Tuesday 26 April 2016


عدالتیں دینی معاملات میں مداخلت کو لیکر حد پار کر رہی ہیں؟

Why Court interfere in Islamic Religious law?

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ۔جہاں تمام مذاہب کو یکساں حقوق دیئے گئے ہیں ۔ہر مذہب کا ماننے والا اپنے مذہب کی بنیاد پر ملک میں زندگی گذار سکتا ہے۔ہر کسی کو  اپنے مذہب کے معاملے میں پوری آزادی حاصل ہے۔حتیٰ کہ ہندوستان میں ہر مذہب کا اپنا قانون ہے۔جس پر تمامذاہب کے ماننے والے مذہبی اصول و ضوابط پر اپنی زندگی گذار سکتے ہیں۔تمام مذاہب کی طرح ہی مسلم سماج بھی اپنے مذہب اور عقیدے کے اعتبار سے ملک میں اپنی زندگی گذار رہے ہیں۔اور مسلمانوں کا اپنا پرسنل لا بورڈ بھی ہے۔امکانی خارجی  یورش سے مذہبی اصولوں یا عائلی ضابطوں کے تحفظ کے لئے ہی مسلم پر سنل لا بورڈ کی داغ بیل ڈالی گئی تھی۔جو مذہبی معاملات میں مسلمانوں کی  پوری راہنمائی کرتا ہے۔حالیہ کچھ برسوں میں ملک کے سیاسی و سماجی حالات بہت حد تک بدلے ہیں۔اور ان  بدلے حالات کا مسلم سماج پر بھی اثر پڑا ہے۔ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ نے حالیہ دنوں مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کی ہے۔چاہے وہ اسلام میں تین طلاق کا معاملہ ہو یا مسلم خواتین کا درگاہوں اور عبادت گاہوں میں داخلے کا معاملہ ۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ سپریم کورٹ مذہبی معاملات میں دخل اندازی کیوں کر رہا ہے؟کیا واقعی یہ وقت کی ضرورت ہے یا پھر کورٹ کی یہ مداخلت بیجا ہے۔دینی معاملات میں عدالتوں کے دخل پر ایک بحث چھڑی ہوئی ہے۔سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا  مسلمانوں کو ملے فنڈا منٹل رائٹس کو چیلنج کیا جا رہا ہے؟ اور سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا عدالتیں اور کورٹ ۔آئین کے آگے جا سکتا ہے؟اور اب تو یہ بھی سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا آئین میں مسلمانوں کو جو حقوق دیئے گئے ہیں ۔کیا ان میں بھی خطرات منڈلا رہے ہیں؟یا واقعی ہماری عدالتیں ۔دینی معاملات میں مداخلت کو لیکر حد پار کر رہی ہیں۔آپ کو یاد دلادیں کہ کچھ ماہ قبل ہی سپریم کورٹ نے  مسلم پرسنل لا کی جا نچ کرنے کی بات کہی تھی۔جسٹس انل آر دوے اور جسٹس اے کے گوئل کی بینچ نے کہا ہے کہ من مانے طریقے سے دی جانے والی طلاق اور دوسری شادی کے عمل  نے مسلم خواتین سے انکا تحفظ چھین لیا ہے۔بنچ نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ جب آئین میں سب کو برابری کا حق دیا گیا ہے۔تو  مسلم خواتین کے ساتھ  امتیاز کیوں ہو رہا ہے۔کورٹ نے اس معاملے پر مرکزی حکومت سے کہا ہے کہ وہ ایسے طریقوں کی تجویذ دے ۔جس سے کہ مسلم خواتین کو بھی دوسرے مذاہب کی خواتین کے برابر حق مل سکے۔اورمسلم خواتین کے ساتھ وہی برتاؤ ہو جو دوسرے مذاہب میں ہوتا ہے۔خیر۔مسلم پرسنل لا پر کورٹ کی اس تجویذ کو لیکر بحث بھی تیز ہوگئی ہے۔آپ کو یاد دلا دیں کہ   ماضی میں اسی نوعیت کے شاہ بانو کیس میں  بھی کورٹ کے عمل دخل سے  مسلم پر سنل لا اور کورٹ  کے فیصلے کو لیکر بحث چھڑ چکی ہے۔

No comments:

Post a Comment