہ اس ریزرویشن سے گجراتی مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوگا؟یہ بھی بڑا سوال ہے۔کیا اعلیٰ ذات میں مسلمانوں کی اعلیٰ برادریوں کو بھی شامل کیا جائے گا؟

Thursday 28 April 2016

حاجی علی میں خواتین کو داخلہ ملنا چاہیئے؟

Women Fight Against Ban at Mumbai's Haji Ali Dargah

ہندوستان میں خواتین کے مسائل ہر دور میں رہے ہیں۔کبھی ستی کا مسئلہ تو کبھی  شادی اور طلاق کی بحث اور کبھی  درگاہوں ۔مندروں اور عبادت گاہوں میں پوجا پاٹ  اور عبادت کو لیکر تکرار۔یعنی سماج میں خواتین کو لیکر ہمیشہ ہی ایک بحث بنی رہتی ہے۔کبھی درگاہوں میں خواتین پرپابندی کی بات کی جاتی ہے ۔تو کبھی مندروں میں داخلے پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔حالیہ  دنوں میں  ممبئی کی حاجی علی درگاہ پر خواتین کے داخلے پر جاری پابندی کو لیکر پھر آواز اٹھی ہے۔اس بار یہ آواز اٹھائی ہے۔بھوماتا برگیڈ کی ترپتی دیسائی نے  ۔ترپتی نے حاجی علی  درگاہ میں خواتین کے داخلے کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔آج ترپتی دیسائی اپنی حامیوں کے ہمراہ حاجی علی درگاہ پہنچیں ۔لیکن    انتظامیہ نے ترپتی دیسائی کو کار سے اترنے نہیں دیا۔ترپتی  درگاہ میں داخل ہو کر مزار پر چادر چڑھانے  کی کوشش کر رہی تھیں ۔اس بیچ درگاہ کے باہر ۔ترپتی دیسائی کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا۔دراصل  درگاہ انتظامیہ نے ٹھان رکھا تھا کہ خواتین کو درگاہ کی اس جگہ نہیں جانے دیا جائے گا۔جہاں پر پابندی عائد ہے۔ادھر  تنازعہ بڑھتے دیکھ ۔انتظامیہ نے درگاہ کے اردگرد سخت سیکورٹی  انتظامات کر دیئے  تھے۔خیر۔اس معاملے پر  لوگوں اور  مختلف تنظیموں کی رائے بٹی ہوئی ہیں۔کسی کا کہنا ہے کہ مزاروں پر خواتین کا جانا حرام ہے ۔تو کسی کا کہنا ہے  کہ اگر خواتین قبرستان اور مزاروں پر جاتی ہیں۔تو وہ خود اس کی ذمہ دار ہوں گی۔کچھ علما کا کہنا ہے کہ کسی بھی عبادت گاہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم وہاں جا کر سکون حاصل کریں ۔نہ کہ  درگاہوں اور عبادت گاہوں پر سیاست کی جائے۔بعض لوگوں نے کہا کہ اس طرح کے معاملات سے مذہبوں کے درمیان ٹکراؤ بڑھے گا۔کچھ لوگوں نے تو یہاں تک سوال اٹھائے ہیں کہ ترپتی دیسائی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔اسے بھی  سمجھنے کی کوشش کی جائے۔کیوں کی  یہ پورا معاملہ سستی شہرت سے جڑا ہوا ہے۔خیر۔ان سب سے ہٹ کر۔۔سوال یہ اٹھتا ہے۔کہ ترقی کے اس دور میں بھی خواتین کے ساتھ یہ سلو ک کیوں ہے؟کیا خواتین کو ہر مذہبی جگہ پر عبادت کا حق ملنا چاہئے؟کیا خواتین کو بھی مردوں کے مقابلے اصل دھارے میں لانے کی ضرورت ہے؟سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جب سماج کے ہر حصے میں خواتین ۔مردوں کے مقابلے شانہ بشانہ کھڑی  ہو سکتی ہیں۔تو پھر درگاہوں  اور عبادت گاہوں میں عبادت  اور  پوجا کو لیکر واویلا مچانے کی ضرورت کیا ہے؟یہ معاملہ صرف مہاراشٹر اور حاجی علی درگاہ کا ہی نہیں ہے۔ایسی ہی خبر ملک کے کئی حصوں سے  آتی رہتی ہیں۔جہاں عبادت گاہوں  میں خواتین کے داخلے پر  پابندی عائد ہے۔یعنی  اس طرح کے مسائل سے خواتین ملک کے کئی حصوں میں  گذر رہی ہیں۔اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

Wednesday 27 April 2016

سپریم کورٹ نےمرکز سے پوچھے سات سوال

President's rule to continue in Uttarakhand, no floor test on April 29

اتراکھنڈ  کا سیاسی بحران ابھی تھما نہیں ہے۔اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے بعد ۔اب سپریم کورٹ میں سنوائی جاری ہے۔آج سپریم  کورٹ میں پھر اتراکھنڈ سیاسی بحران پر سنوائی ہوئی ۔سپریم کورٹ انتیس اپریل کو ہونے والے فلور ٹسٹ کو فی الحال روک دیا ہے۔اور ریاست میں صدر راج لاگو رہے گا۔اس بیچ کورٹ نے مرکزی حکومت سے سات سوال کئے ہیں۔اب مانا  یہ جا رہا ہے کہ ان سارے سوالوں کے جواب کے لئے معاملے کو آئینی بینچ  کو بھیجا جا سکتا ہے۔پچھلی سنوائی میں ۔مرکز کی عرضی پر سپریم کورٹ نے ستائیس اپریل یعنی آج تک اتراکھنڈ میں صدر راج کا حکم دیا تھا۔خاص بات یہ ہے کہ آج ہی ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ ہریش راوت کا جنم دن ہے ۔اور راوت کو امید تھی کہ سپریم کورٹ آ ج انہیں ۔ریاست کی سرکار تحفے میں دے دیگا۔خیر۔اتراکھنڈ سیاسی بحران کا معاملہ ۔پارلیمنٹ میں بھی گونج رہا ہے۔اس معاملے کو لیکر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بی جے پی اور کانگریس آمنے سامنے ہیں۔کورٹ نے مرکز سے سوال کیا ہے کہ کن حالات میں ریاست میں ۔صدر راج لگایا گیا؟آج کورٹ نے ایک تبصرے میں کہا کہ اسپیکر ۔سدن کا ماسٹر ہوتا ہے۔ اس  سے پہلے بائیس اپریل کو   سپریم کورٹ میں ہوئی سماعت میں  کورٹ نے نینی تال ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی تھی۔جبکہ سپریم کورٹ سے پہلے اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں مرکزی سرکار کو بڑا جھٹکا دیا  تھا۔کورٹ نے ریاست میں صدر راج ہٹا دیا  تھا۔اور   ہریش راوت کو انتیس اپریل کو اکثریت ثابت کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ستائیس مارچ کو ریاست میں لگائے گئے صدر راج کے بعد سے ہی ۔بی جے پی اور کانگریس ۔عدالت کے ذریعہ اس معاملے کا حل تلاش کر رہی ہیں۔ ہائی  کورٹ نے   تبصرہ کرتے ہوئے  مرکزی سرکار سے کہا  کہ   اتراکھنڈ اسمبلی کو معطل کرنے کے صدر جمہوریہ کے فیصلے کی معقولیت عدالتی ریویوکا موضوع ہے اورصدرجمہوریہ سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی اتراکھنڈ  کے سیاسی بحران  پر   نینی تال ہائی کورٹ نے  ریاست میں صدر راج پر روک لگا دی  تھی۔اور اکتیس مارچ کو ایوان میں وزیر اعلیٰ ہریش راوت کو اکثریت ثابت کرنے کو کہا  گیاتھا۔لیکن اکتیس مارچ سے پہلے ہی مرکزی سرکار نے اس معاملے  پر کورٹ میں  چیلنج کردیا۔اور تب سے ہی اتراکھنڈ  کا سیاسی بحران  جوں کا توں بنا ہوا ہے۔اور کل ملا کر  کہا جا سکتا ہے کہ اتراکھنڈ کا بحران ابھی تھما نہیں ہے۔۔خیر۔اب آئیے ایک نظر اتراکھنڈ کی موجودہ اسمبلی ارکان کی صورتحال پر ڈال لیتے ہیں۔اتراکھنڈ اسمبلی کے کل اکہتر ممبران اسمبلی میں کانگریس کے 36 ممبران اسمبلی تھے جن میں سے نو باغی ہو چکے ہیں۔ بی جے پی کے 28 ممبران اسمبلی ہیں جن میں سے ایک معطل ہے۔ بی ایس پی کے دو، آزاد امیدوار تین اور ایک رکن اسمبلی اتراکھنڈ کرانتی پارٹی کا ہے۔اب  دیکھنا یہ دلچسپ ہوگا کہ ،اتراکھنڈ کی سیاست کا رخ کیا ہوگا؟ 

Tuesday 26 April 2016


عدالتیں دینی معاملات میں مداخلت کو لیکر حد پار کر رہی ہیں؟

Why Court interfere in Islamic Religious law?

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ۔جہاں تمام مذاہب کو یکساں حقوق دیئے گئے ہیں ۔ہر مذہب کا ماننے والا اپنے مذہب کی بنیاد پر ملک میں زندگی گذار سکتا ہے۔ہر کسی کو  اپنے مذہب کے معاملے میں پوری آزادی حاصل ہے۔حتیٰ کہ ہندوستان میں ہر مذہب کا اپنا قانون ہے۔جس پر تمامذاہب کے ماننے والے مذہبی اصول و ضوابط پر اپنی زندگی گذار سکتے ہیں۔تمام مذاہب کی طرح ہی مسلم سماج بھی اپنے مذہب اور عقیدے کے اعتبار سے ملک میں اپنی زندگی گذار رہے ہیں۔اور مسلمانوں کا اپنا پرسنل لا بورڈ بھی ہے۔امکانی خارجی  یورش سے مذہبی اصولوں یا عائلی ضابطوں کے تحفظ کے لئے ہی مسلم پر سنل لا بورڈ کی داغ بیل ڈالی گئی تھی۔جو مذہبی معاملات میں مسلمانوں کی  پوری راہنمائی کرتا ہے۔حالیہ کچھ برسوں میں ملک کے سیاسی و سماجی حالات بہت حد تک بدلے ہیں۔اور ان  بدلے حالات کا مسلم سماج پر بھی اثر پڑا ہے۔ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ نے حالیہ دنوں مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کی ہے۔چاہے وہ اسلام میں تین طلاق کا معاملہ ہو یا مسلم خواتین کا درگاہوں اور عبادت گاہوں میں داخلے کا معاملہ ۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ سپریم کورٹ مذہبی معاملات میں دخل اندازی کیوں کر رہا ہے؟کیا واقعی یہ وقت کی ضرورت ہے یا پھر کورٹ کی یہ مداخلت بیجا ہے۔دینی معاملات میں عدالتوں کے دخل پر ایک بحث چھڑی ہوئی ہے۔سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا  مسلمانوں کو ملے فنڈا منٹل رائٹس کو چیلنج کیا جا رہا ہے؟ اور سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا عدالتیں اور کورٹ ۔آئین کے آگے جا سکتا ہے؟اور اب تو یہ بھی سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا آئین میں مسلمانوں کو جو حقوق دیئے گئے ہیں ۔کیا ان میں بھی خطرات منڈلا رہے ہیں؟یا واقعی ہماری عدالتیں ۔دینی معاملات میں مداخلت کو لیکر حد پار کر رہی ہیں۔آپ کو یاد دلادیں کہ کچھ ماہ قبل ہی سپریم کورٹ نے  مسلم پرسنل لا کی جا نچ کرنے کی بات کہی تھی۔جسٹس انل آر دوے اور جسٹس اے کے گوئل کی بینچ نے کہا ہے کہ من مانے طریقے سے دی جانے والی طلاق اور دوسری شادی کے عمل  نے مسلم خواتین سے انکا تحفظ چھین لیا ہے۔بنچ نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ جب آئین میں سب کو برابری کا حق دیا گیا ہے۔تو  مسلم خواتین کے ساتھ  امتیاز کیوں ہو رہا ہے۔کورٹ نے اس معاملے پر مرکزی حکومت سے کہا ہے کہ وہ ایسے طریقوں کی تجویذ دے ۔جس سے کہ مسلم خواتین کو بھی دوسرے مذاہب کی خواتین کے برابر حق مل سکے۔اورمسلم خواتین کے ساتھ وہی برتاؤ ہو جو دوسرے مذاہب میں ہوتا ہے۔خیر۔مسلم پرسنل لا پر کورٹ کی اس تجویذ کو لیکر بحث بھی تیز ہوگئی ہے۔آپ کو یاد دلا دیں کہ   ماضی میں اسی نوعیت کے شاہ بانو کیس میں  بھی کورٹ کے عمل دخل سے  مسلم پر سنل لا اور کورٹ  کے فیصلے کو لیکر بحث چھڑ چکی ہے۔

Monday 25 April 2016

انصاف ملنے میں دیر ہوئی؟

Malegaon Blast : Charges Dropped Against 9 Muslim Men

دوہزار چھ مالیگاؤں بم دھماکہ  معاملے میں آخر کا  دس سال  کے طویل انتظار کے نو ملزمین کو انصاف ملا ہے۔ممبئی کی مکوکہ  کورٹ نے  نو ملزمین کو بری کر دیا ہے۔یہ ملزمین پہلے ہی پانچ سال جیل میں گزار چکے ہیں۔بعد میں ان لوگوں کو ضمانت مل گئی تھی۔واضح رہے کہ دو ہزار چھ بم دھماکہ معالملے میں تیرہ لوگوں کو ملزم بنایا گیا تھا۔لیکن ان میں سے نو لوگوں کو ہی گرفتار کیا جا سکا تھا۔جبکہ چار ملزمین آج تک فرار ہیں۔ان ملزمین کو سیمی سے جڑا بتایا گیا تھا۔آپ کو بتا دیں کہ آٹھ ستمبر دو ہزار چھ کو کو مالیگاؤں میں کل چار دھماکے ہوئے تھے۔تین دھماکے حمیدیہ مسجد میں اور ایک مشاورت چوک میں ۔ان دھماکوں میں اکتیس لوگوں کی موت ہوئی تھی۔اور تقریبا  تین سو بارہ لوگ زخمی ہوئے تھے۔جانچ ایجنسی اے ٹی ایس نے کل تیرہ لوگوں کے خلاف معاملہ درج کیا تھا۔اور مکوکہ کے تحت کیس درج کیا تھا۔اے ٹی ایس نے معاملے میں ایک ملزم کو سرکاری گواہ بھی بنایا تھا۔لیکن وہ بعد میں مکر گیا تھا۔تو ادھر اے ٹی ایس کی جانچ پر سوال اٹھانے پر معاملہ ۔سی بی آئی کے حوالے کیا گیا تھا۔سی بی آئی  نے بھی  اے ٹی ایس کی کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے گیارہ فروری دو ہزار دس کو سبھی نو ملزمین کے خلاف سپلیمنٹری چارج شیٹ دائر  کی تھی۔اس بیچ  اے ٹی ایس کی جانچ میں ابھینو بھارت تنظیم کا نام سامنے آیا تھا۔اس معاملے میں سوامی اسیمانند۔کرنل پروہت۔اور سادھوی پرگیا کو گرفتار کیا گیا تھا۔اس معاملے کی جانچ ابھی بھی چل رہی ہے۔اسیما نند نے اپنے اقبالیہ بیان مین سنیل جوشی کا نام لیا تھا۔خیر۔مالیگاؤں دھماکہ معاملے میں اس اینگل پر جانچ جاری ہے۔لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آج بری ہوئے ملزمین کو کیا ناصاف ملنے میں بہت دیر ہوئی ہے؟ اور سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ان لوگوں کا قیمتی وقت جو جیلوں میں گزرا ہے۔اس کی بھرپائی کون کرے گا؟ یا سماج سے الگ تھلگ ہوئے ان افراد کو کیا اب سماج میں وہی پہچان مل پائے گی؟سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان لوگوں کے خلاف کاروائی نہ ہو ۔ ایسے بے قصور افراد کو ملزم بنانے کے قصوار ہیں؟

Thursday 21 April 2016

اتراکھنڈ میں صدرراج ہٹا

Uttarakhand crisis : HC slams Centre

اتراکھنڈ  کا سیاسی بحران اب تھمتا نظر آرہا ہے۔اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں مرکزی سرکار کو بڑا جھٹکا دیا ہے۔کورٹ نے ریاست میں صدر راج ہٹا دیا ہے۔اب  ہریش راوت کو انتیس اپریل کو اکثریت ثابت کرنا ہوگی۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے راوت نے کہا کہ  ہم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔کانگریس نے کورٹ کے فیصلے کے بعد بی جے پی اور مرکزی سرکار پر حملہ بولا ہے۔کانگریس نے کہا کہ بی جے پی معافی مانگے۔ادھر۔بی جے پی کا کہنا ہے کہ کورٹ کا یہ فیصلہ متوقع تھا۔اس فیصلے سے کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔وہیں ۔بی جے پی نے کہا ہے کہ سنٹرل گورمنٹ اس معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔خیر۔ان سب کے بیچ ۔اب اتراکھنڈ میں حکومت سازی کو لیکر سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔جہاں ہریش راوت نے دعویٰ کیا ہے کہ کانگریس اتراکھنڈ میں حکومت تشکیل دے رہی ہے۔اور انکے پاس ارکان اسمبلی کی تعداد اکثریت ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔جبکہ اتراکھنڈ بی جے پی کے انچارج کیلاش وجے ورگیہ  بھی ۔اکثریت کو لیکر پر عزم ہیں۔ انہوں نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ بی جے پی اتراکھنڈ میں حکومت تشکیل دے گی۔ان سب کے بیچ کورٹ نے باغی ارکان اسمبلی پر سخت تبصرہ کیا ہے۔کورٹ نے کہا ہے  کہ باغیوں نے آئینی پاپ کیا ہے۔ستائیس مارچ کو ریاست میں لگائے گئے صدر راج کے بعد سے ہی ۔بی جے پی اور کانگریس ۔عدالت کے ذریعہ اس معاملے کا حل تلاش کر رہی ہیں۔ ہائی  کورٹ نے   تبصرہ کرتے ہوئے  مرکزی سرکار سے کہا  کہ   اتراکھنڈ اسمبلی کو معطل کرنے کے صدر جمہوریہ کے فیصلے کی معقولیت عدالتی ریویوکا موضوع ہے اورصدرجمہوریہ سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی اتراکھنڈ  کے سیاسی بحران  پر   نینی تال ہائی کورٹ نے  ریاست میں صدر راج پر روک لگا دی  تھی۔اور اکتیس مارچ کو ایوان میں وزیر اعلیٰ ہریش راوت کو اکثریت ثابت کرنے کو کہا  گیاتھا۔لیکن اکتیس مارچ سے پہلے ہی مرکزی سرکار نے اس معاملے  پر کورٹ میں  چیلنج کردیا۔اور تب سے ہی اتراکھنڈ  کا سیاسی بحران  جوں کا توں بنا ہوا ہے۔اور کل ملا کر  کہا جا سکتا ہے کہ اتراکھنڈ کا بحران ابھی تھما نہیں ہے۔۔خیر۔اب آئیے ایک نظر اتراکھنڈ کی موجودہ اسمبلی ارکان کی صورتحال پر ڈال لیتے ہیں۔اتراکھنڈ اسمبلی کے کل اکہتر ممبران اسمبلی میں کانگریس کے 36 ممبران اسمبلی تھے جن میں سے نو باغی ہو چکے ہیں۔ بی جے پی کے 28 ممبران اسمبلی ہیں جن میں سے ایک معطل ہے۔ بی ایس پی کے دو، آزاد امیدوار تین اور ایک رکن اسمبلی اتراکھنڈ کرانتی پارٹی کا ہے۔اب  دیکھنا یہ دلچسپ ہوگا کہ ،اتراکھنڈ کی سیاست کا رخ کیا ہوگا؟ 

Wednesday 20 April 2016

صدر جمہوریہ سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔ہائی کورٹ

Uttarakhand political crisis : President can be wrong,Uttarakhand HC

اتراکھنڈ  کا سیاسی بحران تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ستائیس مارچ کو ریاست میں لگائے گئے صدر راج کے بعد سے ہی ۔بی جے پی اور کانگریس ۔عدالت کے ذریعہ اس معاملے کا حل تلاش کر رہی ہیں۔ ہائی  کورٹ نے   تبصرہ کرتے ہوئے  مرکزی سرکار سے کہا  کہ   اتراکھنڈ اسمبلی کو معطل کرنے کے صدر جمہوریہ کے فیصلے کی معقولیت عدالتی ریویوکا موضوع ہے اورصدرجمہوریہ سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی اتراکھنڈ  کے سیاسی بحران  پر   نینی تال ہائی کورٹ نے  ریاست میں صدر راج پر روک لگا دی  تھی۔اور اکتیس مارچ کو ایوان میں وزیر اعلیٰ ہریش راوت کو اکثریت ثابت کرنے کو کہا  گیاتھا۔لیکن اکتیس مارچ سے پہلے ہی مرکزی سرکار نے اس معاملے  پر کورٹ میں  چیلنج کردیا۔اور تب سے ہی اتراکھنڈ  کا سیاسی بحران  جوں کا توں بنا ہوا ہے۔اور کل ملا کر  کہا جا سکتا ہے کہ اتراکھنڈ کا بحران ابھی تھما نہیں ہے۔۔خیر۔اب آئیے ایک نظر اتراکھنڈ کی موجودہ اسمبلی ارکان کی صورتحال پر ڈال لیتے ہیں۔اتراکھنڈ اسمبلی کے کل 70 ممبران اسمبلی میں کانگریس کے 36 ممبران اسمبلی تھے جن میں سے نو باغی ہو چکے ہیں۔ بی جے پی کے 28 ممبران اسمبلی ہیں جن میں سے ایک معطل ہے۔ بی ایس پی کے دو، آزاد امیدوار تین اور ایک رکن اسمبلی اتراکھنڈ کرانتی پارٹی کا ہے۔اب  دیکھنا یہ دلچسپ ہوگا کہ ،اتراکھنڈ کی سیاست کا رخ کیا ہوگا؟ 

Tuesday 19 April 2016

پانی کا بحران اور سرکار کی ذمہ داری

Indian cities look to cut heat-wave deaths as water crisis looms

موسم گرما  سے لوگوں کا حال بے حال ہے۔شدید دھوپ اورگرم ہواؤں کے تھپیڑوں سے لوگوں کی مشکلیں بڑھی ہیں۔ ملک کے کچھ حصو میں  شدید گرمی اور پانی  کی قلت نے لوگوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کردیا ہے۔جن ریاستوں میں پینے کے پانی سے ہاہاکارہے ان میں مہاراشٹر۔آندھراپردیش ۔تلنگانہ۔گجرات۔یوپی ۔مدھیہ پردیش ۔راجستھان اور کرناٹک شامل ہیں ۔ خاص کر یوپی مدھیہ پردیش کا بندیل کھنڈ کا علاقہ۔مہاراشٹرکا مراٹھواڑہ اور گجرات کا کچھ سب سے زیادہ متاثر ہیں۔مراٹھواڑہ کے لاتورمیں تو حالات ایسے ہیں۔کہ ندی نالوں اور نلوں کے آس پاس دفعہ ایک سو چوالیس لگانی پڑی ہے۔ملک کی خشک سالی  سےمتاثرہ ریاستوں کی حالت زار پر سپریم کورٹ  ۔ مرکزی حکومت کو پھٹکار بھی  لگا چکا ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے آبزرویشن میں کہا  تھا  کہ مرکزی سرکار۔ان ریاستوں کی حالت پر  آنکھیں نہیں موند سکتی۔اور مرکز کو ان ریاستوں میں  خشک سالی سے نمٹنے کے لئے اقدام کرنے ہوں گے۔لیکن ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ  کورٹ کی اس پھٹکار کا مرکزی حکومت پر  ۔اثر نہیں ہوا۔یہی وجہ ہے ۔کہ کورٹ کے اتنے سخت   آبزرویشن  کے بعد بھی حکومت کی طرف سے جو قدم اٹھائے گئے ۔وہ ناکافی ہیں۔ملک کی کئی ریاستوں میں خشک سالی اور لو سے عوام بے حال ہیں۔سوال یہ اٹھتا ہے۔ کہ ان  مسائل  کا سامنا ہر سال ملک کو کرنا پڑتا ہے۔تو سرکاریں اس مسئلے کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیتی ہیں؟کہ عوام کی خیر خواہی کا دم بھرنے والی سرکاریں ۔اس اہم مسئلے کی جانب توجہ کیوں نہیں دیتی ہیں؟خاص بات یہ ہیکہ خشک سالی سے سب سے زیادہ ملک کے کسان پریشان ہیں۔کھیتی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔اور  ملک  کا پیٹ بھرنے والے کسان ہی بھک مری کے سب سے زیادہ  شکار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کسان خودکشی جیسے اقدام پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ہمارے ملک میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں کسان خود کشی کرتے ہیں۔لیکن۔افسوس کہ پھر بھی ۔ہماری سرکاروں کی آنکھیں بند رہتی ہیں۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان حالات کے لئے اصل ذمہ دار کون ہے؟کیوں کہ اگر ہم نے آج اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا ۔تو آنے والے وقت میں ہماری نسلوں کو اور بھی دقتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس لئے ایسے مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھا جائے۔اور مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا جائے۔

Thursday 7 April 2016

سرینگر این آئی ٹی تنازعہ۔ کشمیری اورغیر کشمیری طلبا کے بیچ  کشیدگی

NIT Srinagar Controversy

سری نگر این آئی ٹی کا معاملہ طول پکڑ رہا ہے۔اس معاملے پر تمام پارٹیاں سیاسی روٹیاں بھی سینک رہی ہیں۔نئی نویلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے لئے یہ معاملہ سر مونڈاتے ہی اولے پڑنے جیسا ہے۔حالات اتنے خراب ہیں کہ این آئی ٹی کیمپس میں سی آرپی ایف کو تعینات کرنا پڑا ہے۔خیر، یہ پورا معاملہ شروع ہوا تھا ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ کے سیمی فائنل مقابلے سے۔جہاں ٹیم انڈیا کی شکست کے بعد ۔کشمیری اور نان کشمیری طلبا کے درمیان نعرے بازی ہوئی تھی۔اس کے بعد حالات اور بگڑے تو کیمپس میں پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا۔جس میں کئی طلبا بری طرح زخمی ہوگئے۔اب اس پورے معاملے نے سیاسی رنگ لے لیا ہے۔تمام پارٹیاں اس معاملے کو بھنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس تنازعہ میں غیر کشمیری طلبا کو جن پریشانیوں کا سامنا ہے۔اسے کون حل کرے گا؟غیر کشمیری طلبا اس معاملے کے بعد اتنا خوف زدہ ہیں کہ انہوں نے این آئی ٹی کیمپس کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی درخواست کی ہے۔یعنی یہ تنازعہ ایک طرح سے کشمیری اور غیر کشمیر طلبا کے بیچ ایک لائین کھینچ سکتا ہے۔ایسے میں بھارت ماتا کی جے کا تنازعہ ہو یا کوئی دوسرا معاملہ،کشمیر اگر ان ایشوز کا اکھاڑہ بنا تو یہ ملک کے حق میں نہیں  ہوگا۔اور این آئی ٹی میں کشمیری اور غیر کشمیری طلبا کے بیچ  جھڑپ کے بعدسیاسی پارٹیوں کے ذریعہ اسے سیاسی رنگ دینا،کشمیر سے کھلواڑ کرنے کے برابر ہوگا۔اور خاص کر  سرینگر  این آئی ٹی میں جھڑپ کے بعد ہندوستان کے دوسرے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے ساتھ بھید بھاؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ایسے میں اس طرح کے معاملات یا تنازعات کو سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے

Wednesday 6 April 2016

ملک کی 9 ریاستوں میں خشک سالی پر مرکزی سرکار کو پھٹکارا

SC directs Centre, drought-hit states

موسم گرما  سے لوگوں کا حال بے حال ہے۔شدید دھوپ اورگرم ہواؤں کے تھپیڑوں سے لوگوں کی مشکلیں بڑھی ہیں۔ ملک کے کچھ حصو میں  شدید گرمی اور پانی  کی قلت نے لوگوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کردیا ہے۔جن ریاستوں میں پینے کے پانی سے ہاہاکارہے ان میں مہاراشٹر۔آندھراپردیش ۔تلنگانہ۔گجرات۔یوپی ۔مدھیہ پردیش ۔راجستھان اور کرناٹک شامل ہیں ۔ خاص کر یوپی مدھیہ پردیش کا بندیل کھنڈ کا علاقہ۔مہاراشٹرکا مراٹھواڑہ اور گجرات کا کچھ سب سے زیادہ متاثر ہیں۔مراٹھواڑہ کے لاتورمیں تو حالات ایسے ہیں۔کہ ندی نالوں اور نلوں کے آس پاس دفعہ ایک سو چوالیس لگانی پڑی ہے۔ملک کی خشک سالی  سےمتاثرہ ریاستوں کی حالت زار پر سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو پھٹکار لگائی ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے آبزرویشن میں کہا ہے کہ مرکزی سرکار۔ان ریاستوں کی حالت پر  آنکھیں نہیں موند سکتی۔اور مرکز کو ان ریاستوں میں  خشک سالی سے نمٹنے کے لئے اقدام کرنے ہوں گے۔خیر۔اب کورٹ کی اس پھٹکار کا مرکزی حکومت پر کتنا اثر ہوتا ہے۔یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔وہیں ۔بامبے ہائی کورٹ نے آئی پی ایل میچ کو لیکر۔پانی کی بربادی پر سخت ناراضگی ظاہر کی ہے۔کورٹ نے کہا ہے کہ آئی پی ایل کے میچ اہم ہیں۔یا انسانی زندگی؟اس پر بی سی سی آئی نے  کہا ہے کہ ۔وہ اس مسئلے پر غور کرے گا۔ملک میں خشک سالی کا مسئلہ کافی پرانہ ہے۔اور گرمیوں میں یہ مسئلہ اور بھی گمبھیر ہوجاتا ہے۔ایسے میں سوال سرکار اور حکومتوں کی پر ہی اٹھتے ہیں۔کہ عوام کی خیر خواہی کا دم بھرنے والی سرکاریں ۔اس اہم مسئلے کی جانب توجہ کیوں نہیں دیتی ہیں؟خشک سالی سے سب سے زیادہ ملک کے کسان پریشان ہیں۔کھیتی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔اور  ملک  کا پیٹ بھرنے والے کسان ہی بھک مری کے سب سے زیادہ  شکار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کسان خودکشی جیسے اقدام پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ہمارے ملک میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں کسان خود کشی کرتے ہیں۔لیکن۔افسوس کہ پھر بھی ۔ہماری سرکاروں کی آنکھیں بند رہتی ہیں۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان حالات کے لئے اصل ذمہ دار کون ہے؟

Tuesday 5 April 2016

دہشت گردی سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں۔امام حرم

Imam-e-Haram visit India

دنیا اس وقت دہشت گردی سمیت مختلف مسائل سے دو چار ہے۔اور خاص کر مسلم ممالک اس دہشت گردی کے سب سے  زیادہ شکار ہیں۔ان میں عراق ۔ایران ۔شام ۔پاکستان اور افغانستان  ،دہشت گردی سے کافی متاثر ہیں۔ان ممالک کا اثر  ہمارے ملک ہندوستان پر بھی پڑ رہا ہے۔اس کے علاوہ  ہندوستان جیسے بڑی آبادی والے ملک میں مسلمانوں کے اپنے بھی بہت سے مسائل ہیں۔  ہندوستان  کا مسلم طبقہ  اپنے ہی مسائل سے دو چار ہے۔چاہے بات مسلکی اختلافات کی ہو یا مکتبہ فکرکی۔ہندوستان کے  مسلمان کئی خانوں میں بٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں   میں آپسی اتحاد۔بھائی چارہ بھی  ایک لمحہ فکریہ ہے۔ایسے ماحول میں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے مقصد سے امام حرم  شیخ صالح بن محمد ان دنوں ہندوستان کے دورے پر ہیں ۔ امام حرم نے ملک کی کئی ریاستوں کے بڑے اضلاع میں بڑے بڑے اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔امام حرم کی تقریر کا موضوع  مسلم مسائل ، جیسے مسلکی اختلافات۔اسلامی تعلیمات اور دہشت گردی کے ارد گرد ہی رہا ہے۔اس دوران  امام حرم  ہندوستان کی کئی ریاستوں کے بڑے شہروں کا دورہ کر ۔ آپسی اتحاد  اور امن  و محبت کے پیغام کو عام کر رہے ہیں۔بنگلور۔میسور۔لکھنؤ۔دہلی۔دیوبند  اور اب حیدرآباد  میں بڑے اجلاس سے خطاب کریں گے۔اپنے خطاب کے دوران امام حرم نے کہا کہ   دہشت گردی انسانیت کے لئے  سب سے بڑاخطرہ ہے۔اس وقت پوری دنیا میں دہشت گردی کے نام پر اسلام کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہورہی ہے۔انہوں نے امن وامان  کے قیام اور استحکام پر زور دیا۔اس کے ساتھ ہی ساتھ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تمام مسالک ومکاتب سے اتحاد اور بھائی چارے کا پیغام دیا۔امام حرم کے مطابق دہشت گردی سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں اور بے گناہوں کا خون بہانے والے لوگ مسلمان ہوہی نہیں سکتے ۔اسلام امن سکون محبت اور اخوت کا مذہب ہے۔  انہوں نے واضح طور پر کہاکہ تمام مذاہب مسالک نظریات اور مکاتب کے لوگوں کو ایک جُٹ ہوکر دہشت گردی کے خلاف جہاد  کرنے اوران لوگوں کو مٹانے کی ضرورت ہے ،جودہشت گردی کے نام پر اسلام کو بدنام کررہے ہیں ۔امام حرم نے کہا کہ جب تمام مسالک کے علماء کرام دہشت گردی کے خلاف ہیں، تو ایسے میں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کا تعلق اسلام سے ہو ہی نہیں سکتا۔  لہٰذا دہشت گردی کے سانپ کو کچلنے کے لئے شیعہ سنی  ہی نہیں بلکہ تمام مکاتب کے لوگوں کو ایک ہوکرکام کرنا چاہئے

Monday 4 April 2016

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا معاملہ

Centre not to support Aligarh Muslim University on granting it minority status

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے معاملہ کو لیکر کئی بار سوال اٹھ چکے ہیں۔ کہ اے ایم ایو اقلیتی  ادارہ  ہے یا نہیں؟ یہ معاملہ آج پھر سرخیوں میں آیا۔سپریم کورٹ نے مرکز کی این ڈی اے  حکومت کو آٹھ ہفتے میں سابقہ    یو پی اے حکومت کے ذریعہ داخل کی گئی عرضداشت کو واپس لینے کو کہا ہے  ۔مرکزی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ موجودہ این ڈی اے حکومت ۔اے ایم یو کو اقلیتی ادارہ نہیں مانتی ۔اوروہ خودکو یو پی اے  کی عرضداشت سے الگ کرتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے اے ایم یو کو  غیر اقلیتی ادارہ ثابت کرنے کے لئے ثبوت بھی کورٹ میں پیش کئے۔سپریم کورٹ نے پوری سماعت کے بعد ۔اے ایم یو  کی پیروی کر رہے وکیل کو مرکزی حکومت کے موقف پر حلف نامہ داخل کرنے کا حکم دیا۔معاملے کی اگلی سماعت ۔گرمیوں کی چھٹی کے بعد ہوگی۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ اے ایم یو  کے کردار کو لیکر اب اپوزیشن یا کانگریس کا موقف کیا ہوگا؟۔واضح رہے کہ اقلیتی اسٹیٹس کو لیکر  گذشتہ دنوں سپریم کورٹ میں ہوئی سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے اپنی اپیل کو واپس لینے  کو کہا تھا۔اس معاملے پر علیگ برادری میں سخت بے چینی دیکھی جارہی تھی ۔جہاں لوگ اسے ایک سوچی سمجھی سازش قرار دے رہے  تھے ۔ وہیں طرح طرح کے سوالات بھی کھڑ ے  کئے جا رہے تھے۔ کہ آخر اس طرح حکومت کا موقف کیسے تبدیل ہوسکتا ہے ۔اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے تئیں مودی حکومت کا نظریہ بھی  اس وقت سامنے آیا جب اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے سماعت کے دوران حکومت کی طرف سے داخل کی گئی پٹیشن کو واپس لینے کو کہا اور الہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے یونیورستی کے خلاف سنائے گئے فیصلے کو جائز قرار دیا ،حالانکہ بی جے پی کی جانب سے لیا گیا یہ فیصلہ حیرت انگیز نہیں  تھا۔ کیونکہ اے ایم یو اقلیتی کردار کے مسئلہ پر انکا موقف پہلے سے ہی واضح تھا۔ لیکن  تب  سوال یہ  اٹھا تھا کہ  کیا حکومت اپناموقف اچانک اس طرح تبدیل کر سکتی ہے؟ادھرمرکز ی حکومت کے اس یوٹرن نے جہاں علیگ برادری کو ایک بار پھر سے سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے نئی حکمت عملی کیا اختیار کی جائے اورآگے کی لڑائی اب سوچ سمجھ کر لڑنی ہوگی ۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا حکومت کے اس موقف نے  نئی بحث کا آغاز کردیا ہے کہ حکومت کے زیر انتظام ادارے اقلیتی ادارے کیسے ہوسکتے ہیں؟ پرائیوٹ ادارے یا پھر مدد یافتہ ادارہ کو اقلیتی ادارے ہوسکتے ہیں لیکن حکومت کے زیر انتظام چلنے والے ادارہ کس طرح مائنارٹی ہوسکتے ہیں یہ تو اب سپریم کورٹ کو ہی طے کرنا ہے اقلیتی کردار کی بحالی کا معاملہ جب الہ آباد ہائی کورٹ میں پہنچا تھا وہاں سنگل اور ڈبل دونوں بینچ نے یہ فیصلہ سنایا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ نہیں ہےاس کے خلاف اے ایم یو انتظامیہ اور مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز جیسے فریقین کی جانب سے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی گئی تھی لیکن حکومت نے اپنا رخ صاف نہیں کیا تھا ۔بعد میں اے ایم یو کے طلباء قدیم نے وزیر آعظم منموہن سنگھ سے ملکر مطالبہ کیا  تھا۔جس کے بعد مرکزی حکومت کی جانب سے بھی پٹیشن داخل کی گئی تھی ۔لیکن اب مرکز کی مودی حکومت نے اپنی پٹیشن واپس لیتے ہوئے کہا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہوسکتا ۔ ادھرعلی گڑھ  مسلم یونی ورسٹی کے اقلیتی کردار کے معاملے میں مرکزی حکومت کے قانونی موقف پر علیگ برادری نے شدید رد عمل ظاہر کیا ہے۔انکے مطابق وزیر اعظم  اور وزیر داخلہ سے نمایندگی کے بعد بھی حکومت کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

Friday 1 April 2016

اس معاملے سے ملک کا سماجی تانا بانہ بگڑے گا؟

Deoband issues fatwa against chanting of 'Bharat Mata ki Jai'

بھارت ماتا کی جے کے نعرے پر اس وقت ملک  بھر میں بحث چھڑی  ہے۔یہ بحث چھڑی تھی۔آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے اس بیان سے کہ ملک میں نئی نسل کو  ملک سے محبت  کا درس دینے کی ضرورت ہے۔موہن بھاگوت نے صلاح دی تھی کہ ملک میں حب الوطنی کے جذبے کے فروغ  کے لیے اس نعرے کی ضرورت ہے۔ جسے مسترد کرتے ہوئے اسدالدین اویسی نے کہا تھا کہ وہ بھارت ماتا کی جے نہیں کہیں گے۔چاہے ان کی گردن پر چاقو ہی  رکھ دیا جائے۔اس کے بعد   یہ معاملہ   ملک بھر میں بحث  کا موضوع بنا ہوا ہے   اور ہر کوئی وطن پرستی کی تعریف و تشریح  کرنے میں لگا ہوا ہے۔خیر۔کچھ ہی دن بعد موہن بھاگوت  نےاپنے موقف میں تھوڑی تبدیلی لاتے ہوئے کہا کہ بھارت ماتا کی جے  کہنےکے لیے  کسی  پر دباؤ نہیں  ڈالا جاسکتا ۔ان کا کہنا تھا کہ انڈیا کو ایک ایسا ملک بنایا جائے جہاں لوگ خود ہی بھارت ماتا کی جے کہیں ۔حالاں کہ اس کے بعد  ملک میں کئی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں ۔جن  میں اس نعرے کی حمایت اورمخالفت میں بیان  بازی اورجوابی بیان بازی ہوئی اورہورہی ہے۔چاہے وہ مہاراشٹر اسمبلی میں ایم آئی ایم رکن  وارث پٹھان کا معاملہ ہو یا دہلی میں  مدرسہ  طلبا کی پٹائی۔بھارت ماتا نعرے پر  بیان بازی  وجوابی بیان  بازی کے درمیان دارالعلوم دیوبندکا فتوی  آیا ہے۔جس کے مطابق بھارت ماتاکی جےمیں دیوی کےتصورات ہیں لہذا بھارت ماتا کی جے بولنا جائز نہیں ہے۔  جمیعت علما ہند نے اس فتویٰ کو درست قراردیاہے۔جبکہ بی جےپی نے فتوی کوغلط بتایاہے۔بی جےپی کےقومی ترجمان ظفراسلام نےکہاکہ اسلام میں بھارت ماتاکی جے بولنادرست ہے۔خیر۔دیوبند نے اپنے فتویٰ کے جواز میں کہا ہے کہ  اس معاملے پر اس کے پاس ملک بھر سے سوالات پوچھے جا رہے تھے۔اور لوگوں کے سوال کے جواب میں ہی یہ فتویٰ جاری کیا گیا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جے کہنا  عبادت کرنے کے برابر ہے؟اس فتویٰ پر مرکزی وزیر سادھوی نرنجن نے کہا ہے کہ یہ فتویٰ شہیدوں کی بے عزتی ہے۔اور یہ اسلام کی شدت پسندی کو ظاہر کرتا ہے۔تو وہیں دیوبند کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم نے ملک کی آزادی لڑائی لڑی ہے۔ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگائے ہیں۔کیا ضرورت ہے کہ اس کو ماتا کہا جائے؟