Thursday 25 February 2016





ریل بجٹ2016 سریش پربھو نے کیا پیش

Rail budget 2016

مرکزی وزیر ریل سریش پربھو نے دو ہزار سولہ۔سترہ  کے لئے ریل بجٹ پیش کیا ۔سریش پربھو نے پسنجر  اور مال  کرایوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔البتہ  ریزرویشن کی سہولت  والی تین  نئی سُپر فاسٹ ٹرینوں کے علاوہ  ایک مکمل ان ریزرو پاسنجر ٹرین انتو دیا کے آغاز  کا اعلان کیا۔ سریش پربھو نے لوک سبھا میں دوسری بار ریل بجٹ  پیش کیا ہے۔پربھو کے اس بجٹ پر ملا جلا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔جہاں وزیر اعظم نریندر مودی نے اس بجٹ کی تعریف کی ہے ۔تو وہیں اپوزیشن اور سابق وزرائے ریل نے اس بجٹ  پر ملا جلا ردعمل ظاہر کیا ہے۔لالو یادو  نے کہا کہ موجودہ سرکارنے ریلوے  کو پٹری سے اتار دیا ہے۔کھڑگے نے کہا کہ  بجٹ میں کسی انویسٹ منٹ کی بات نہیں ہے۔تو پون کمار بنسل نے کہا کہ اس بجٹ میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔خیر۔وزیر ریل سریش پربھو نے کہا کہ یہ چیلنج بھرا وقت ہے۔مالی  مندی ہے۔لیکن وہ کرایا بڑھا کر ۔آمدنی بڑھانے کے حق میں نہیں ہیں۔خیر۔ریل بجٹ میں کسی نئی ٹرین کا اعلان نہیں ہوا۔ہاؤس میں زیادہ شور شرابا بھی نہیں ہوا۔وزیر اعظم نے وزیر ریل کو مبارک باد دی۔لیکن اپوزیشن میں بجٹ کو لیکر مایوسی دیکھی گئی۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ وزیر اعظم مودی کا  دور اقتدار دو ہزار انیس تک ہے۔لیکن ریل بجٹ میں پربھو نے ویژن دو ہزار بیس کا خواب کیوں دکھایا؟خیر۔سریش پربھو نے اپنے ریل بجٹ میں پسنجر اور مال کرایوں میں کوئی  اضافہ نہیں کیا ہے۔البتہ ریزرویشن کی سہولت والی  تین نئی سُپر فاسٹ ٹرینوں ہم سفر ‘تیجس اور اُدے  کے آغاز کا اعلان کیا۔اس کے علاوہ مکمل ان ریزرو ٹرین انتو دیا بھی  شروع کی جائے گی جو مصروف  ترین روٹوں پر چلائی جائے گی۔ہم سفر مکمل ایئر کنڈیشن   تھرڈ اے سی خدمات والی ٹرین  ہوگی۔اسی طرح  تیجس ایک سو تیس کلو میٹر فی گھنٹہ کے  فتار سے چلے گی ۔اس ٹرین میں انٹرٹینمنٹ مقامی کھانوں اور وائی فائی کی سہولت فراہم ہوگی ۔یہ ٹرین ہندوستان میں مستقبل کے ریل سفر کی عکاسی کرے گی۔اس کے علاوہ تیسری نئی ٹرین اُدے ایک ڈبل ڈیکر  ٹرین ہوگی اور مصروف ترین ریل روٹوں پر چلائی جائے گی۔اس ٹرین میں  مسافروں  کو لیجانے کی گنجائش چالیس فیصد زیادہ ہوگی۔سریش پربھو کے ریل بجٹ میں بنا ریزرویشن کے سفر کرنے والے مسافروں کے لئے بھی  خوشخبری ہے۔بنا ریزرویشن کے سفر کرنے والے مسافروں کے لئے  انتو دیا  ایکسپریس  شروع کی جائے گی اس کے علاوہ لمبے  سفر کی ٹرینوں میں دین دیالو کوچ لگائے جائیں گے۔مسافروں کے لئے پورٹیبل واٹر سرویس کے علاوہ  زیادہ سے زیادہ موبائیل چارجنگ پوائنٹ کی سہولت ہوگی۔سریش پربھو نے اپنے ریل بجٹ میں بتیس ہزار کروڑ کا بوجھ بڑھنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کنفرم سیٹ لینے پر اضافی چارج دینا ہوگا۔سوشل میڈیا کی شکایات کے  ذریعہ ریلوے نظام کو بہتر  بنایا جائے گا۔جنرل ڈبے میں بھی موبائیل چارج کرنے کی سہولت رہے گی۔شمال مشرق کے لئے ریل بجٹ میں خاص خیال رکھا گیا ہے  ۔سریش پربھو نے  کہا کہ شمال مشرق کیلئے خصوصی ریلوے خدمات اور براڈ گیج ریلوے رابطے حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں۔خاتون مسافروں  کو محفوظ سفر کو یقینی بنانے کے لئے بھی اقدامات کرنے کا وزیر ریل نے اعلان کیا۔وزیر ریل نے اپنی بجٹ تقریر میں  آئندہ پانچ  برسو ں میں ریل انفراسٹکچر کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے   آٹھ اعشاریہ پانچ لاکھ کروڑ روپئے خرچ کرنے کا اعلان کیا۔ملک کے اہم مذہبی مقامات کو آستھا ٹرین سے جوڑا جائےگا۔ بزرگ شہریوں کے لئے   مزید پچاس فیصد  لور برتھ کوٹہ  کی فراہمی ۔دو ہزار بیس تک   آن ڈیمانڈ ریزرویشن کی فراہمی ۔ملک کے چار سو ریلوے اسٹیشنوں میں وائی فائی کی سہولت۔آئندہ مالی سال میں  سو اسٹیشنوں میں یہ سہولت فراہم ہوگی۔ای ٹکٹنگ کی گنجائش فی منٹ   سات ہزار دو سو   سے بڑھا کر دو ہزار فی منٹ کی جائے گی۔تمام اہم اسٹیشنوں میں  سی سی ٹی وی کی تنصیب ۔آئندہ سال تک ٹرینوں میں   تیس ہزار بائیو ٹائلیٹس  کی فراہمی ‘مطالبہ پر  کوچوں کی صفائی۔  رعایتی پاس رکھنے والے صحافیوں کے لئے ای   بکنگ کی سہولت۔ پائیلیٹ  بیسیس پر  بار کو ڈیڈٹکٹس اور اسکینرس  کی سہولت۔ فارن  ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ پر  ای ٹکٹنگ کی سہولت۔ اجمیر‘ پوری ‘ وارانسی اور ناگاپٹنم   اسٹیشنوں  کو خوبصورت  بنانا۔ مسافروں کو دلچسپی کا سامان مہیا کرنے کے لئے ٹرینوں  میں ایف ایم ریڈیو کی سہولت۔ضعیف اور  معذور مسافروں کے لئے  ریل مترا سیوا   کی فراہمی ۔بچوں کو غذائی اشیا کی فراہمی کے لئے  جننی سیو کا آغاز۔ اٹو میٹک  دروازوں   ‘بائیو ویکیوم  ٹائیلیٹس اور  جدید سہولتوں کے ساتھ اسمارٹ کوچوں   کی سہولت۔ مسافروں  کی شکایتوں کو دور کرنے کے لئے  موبائیل ایپ۔  کوچوں میں  جی پی ایس کی سہولت سے لیس  ڈیجیٹل ڈسپلے کے ذریعہ معلومات کی فراہمی شامل ہے۔اس بجٹ پر ریلوے کا مزدور سنگھ بھی خوش نہیں ہے۔سنگھ نے کہا کہ پربھو کے بجٹ سے کافی امیدیں تھیں۔لیکن ہاتھ صرف مایوسی ہی لگی۔

Wednesday 24 February 2016

Unbelievable Dr Fouzia Choudhary Urdu Academy Karnataka Chairperson is no more.May Allah accept her deeds and grant her highest place in paradise.Deep condolences may Almighty Allah give strength to family members to bear irreparable loss.
Inna lillahi Wa inna ilaihi Raajioon
On 6th Jan 2016,She was in Big Bulletin Program(Etv Urdu)

لاتور واقعہ پولیس محکمہ کے وجود پر سوال؟

LATUR MUSLIM POLICEMAN BEATEN AT DUTY

لاتور کے پان گاؤں میں ایک ایسا دردناک واقعہ پیش آیا جس نے پورے پولیس محکمہ کے وجود پر سوالیہ نشان لگادیا ہے ۔متنازعہ مقام پر بھگواپرچم لگانے سے منع کرنے پر شیخ یونس نامی پولیس اہلکار کومشتعل ہجوم نے نہایت بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر زخمی کردیا ۔دراصل لاتور کے پان گاؤں میں شیوجینتی کے موقع پرمشتعل ہجوم نے پولیس چوکی پر حملہ کردیا ۔جس میں دو پولیس اہلکار زخمی ہوگئے ۔شیخ یونس کا ساتھی پولیس اہلکار وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب رہا ۔لیکن ہجوم نے شیخ یونس کو پکڑ  لیا۔اور انکے ساتھ  نہایت بر بریت کا مظاہر ہ کیا۔شرپسندوں کی بھیڑ نے شیخ یونس کو جبرا بھگوا جھنڈا تھما دیا۔اور ان سے شیوا جی اور جے ماتا دی کے نعرے لگوائے۔بھیڑ نے شیخ یونس کے ساتھ مارپیٹ بھی کی ۔جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہو گئے ۔ادھر،اس معاملے پر محکمہ پولیس کی غفلت  پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔کیوں کہ جس وقت شیخ یونس کے ساتھ یہ سب ہو رہا تھا۔اس وقت پولیس موقعہ واردات پر کافی تاخیر سے پہنچی۔خیر۔دو دن بعد ہی صحیح۔مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے اس معاملے کانوٹس لیتے ہوئے کہا ہے۔کہ یہ معاملہ صرف ایک پولیس اہلکار کا نہیں بلکہ پورے پولیس محکمے کے لئے بڑا چیلنج ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری سرکار ایسے کسی بھی واقعہ کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔لیکن سوال یہ اٹھتا ہے۔ کہ اس معاملے کو تین دن گزر گئے ہیں۔لیکن اب تک اس معاملے میں کوئی کاروائی کیوں نہیں ہوئی؟ قصوروار  اب تک پولیس کی گرفت سے باہر کیوں ہیں؟اس پورے معاملے پر ریاست کی  اپوزیشن جارحانہ موڈ میں ہے۔کانگریس کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر سمیت پورے میں ایک خاص سوچ رکھنے والوں کی دہشت ہے۔این سی پی نے کہا کہ لاتور معاملہ ریاست کے لئے بڑا افسوسناک ہے۔وہیں شیخ یونس کی فیملی  اس حملے کے بعد ڈر و خوف کے ماحول میں ہے۔فیملی نے اس پورے معاملے میں پولیس کی کاروائی پر  بھی عدم اطمینان ظاہر کیا  ہے ۔شیخ یونس کی اہلیہ نے کہا پولیس محکمہ میں کام کرتے ہوئے انہیں آج یہ دن دیکھنا پڑے گا اس کا تصور بھی انہوں نے  نہیں کیا تھا ۔لیکن آج جن حالات سے انہیں گذرنا پڑرہاہے اس کے بارے میں  اب انہیں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔واضح رہے  کہ پان گاؤں میں ماضی میں بھی اس طرح کے دو سے تین واقعات پیش آچکے ہیں ۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس طرح کے واقعات بار بار کیوں پیش آتے ہیں۔کیا انتظامیہ ایسے معاملےپرآنکھ موند لیتی ہے؟ 

Tuesday 23 February 2016

  کیا یہ بجٹ اجلاس مودی سرکار کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے؟

Parliament  budget session 2016

پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن کا آغاز ہو چکا ہے۔پہلے دن صدر جمہوریہ نے خطاب کیا اور موجودہ سرکار کی  اسکیموں ۔منصوبوں اور پالیسیوں اور حولیابیوں کا ذکر کیا۔لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ  مرکزی سرکار ۔اپوزیشن کے حملوں کے لئے کتنی تیار ہے۔کیوں کہ پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن سے ٹھیک پہلے جاٹ ایجی ٹیشن   نے سرکار کی نینڈ اڑا دی ہے۔تو وہیں جے این یو معاملہ  آگ میں گھی  کا کام کر سکتا ہے۔اس بیچ وزیر اعظم نریندر مودی نے امید ظاہر کی ہے کہ اپوزیشن ۔بجٹ سیشن کو بخوبی انجام تک پہنچا نے میں تعاون دے گا۔وزیر اعظم نے کہا کہ پارلیمنٹ سیشن میں اپوزیشن کو سرکار کی کمیاں اجاگر کرنی چاہئیں۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ اپوزیشن سیشن چلنے دینے میں سرکار کا تعاون کرے گا۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان تیزی سے ترقی کرنے والا ملک بن رہا ہے۔ایسے میں ملک کے ایک سو پچیس کروڑ عوام کے علاوہ بیرون ممالک کی نظر بھی ملک کے بجٹ سیشن پر رہے گی۔وزیر اعظم نے کہا کہ مجھے بھروسہ ہے کہ پارلیمنٹ کا  استعمال مثبت بحث کے لئے کیا جائے گا۔اور عوام کی امیدوں پر کھرا اترنے کی کوشش کی جائے گی۔خیر۔بجٹ سیشن سے پہلے جے این یو معاملہ اور ہریانہ جاٹ ایشو کو لیکر  اپوزیشن جارحانہ موڈ میں ہے۔ایسے میں پارلیمنٹ کا  پر سکون ماحول میں چل پانا مشکل نظر آرہا ہے۔ واضح رہے کہ اس  سے پہلے دو سیشن پوری طرح ہنگامے کی نذر ہوچکے ہیں۔حالاں کہ  مرکزی سرکار اور خاص کر عوام کو موجودہ بجٹ سیشن سے کافی امیدیں وابستہ ہیں۔لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس بار پارلیمنٹ کا سیشن بخوبی چل پائے گا یا پھر ہنگا موں کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔جی ایس ٹی سمیت کئی اہم بل پارلیمنٹ میں لٹکے ہوئے ہیں۔کیا ان اہم بلوں پر پارلیمنٹ میں مثبت  بحث ہو پائے گی یا یہ سیشن بھی واش آؤٹ ہو جائے گا؟

Monday 22 February 2016

کیا اس ایشو پر تمام پارٹیاں فائدہ  اور نقصان دیکھ رہی ہیں؟

Jat stir in Haryana

ہریانہ میں جاٹ ریزرویشن کی مانگ  کو لیکرایک بار پھر  ہنگامہ برپا ہے۔پچھلے ایک ہفتے  میں  ریزرویشن کی مانگ کو لیکر ہورہے ہنگامے سے اب تک کئی افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہیں۔اس کے علاوہ کروڑوں روپیوں کا نقصان ہوا ہے۔حالات ایسے ہیں  کہ سیکورٹی ایجنسیاں اور فوج بے بس ہے۔جاٹ  سماج کے لوگوں میں ریزرویشن کو لیکر سرکار کے رویے پر  غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔اس بیچ بی جے پی نے اعلان کیا ہے۔کہ ہریانہ اسمبلی  کے اگلے سیشن میں جاٹ سماج کو ریزرویشن   دینے کے لئے بل لایا جائیگا۔بی جے پی کی ہریانہ یونٹ کے جنرل سکریٹری انل جین نے اس خبر کی اطلاع دی۔جین نے یہ اعلان وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کے بعد کیا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ سرکار کے اس وعدے پر عوام کتنا بھروسہ کرے؟ اسمبلی انتخابات میں بھی جاٹ سماج سے ریزرویشن کا وعدہ کیا گیا تھا۔لیکن انتخابات کے بعد سرکار اپنے وعدے سے پلٹ گئی۔ادھر،کانگریس اس پورے معاملے پر بی جےپی کو گھیر رہی ہے۔پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن سے ٹھیک پہلے جاٹ آندولن  نے سرکار کی نینڈ اڑا دی ہے۔لیکن اس آندولن سے ریاست کی  سبھی بڑی پارٹیوں کا  نفع نقصان جڑا ہوا ہے۔ہریانہ کے ان حالات سے بی جے پی سب سے زیادہ تشویش  مندہے۔جبکہ ادھر کانگریس  ۔ریاست کے ان حالات کو اپنے حق میں موڑنے کی تاک میں ہے۔کانگریس جاٹ ریزرویشن معاملے کو لیکر اور برادریوں  کے لئے ریزرویشن کا ایشو اٹھا کر بی جے پی کو گھیرنے کی کوشش کر رہی ہے۔یعنی کانگریس اس معاملے سے ریاست میں اپنی کھوئی ہوئی زمین تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہے۔سابق وزیر اعلیٰ اور سینئر کانگریس لیڈر  بھوپیندر سنگھ ہڈا نے کہا کہ اگر اس معاملے پر مرکزی سرکاری کی منشا اور نیت صاف ہے۔تو وہ کانگریس  کے فارمولے پر آگے بڑھے۔

Friday 19 February 2016

کب ختم ہوگی جے این یو معاملے پرسیاست؟

Nationalist vs Anti Nationalist

جے این یو میں  ملک مخالف نعرے بازی کے بعد ۔ سیاست گرمائی ہوئی  ہے۔جے این یو کیمپس ان دنوں سیاسی  اکھاڑا بن گیا ہے۔اس معاملے کے بعد جہاں  یونیورسٹی  میں تعلیمی نظام درہم برہم ہے۔وہیں طلبا اور اساتذہ بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔جے این یو معاملے پر اب تو ملک بھی بٹا ہوا لگ رہا ہے۔ایک دھڑا جہاں اس پورے معاملے کی شدید مخالفت کر رہا ہے۔اور اس پورے معاملے کو ملک مخالف بتا  رہا ہے۔وہیں ملک کا دوسرا دھڑا جے این یو معاملے کو سوچی سمجھی سازش بتا رہا ہے۔اور اس دھڑے کا کہنا ہے موجودہ حکومت ملک میں آر ایس ایس کی سوچ کو بڑھاوا دینا چاہتی ہے۔ایسے میں ملک دو حصوں میں بٹا ہوا نظر آرہا ہے۔ایک طرف وہ لوگ ہیں ۔جو جے این یو میں ہوئے  متنازعہ پروگرام کی مخالفت کر رہے ہیں ۔اور وہ اس پروگرام کی حمایت کرنے والوں کو غدار قرار دے رہے ہیں۔دوسری جانب لوگ جے این یو کو دہشت گردانہ سرگرمیوں کی حمایت کرنے والوں کے خلاف تو ہیں ۔لیکن وہ پورے ادارے کے کردار پر سوال اٹھانے والوں کی مخالفت  کر رہے ہیں۔اس پر بیان بازیوں نے معاملے کو بیجا طول دے دیا ہے۔ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے۔مختلف طلبا تنظیمیں اپنی اپنی سیاسی وابستگی کی مناسبت سے اور انکے موقف کے اعتبار سے احتجاج کر رہے ہیں۔ایک دوسرے کے خلاف ناشائستہ زبان بھی  استعمال کی جارہی ہے۔کہیں کہیں تو دو گروپ آپس میں متصادم بھی ہو رہے ہیں۔حالاں کہ معاملہ عدالت کے زیر سماعت ہے۔اور قانونی طور پر اس میں پیش رفت بھی ہو رہی ہے۔دونوں فریق اپنا اپنا موقف پیش کر رہے ہیں۔حالاں کہ عدالت کی مداخلت سے معاملے میں کشیدگی تھوڑی کم ہوئی ہے۔لیکنابھی بھی لوگوں  کے جذبات مشتعل ہیں۔دراصل سیاسی لیڈروں کی بیان بازی آگ میں گھی کا کام کر رہی ہے۔کچھ لیڈر تو ۔اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اپنی سیاست چمکانے کے لئے ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔۔۔جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عدالت کے سامنے تمام حقائق اجاگر ہوں ۔اور انہیں کی بنیاد پر قصورواروں کو سزا ملے۔اور بے قصور افراد کو راحت ملے۔لیکن یہ جب ہی ممکن ہے۔جب لوگ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں اور عدالت کو معاملے کا نپٹارا کرنے دیں۔

Thursday 18 February 2016

 چین کی نئی چال؟

China said to deploy missiles on south china sea island

چین کی ایک اور چال۔جی ہاں۔اسے چین کی چال کہیں یا چین کی ہٹ دھرمی۔چین نے وہی کام کیا ہے۔جس پر دنیا اور خاص کر ایشیائی ممالک کو تشویش ہے اور وہ فکر مند ہیں۔دراصل   چین نے جنوبی بحیرۂ چین میں واقع متنازع جزیروں میں سے ایک پر زمین سے فضا میں مار کرنے والےمیزائل نصب کر دیے ہیں۔خاص بات یہ ہے کہ اس متنازعہ جزیرے پر  چین کے علاوہ تائیوان اور ویتنام بھی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک بھی چین کی اس حرکت سے تشویش میں مبتلا ہیں۔اور ان دونوں ممالک نے بھی میزائلوں کی تنصیب کی تصدیق کی ہے۔تاہم چین نے اپنے اس اقدام کا دفاع کیا ہے۔چین   کا کہنا ہے کہ اپنی سلامتی کے لئے  اس نے یہ قدم اٹھایا ہے۔اور اس پر اس کا حق  بھی بنتا ہے ۔واضح رہے کہ چین بحیرۂ جنوبی چین کے پورے خطے پر اپنا حق جتاتا ہے جو کہ دیگر ایشیائی ممالک ویتنام اور فلپائن کے دعووں سے ٹکراتاہے۔ان ممالک کا الزام ہے کہ چین نے اس علاقے میں مصنوعی جزیرہ تیار کرنے کے لیے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور اسے عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن چین کا کہنا ہے کہ اس کا سمندر میں مصنوعی جزیرے اور اس پر تعمیرات کا مقصد شہریوں کے لیے سہولیات پیدا کرناہے ۔لیکن دوسرے ممالک اس کی ان کوششوں کو فوجی مقاصد کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ادھر جاپان نے بھی  چین کے اس اقدام پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان سب کے بیچ  چین کے دورے پر پہنچیں آسٹریلیا کی وزیر خارجہ جولی بشپ نے چین کے وزیر خارجہ کے ساتھ میزائل شکن نظام نصب کرنے کے بعد پیدا ہوئے تناؤ پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر جولی بشپ نے آسٹریلیا کا موقف پیش کیا۔جبکہ چین کے اس عمل پر امریکہ کا کہنا ہے کہ  وہ صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔اس صورتحال کے بیچ دنیا کے کئی ممالک اس بات پر زور دے رہے ہیں۔ کہ  بات چیت کے ذریعہ اس مسئلے کو حل کر لیا جائے۔ تائیوان نے فریقین سے خطے میں امن و استحکام برقرار رکھنے کے لیے مل کر کام کرنے کی اپیل کی ہے۔اس کا کہنا ہے  کہ جنوبی بحیرۂ چین ایک ایسا علاقہ ہے جس پر ہر کسی کی توجہ مرکوز ہے۔ حالات بہت کشیدہ ہیں اس لیے ہم سب فریقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جنوبی بحیرۂ چین پر تنازع کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے بنیادی اصول پر کاربند رہیں ۔جبکہ ادھر فلپائن  کا کہنا ہے کہ  چین کے ذریعہ  جنوبی بحرچین میں تعمیری کام  اور میزائلوں کی تنصیب کی رپورٹ کے بعد    وہ صورتحال پر نظر رکھے ہوے ہے۔ خیر۔چین کے اس متنازعہ عمل اور حرکت سے کئی طرح کے سوال اٹھتے ہیں۔کہ کیا یہ چین کی نئی چال ہے۔یا چین اس عمل سے اپنے پڑوسیوں پر دبدبہ قائم کرنا چاہتا ہے؟

Wednesday 17 February 2016

ہنگامہ کرنے والوں کو قانون پر بھروسہ نہیں؟

Lawyers attack arrested JNUSU president Kanhaiya Kumar 

جے این یو میں  ملک مخالف نعرے بازی کے بعد ۔ سیاست گرمائی ہوئی  ہے۔جے این یو کیمپس ان دنوں سیاسی  اکھاڑا بن گیا ہے۔اس معاملے کے بعد جہاں  یونیورسٹی  میں تعلیمی نظام درہم برہم ہے۔وہیں طلبا اور اساتذہ بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔ادھر آج پھرکنہیا کی پیشی کے وقت کورٹ میں ہنگامہ  ہوا۔کچھ وکیلوں نے کنہیا پر حملہ کردیا۔اور یہ سب کچھ پولیس کی موجودگی میں ہوا۔خیر۔کنہیا کو دو مارچ تک عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا ہے۔اس بیچ اس پورے معاملے کو لیکر سیاست بھی تیز ہو گئی ہے۔سی پی ایم کے سیتا رام یچوری نے کہا کہ دہلی اور کورٹ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے۔یہ بہت غلط ہے۔وہیں ۔پولیس کمشنر بی ایس بسی کا کہنا ہے کہ کورٹ میں ہنگامہ کرنے والے  تین وکیلوں کی پہچان کر لی گئی ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کنہیا پر حملہ کرنے والوں کو کیا ملک کے قانون پر بھروسہ نہیں ہے؟ یا یہ لوگ نظم و نسق کا مذاق اڑا رہے ہیں؟کیوں کہ ملک مخالف کسی بھی سرگرمی کو ہرگز برداشت نہیں کیا جاسکتا۔لیکن۔کسی بھی   گنہگار کو اس طرح سزا دینے کا حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا۔ملک کا اپنا آئین ہے۔اپنا قانون ہے۔اور کورٹ کسی بھی معاملے کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد ہی حتمی فیصلے پر پہنچتا ہے۔ایسے میں کورٹ میں ہونے والے ہنگامے سے کئی طرح کے سوال اٹھتے ہیں۔کہ کیا  فریقوں کو قانون پر بھروسہ نہیں ہے؟جے این یو معاملے پر بی جے پی اور کانگریس آمنے سامنے ہیں۔تو وہیں ملک بھر میں یہ معاملہ چرچا کا موضوع بنا ہوا ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سیاسی بیان بازیوں سے اس طرح کے واقعات کا حل نکلے گا؟کیا اس طرح کے معاملات میں حکومت اور انتظامیہ کو تہہ تک جانے کی ضرورت نہیں ہے؟اور سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا صرف جے این یو کو اپنی سیاست چمکانے کے لئے سیاسی اکھاڑا بنایا جا رہا ہے؟کیا اس طرح کے سیاسی دنگل سے  یونیورسٹی کی عظمت اور طلبا کی تعلیم پر اثر نہیں پڑے گا؟ضرورت اس بات کی ہے کہ معاملے کو باریکی سے سمجھا جائے۔کیوں کہ ملک  مخالف کسی بھی سرگرمی کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔لیکن  شرط اتنی ہے کہ ایسے حساس معاملات میں سرکار کی نیت بھی صاف ہو۔

Tuesday 16 February 2016

کیا ضمنی چناؤ کے نتائج سے رجحان بدل سکتا ہے؟

Bypoll results 2016:BJP wins Muzaffarnagar seat,Congress victorious in Deoband

آٹھ ریاستوں کی بارہ اسمبلی  سیٹوں پر ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج ّآ گئے ہیں۔یہ نتائج کئی پارٹیوں کے لئے چوکانے والے ہیں۔ان میں خاص کر اترپردیش میں سماج وادی پارٹی کے لئے نتائج مایوس کن رہے۔ریاست کی تین سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہوئے۔یہ تینوں  وہ سیٹیں  تھیں ۔جن پر سماج وادی پارٹی قابض تھی۔لیکن ضمنی چناؤ میں سماج وادی پارٹی کی جھولی میں صرف ایک سیٹ آئی ہے۔ایک سیٹ پر بی جے جبکہ ایک سیٹ  پر کانگریس  نے قبضہ جمایا ہے۔مظفرنگر کی سیٹ پر بی جے پی نے قبضہ جمایا ہے جبکہ دیوبند کی سیٹ کانگریس کی جھولی میں آئی ہے۔خاص بات یہ ہے کہ یوپی میں سماج وادی پارٹی اقتدار میں ہے۔اور یہاں اسمبلی انتخابات ہونے میں اب  ایک سال سے بھی   کم کا   وقت رہ گیا ہے۔ایسے  میں یہ شکست۔سماج وادی پارٹی کے لئے بڑا جھٹکا مانا جا رہا ہے۔ایک طرف جہاں مظفر نگر ۔فرقہ وارانہ فساد کو لیکر سرخیوں میں رہا۔تو وہیں فیض آباد ضلع ۔ایودھیا کے قریب ہونے سے ہمیشہ سرخیوں میں رہتا ہے۔ان دونوں سیٹوں پر نتائج بلکل برعکس آئے ہیں۔یوپی کے علاوہ۔کرناٹک کی تین سیٹوں میں دو پر بی جے پی اور ایک پر کانگریس نے جیت حاصل کی ہے۔مہاراشٹرکی پال گھر کی سیٹ پر شیو سینا نے قبضہ جمایا ہے۔بہار میں ایک سیٹ کے لئے ہوئے چناؤ میں آر ایل ایس پی نے جیت درج کی ہے۔یہ   برسر اقتدار جے ڈی یو کے لئے  جھٹکا ہے۔مدھیہ پردیش کی مہر سیٹ کانگریس سے چھن گئی ہے۔اس سیٹ پر بی جے پی نے قبضہ جمایا ہے۔خیر۔یہ نتائج اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کتنا اثر ڈال پائیں گے۔یہ ابھی کہنا مشکل ہے۔لیکن ان نتائج نے مختلف پارٹیوں  کے ذمہ داران کو تشویش میں ضرورمبتلا کر  دیا ہے۔خاص کر سماج وادی پارٹی کے لئے یہ انتخابات ایک ٹسٹ اور سیمی فائنل  کی حیثیت رکھتے تھے۔نتائج نے سماج وادی پارٹی کو مایوس کیا ہے۔سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ریاست میں عوام کا رجحان بدل رہا ہے؟یا ان پارٹیوں نے ان انتخابات کو زیادہ اہمیت نہیں دی؟لیکن یوپی کی اہمیت ہر پارٹی جانتی اور سمجھتی ہے۔کیوں کہ دہلی کی گدی کا راستہ یوپی سے ہی ہو کر گذرتا ہے۔ان انتخابات سے جہاں  برسراقتدار جماعت کی ریاست میں اب تک کی کارکردگی کا  اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔وہیں۔اپوزیشن جماعتوں کے ہوم ورک کا بھی  پتا چلتا ہے۔اس کے علاوہ یہ نتائج پارٹیوں کے لئے جگانے کا کام بھی کر سکتے ہیں۔

Monday 15 February 2016

معاملے کی تہہ تک جانے کی ضرورت؟

JNU ROW

جے این یو میں  ملک مخالف نعرے بازی کے بعد ۔ سیاست گرمائی ہوئی  ہے۔جے این یو کیمپس ان دنوں سیاسی  اکھاڑا بن گیا ہے۔آج  یونیورسٹی  میں کلاسس بند رہیں۔تو دوسری جانب  کنہیا کو کورٹ میں پیش کیا گیا۔کنہیا کی پیشی کے وقت کورٹ میں ہنگامہ بھی ہوا۔اس بیچ اس پورے معاملے کو لیکر سیاست بھی تیز ہو گئی ہے۔خاص کر کانگریس نائب صدر راہل گاندھی اور بی جے پی صدر امت شاہ میں لفظی جنگ تیز ہوگئی ہے۔امت شاہ نے اس معاملے پر راہل گاندھی کو سیدھے نشانے پر لیا ہے۔ہم آپ کو بتا دیں کہ جے این یو کے طلبا کے ساتھ راہل گاندھی اور کچھ لفٹ لیڈران نے احتجاج کیا تھا۔امت شاہ نے کہا کہ جو جے این یو میں ہوا۔وہ ملک کے حق میں نہیں ہے۔اور ایسے لوگوں کے حق میں دھرنا دینا یا احتجاج کرنا ملک مخالف شرگرمی کو بڑھاوا دینے کے برابر ہے۔اس پورے معاملے پر امت شاہ نے ایک بلاگ بھی لکھا ہے۔امت شاہ نے اس معاملے پر کانگریس پر حملہ کیا اور کہا کہ ہٹلر واد کانگریس کے ڈی این اے میں ہے۔انہوں نے راہل گاندھی سے معافی مانگنے کو کہا۔سوال معافی مانگنے یا نہ مانگنے کا نہیں ۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سیاسی بیان بازیوں سے اس طرح کے واقعات کا حل نکلے گا؟کیا اس طرح کے معاملات میں حکومت اور انتظامیہ کو تہہ تک جانے کی ضرورت نہیں ہے؟اور سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا صرف جے این یو کو اپنی سیاست چمکانے کے لئے سیاسی اکھاڑا بنایا جا رہا ہے؟کیا اس طرح کے سیاسی دنگل سے  یونیورسٹی کی عظمت اور طلبا کی تعلیم پر اثر نہیں پڑے گا؟ضرورت اس بات کی ہے کہ معاملے کو باریکی سے سمجھا جائے۔کیوں کہ ملک  مخالف کسی بھی سرگرمی کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔لیکن  شرط اتنی ہے کہ ایسے حساس معاملات میں سرکار کی نیت بھی صاف ہو۔

Tuesday 9 February 2016

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا

Noted Urdu Poet and Bollywood lyricist Nida Fazli passes away


کٹھ پتلی ہے یا جیون  ہےجیتے جاؤ سوچومت
سوچ سے ہی ساری الجھن ہے جیتے جاؤ سوچو مت
لکھا ہوا کردارکہانی میں ہی چلتا  پھرتا ہے
کبھی ہے دوری کبھی ملن ہے جیتے جاؤ سوچومت
بے فکری کا پیام دے کرفکرکی دعوت دیتے ہیں  ندا فاضلی۔سادگی کا پیکرندافاضلی  چھوٹی بحروں میں بڑی باتیں انتہائی سہل انداز میں کہتے ہیں۔انھیں سامعین اورقاری  کادل  موہ لینے کاہنرخوب  آتا تھا۔ان کے اشعارروزمرہ کی زندگی  میں رچے بسے ہیں   اورکچھ توضرب المثل بن گئے ہیں۔
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونہ ہے
مل جائے مٹی ہے کھو جائے توسونا ہے
اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہواؤں کا جدھرجا ہے ادھرکے ہم ہیں
اردو کی گنکا جمنی اقدارکے امین ندا فاضلی   کی شاعری  انسانیت ۔محبت ۔اخوت اورفکرانگیزی کی دعوت دیتی ہے ۔
گھرسے مسجدہے بہت دور
چلو یوں کرلیں کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
ندا فاضَلی نے  شاعری کے تقریبًا  سبھی اصناف میں طبع آزمائی کی۔انھوں نے دوہے بھی لکھے جوکافی پسندبھی کیے گئے۔ندا فاضَلی نے  فلمی نغمے بھی لکھے جوکافی مقبول ہوئے۔اردو کے ممتاز شاعر اورمعروف نغمہ نگارندا فضلی کے سانحہ ارتحال ہرای ٹی وی بھی سوگوار ہے۔

ندا فاضلی اردو شاعری کا ایسا نام تھا  جس نے اپنے منفرد اسلوب سے اردو شاعری میں اپنی شناخت بنائی تھی۔ آپ کا نام مقتدا حسن اور قلمی نام ندا فاضلی ہے۔ ندا کی پیدا ئیش با رہ اکتوبر انیس سو اڑتیس کو دہلی میں ہوئی تھی ۔حالانکہ ندا کا آبائی وطن ڈبائی اتر پردیش ہے۔ندا نے دہلی میں آنکھ کھولی لیکن ان کی تعلیم و تربیت گوالیار میں ہوئی ۔گوالیار میں ندا کی سکونت کا وجہ ان کے والد کی ملا زمت تھی ۔ندا فاضلی نے گوالیار سے پہلے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی بعدازآں انہوں نے وکرم یونیورسٹی اجین سےہندی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
اردو شاعری میں ندا فاضلی کا کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے  ۔ ندا نے جس وقت ہوش سنبھالا اس وقت ملک تقسیم کی آگ میں جھلس رہا تھا۔ انسانیت شرمسار ہو رہی تھی۔ ایسے وقت میں ندا فاضلی کا احساس بیدار ہوا اور انہوں نے اپنے احساس کے اظہار کے لئے  شاعری کا انتخاب کیا۔ندا نے محض تیرہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ ندا کو شاعری کا فن وراثت میں  ملا تھا۔ ندا کے والد دعا ڈبائیوی کا شمار اردو کے مقتدر شعرا میں ہوتا تھا۔ انیس سو پینسٹھ کا سال ندا فاضلی کے لئے کرب اور ذہنی الجھنوں کا تھا۔ ایک طرف ماں ،باپ،بھائی ،بہن اور دوسرے رشتہ دار تھے جو ملک سے ہجرت کر کے پاکستان میں سکونت اختیار کرنا چاہتے تھے دوسری جانب نداکا اپنا وجود اور وطن کی محبت تھی۔ندا کے والدین نے ترک وطن کر کے پاکستان میں سکونت اختیار کر لی لیکن ندا سے ہندستان نہیں چھوڑا گیا۔البتہ گوالیار سے والدین اور بھائی بہنوں کے ترک وطن کے بعد ندا نے بھی گوالیار کو خیر باد کہہ کر ممبئی میں سکونت اختیار کر لی اور ممبئی میں ہی زندگی کی آخری سانیس لیں۔
ندا فاضلی کی تعلیم و تربیت گوالیار مد ھیہ پردیش میں ضرورہوئی لیکن ان کی شاعری کو مقبولیت ممبئی میں آنے کے بعد حاصل ہوئی ۔ندا ممبئی میں غزل کے مزاج داں بن کر گئے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ممبئی  کے اہل فن نے انہوں نے نہ صرف انہیں قبول کیا بلکہ انہیں آنکھوں کا تارا بنا کر رکھا۔ندا کی شاعری صرف  عشق و عاشقی کی حد تک محدود نہیں تھی  بلکہ انکی شاعری میں ہمیں زندگی کے تلخ مسائل ،سماجی نا ہمواریاں، حکمراں طبقے کا تعصب،اور عام انسانوں کی کسمپرسی کا عکس بھی نظر آتا ہے ۔ندا ان فن کاروں میں سے تھے جنہیں نظم و نثر دونوں میں بات کہنے کا ہنر آتا تھا۔ندا فاضلی نے شاعری کے ساتھ  ناول نگاری،تحقیقی مضامین ،خاکے اور تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں ۔ندا نے جن شعری اصناف پر طبع آزمائی کی  ہے اس میں غزل،نظم، قطعات تو ہیں ہی انہوں نے اردو میں دوہے لکھ کر جو مقبولیت حاصل کی وہ ان کی زندگی کا  حاصل ہے ۔ندا کی جو شعری تخلیقات  منظر عام پر آچکی ہیں ان میں لفظوں کا پل ،مور ناچ،آنکھ اور خواب کے درمیان ،شہر تو میرے ساتھ چل کے نام قابل ذکر ہیں جبکہ ندا کی نثری تخلیقات میں ملاقاتیں،چہرے شاعروں کے نام قابل ذکر ہیں ۔ چہرے شاعروں کے اردو کے ممتاز شعرا پر لکھے گئے ندا کے خاکوں کا مجموعہ ہے ۔ندا کے دو ناول بھی شائع ہوئے ہیں جن میں دیواروں کے بیچ  اور دیواروں کے باہر کے نام قابل ذکر ہیں ۔
دیوناگری میں بھی ندا شاعری کے کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں جن میں مور ناچ،آنسو بھر آیا،کھویا ہوا سا کچھ اور سفر میں دھوپ تو ہوگی کے نام قابل ذکر ہیں ۔
ندا فاضلی کے فکر و فن پر بہت سے گوشے اور خاص نمبر بھی شائع ہوچکے ہیں ۔سہ ماہی انتساب نے انیس سو اٹھاسی میں ندا فاضلی پر خاص نمبر شائع کیا تھا جسے ادبی حلقوں میں بہت پسند کیا گیا تھا۔
ندا فاضلی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے پدم شری کے اعزاز سے سرفراز کیا تھا جبکہ مد ھیہ پردیش حکومت نے شکھر سمان اور مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے انہیں اپنے با وقار میر تقی میر اعزاز سے سرفراز کیا تھا۔
ندا فاضلی نے فلموں میں بھی بہت سے مشہور نغمے لکھے ہیں ۔ رضیہ سلطان،اس رات کی صبح نہیں،سرفروش،سر،آپ تو ایسے نہ تھے  جیسی فلموں میں ان کے نغمے بہت مشہور ہوئے۔ انہوں نے بہت سے ٹی وی سیریل کے لئے بھی نغمے لکھے ہیں جن میں  سیلاب ، نیم کا پیڑ،جانے کیا بات ہوئی،جیوتی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ندا کی غزلوں کو جگجیت  سنگھ ،کویتا کرشن مورتی اور دوسرے گلو کاروں نے بھی اپنی دلکش آواز میں گایا ہے ۔ ان کا یہ  نغمہ دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے ۔مل جائے تو مٹی ہے کھوجائے تو سونا ہے۔   یا یہ نغمہ۔۔تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے کے نام قابل ذکر ہیں ۔
ندا فاضلی نے صحیح لکھا ہے کہ تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے ۔۔۔۔ ندا آج ہمارے بیچ نہیں ہے لیکن وہ اپنی تحریروں اور شاعری سے ہمارے ذہن ودل میں اس طرح سے رچ بس گئے ہیں جنہں صدیوں فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔۔

Friday 5 February 2016

مجلس اتحاد المسلین دوہزار سترہ کے یو پی اسمبلی انتخابات کے لئے تیار

Owaisi targets UP 2017 polls

ہندوستانی سیاست  میں یہ بات مشہور ہے کہ دہلی کی گدی تک راستہ اترپردیش سے ہوکرجاتا ہے۔پچھلے عام انتخابات میں بی جے پی کی دھماکے دار کامیابی اس بات کی عمدہ دلیل ہے۔یعنی دلی  پر راج کرنا ہے تو یوپی کو مضبوط کرو۔اترپردیش میں اسمبلی انتخابات ہونے میں اب ایک سال سے کم کا ہی وقت رہ گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ریاست میں انتخابی رنگ ابھی  سےچڑھنے لگا ہے۔جہاں پارٹیوں نے اپنی حکمت عملی بنانا شروع کر دی ہے۔ وہیں تمام پارٹیوں کے بڑے لیڈران کے بیانات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔دوقومی جماعتوں  اور دومضبوط علاقائی جماعتوں   سمیت دیگرسیاسی پارٹیوں کی بھیڑ میں  مجلس اتحاد المسلمین بھی شامل ہوگئی ہے۔ مجلس حیدرآباد سے نکل کر اترپردیش کا رخ کر رہی ہے۔اور اس نے مشن دو ہزار سترہ کی شروعات بھی کر دی ہے۔کل ایم آئی ایم چیف اسدالدین اویسی نے یوپی کے فیض آباد میں ایک ریلی سے خطاب کیااس ریلی میں اسد اویسی کو سننے کے  لئے بڑی تعداد میں لوگ  پہنچے ۔ اس موقع  پر انہوں نے  سماج وادی پارٹی اور بی جے پی پر جم کر نشانہ سادھا ۔ بہار کے بعد اب ایم آئی ایم یوپی میں اپنی قسمت آزما رہی ہے۔بہار میں تو ایم آئی ایم کھاتہ تک نہیں کھول سکی تھی۔۔الٹے پارٹی کو تنقیدوں کا سامنا  کرنا پڑا تھا۔اب  ایم آئی ایم یوپی میں سیند ھ لگانے کی  تاک  میں ہے۔کیوں کہ یوپی میں اسمبلی کی چار سو سے  زائد سیٹیں ہیں۔جن میں سو کے قریب ایسی سیٹیس ہیں جہاں مسلم بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔اور اپنے دم پر کسی بھی امیدوار کی قسمت کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایم آئی ایم یوپی میں بڑا داؤ کھیلنے جا رہی ہے۔فی الحال اس کی نظر بیکا پور کی سیٹ پر ہے۔جہاں اسی ماہ  ضمنی انتخاب ہونے والا ہے۔ایم آئی ایم اقلیت اور دلت ووٹ بینک  پر فوکس کر سکتی ہے۔خیر۔یوپی میں دو ہزار سترہ کی  جنگ کے لئے تمام پارٹیوں نے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔جس کی وجہ سے یوپی کی سیاست ابھی سے گرما گئی ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یوپی پر انتخابی رنگ چڑھنے لگا ہے؟کیا ابھی سے یوپی میں ووٹ بینک کی سیاست شروع ہوگئی ہے؟کیا تمام پارٹیوں کی نظر۔مسلم اور دلت ووٹ بینک پر لگی ہوئی ہے؟اورسب سے بڑھ کر  سوال یہ کہ کیا۔ایم آئی ایم ۔یوپی میں علاقائی پارٹیوں کے لئے درد سر بن سکتی ہے؟

Thursday 4 February 2016


 بنگلورو میں تنزانیہ کی طالبہ پرحملہ

Mob strips Tanzanian girl

 بنگلورو میں تنزانیہ کی طالبہ کے ساتھ   کی گئی  بدسلوکی کا معاملہ  موضوع بحث ہے۔یہ معاملہ ایک ساتھ کئی سوال اٹھاتا ہے جن سے ہمارا سامنا ماضی  میں بھی ہوچکا ہے۔خاتون  کی ہراسانی۔سرعام زدوکوب کرنا۔بدسلوکی۔سلامتی اورتشدد یہ ساری  چیزیں بہ یک وقت بنگلورو معاملہ ہمارے سامنے لاتا ہے ۔مشتعل ہجوم کی برہمی  پشیمانی کا باعث ہے۔یہ حادثہ  تھا جنون کی انتہا۔یہ   محض غصہ تھا یا انتقامی کاروائی تھی یا کچھ اور۔یہ  ساری باتیں تحقیق کا موضوع ہیں۔ریاستی حکومت نے تحقیات کا حکم  بھی دے دیا ہے۔مرکز نے اس پورے معاملے پررپورٹ طلب کی ہے۔پانچ افراد کوگرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔ لیکن جو بنیادی سوال اٹھتا ہے کہ چند مشتعل لوگوں نے آخر قانون اپنے ہاتھوں میں کیوں لیا؟انھوں نے ایسا سوچ سمجھ کرکیا یا یہ سب کچھ بے ساختہ  اور فوری ہوا؟یہ انتقامی کاروائی تھی یانسلی امتیاز اس کی وجہ تھی؟اس واقعے سے پورے ملک میں سنسنی پھیل گئی ہے اوربیرون ملک کے طلبہ و طالبات میں عدم تحفظ کا احساس پہلے سے کہیں زیادہ شدید ہوگیا ہے۔ملک میں خواتین کے تحفظ کا معاملہ گاہے بگاہے سرخیوں میں رہتا ہے ۔غیرملکی  خواتین سیاحوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے معاملے بھی روشنی میں آتے رہتے ہیں لیکن کیا ہم نے ماضی کے ان  واقعات سے سبق نہ سیکھنے کا تہیہ کررکھا ہے؟ہم سے کہاں پر چوک ہورہی ہے؟کیادرد کا مداوا درد ہے؟کیا انسانیت کے چہرے کومسخ کرنا انسانیت ہے۔کیا صبر۔تحمل اوررواداری کے لیے ہمارے دامن تنگ ہوگئے ہیں؟




   ای ٹی وی اردو نے کی ایک بڑی پہل


Suspense on govt-formation on in J&K

ریاست جموں و کشمیر میں وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد سیاسی غیر یقینی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔کیوں کہ سب کا کا خیال تھا کہ مفتی سعید کے بعد انکی بیٹی محبوبہ مفتی ہی ریاست کی اگلی وزیر اعلیٰ ہوں گی۔اور مفتی سعید بھی یہی چاہتے تھے کہ ان کی سیاسی باگ ڈور ۔انکی بیٹی محبوبہ مفتی  ہی سنبھالیں ۔سب کو اس بات کا انتظار تھا کہ محبوبہ ۔اب کسی بھی وقت وزیراعلیٰ  کا حلف لے سکتی ہیں۔لیکن ۔ایسا نہیں ہوا۔اور یہی سسپنس ۔عوام کو حیران کر رہا ہے۔کہ آخر۔سرکار بنانے اور وزیر اعلیٰ کا حلف لینے میں محبوبہ اتنا وقت کیوں لگا رہی ہیں۔ابتدا میں  دونوں پارٹیاں اس بات سے انکار کرتی رہیں کہ اتحاد میں کسی طرح کی دراڑ پیدا ہوئی ہے۔لیکن جیسے جیسے حکومت بننے میں تاخیر ہوتی  گئی اور لوگوں کا شک بھی یقین میں تبدیل ہوتا گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ریاستی عوام  کی  بے چینی اور سیاسی تذبذب  کا ماحول بنتے   دیکھ۔ای ٹی وی نے اپنی ذمہ داری سمجھی   اور ایسے میں ای ٹی وی اردو نے ایک بڑی پہل  کرتے ہوئے  ایک اوپنین پول کرایا۔تاکہ اس سے عوام کی رائے جانی جا سکے۔ای ٹی وی اردو اور فیس بک نے مشترکہ طور  پر یکم فروری سے اس اوپنین پول کی  شروعات  کی۔ریاست کے لوگوں کی رائے جاننے کے لئے ای ٹی وی نے  تین اہم اشوزپر  اوپنین پول کرایا۔اور لوگوں سے تین سوالات کے جوابات مانگے۔سوال یہ تھے کہ  کیا اسمبلی تحلیل کرتےہوئے کرانا چاہیئے نئے انتخابات؟یا فورا  ً لینا چاہیئے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف ۔کیا محبوبہ کو پی ڈی پی ، بی جے پی اتحاد برقرار رکھنا چاہیئے؟یا پھر محبوبہ کو کر نا چاہیئے کو ئی نیا اتحاد؟خیر۔آج اس اوپنین پول کے نتائج آگئے ہیں۔جموں و کشمیر کے لوگوں کا فیصلہ سامنے آ گیا ہے۔ کہ ریاست کی سیاست کو لیکر یہاں کی عوام کے ذہنوں میں کیا چل رہا ہے؟لوگوں نے ای ٹی وی کے سوالات پر اپنے جوابات دیئے۔اور اوپنین پول کو ملا زبردست رسپانس۔چلئے۔ایک ایک کر کے آپ کو ہم اوپنین پول کے نتائج بتا دیتے ہیں۔پہلا سوال ۔کیااسمبلی تحلیل کرتےہوئے کرانا چاہیئے نئے انتخابات؟یا فورا  ً لینا چاہیئے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف ۔دس فیصد لوگوں کا کہنا  ہے کہ فوراً نیا اتحاد بنانا چاہئے ۔سیتیس فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ دوبارہ انتخابات کرانے چاہئے۔ترپن فیصد لوگوں نےکہا کہ محبوبہ  کوفوراً وزیر اعلیٰ کاحلف لیناچاہئے۔موجودہ حالت میں محبوبہ کے لیے کیاہے  بہتر  راستہ؟۔خیر۔ریاست میں عدم استحکام کا ماحول ہے۔ایسے میں پی ڈی پی ۔جو کہ ریاست کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔اسے۔جلد سے جلد سنجیدہ فیصلہ لینے کی ضرورت ہے۔تاکہ عوام کے مسائل ضل ہوں۔اور ریاست بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔

Tuesday 2 February 2016

 مسلم وفد نے کی راج ناتھ سنگھ سے ملاقات

 HM Rajnath Singh meets Muslim clerics over IS influencing

ملک میں موجود بے چینی اور مسلم مسائل کو لیکر  مسلم وفد نے مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کی۔اس میٹنگ میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال بھی موجود تھے۔ایک گھنٹے  تک چلی اس ملاقات میں ۔مسلم رہنماؤں  نے حالیہ دنوں ملک میں ہو رہیں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں۔آئی ایس آئی ایس پر بڑھ رہی تشویش اور    اے ایم یو ، جامعہ کے ریزرویشن کے مسائل سمیت  مسلمانوں سے متعلق دیگر مسائل اٹھائے۔وفد نے اس بات پر  بھی زور دیا کہ  دہشت گردی کے نام پر یا آئی ایس آئی ایس کے نام پر کسی بے قصور کو گرفتار  نہ کیا جائے۔وفد نے اس ملاقات کے دوران مرکزی وزیر داخلہ کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرائی کہ دہشت گردی کے نام پر گرفتار ہونے کے بعد۔جو لوگ بے قصور ثابت ہوتے ہیں۔ایسے لوگوں کے لئے بھی میکانیزم وضع کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ ایسے لوگ سماج سے الگ تھلگ  ہو کر نہ رہ جائیں۔اس موقع پر مسلم وفد نے اس بات پر بھی زور دیا کہ  سوشل میڈیا کے غلط استعمال پر  قابو پایا جائے۔اور اس پر سختی سے نظر رکھی جائے۔تاکہ نوجوان نسل کسی کے بہکاوے میں نہ آئے۔مسلم وفد نے وزیر داخلہ سے اپیل کی کہ اقلیتوں کے لئے فلاحی اسکیموں پر دھیان دیا جائے۔جس سے انکی نشو نما بہتر دھنگ سے ہو۔مسلم وفد کی بات وزیر داخلہ نے بڑے اطمنان سے سنی اور  تمام مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی۔واضح رہے کہ گذشتہ رات مرکزی وزیر داخلہ نے ملک کی سیکورٹی ایجنسیوں کے افسران سے ملاقات کی تھی ۔اور کہا تھا کہ ملک میں آئی ایس آئی ایس  سے متعلق تمام خبر وں پر نظر رکھیں۔آئی ایس کے مسئلے پر مسلم  رہنماؤں نے پہلی بار وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کی ہے۔اور اس مسئلے پر سرکار کو ہر مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔اس وفد میں پندرہ مسلم رہنماشامل تھے۔لیکن۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس طرح کی ملاقات اور مذاکرات سے ۔مسلمانوں کے مسائل حل ہوں گے؟کیوں کہ اس سے پہلے بھی کئی مسلم وفود وزیر اعظم اور دوسرے وزرا سے ملاقات کر چکے ہیں۔کیا واقعی۔سرکار۔مسلم معاملات کو لیکر سنجیدہ ہوگی؟کیا واقعی بے قصور ثابت ہوئے مسلم نوجوانوں کے لئے سرکار کوئی میکانزم وضع کرے گی؟کہ بیرون ممالک میں مسلمانوں کے مسائل پر بولنے والے وزیر اعظم ۔ملک کے اندر بے روزگار مسلم نوجوانوں کی طرف دھیان دیں گے؟کیا اب۔مرکزی سرکار بھی ۔اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کے مسائل پر صرف کہنے تک ہی نہیں بلکہ عمل کر کے بھی دکھائے گی

Monday 1 February 2016

 آندھرا میں پولیس عہدیدار کی زہرافشانی

Tension in Nellore over 'burqa remark'

آندھرپردیش کے ضلع نیلور میں مقامی پولیس اسٹیشن کے ایس پی نے مسلم نوجوانوں کو کاؤنسلنگ کے لئے مدوع کیا تھا۔اس دوران ایس پی گجاراؤ بھوپل نے مسلمانوں کے خلاف کئی الزامات لگائے۔ایس پی نے مسلمانوں  کو دہشت گرد تک کہہ ڈالا۔ایس پی گجاا رؤ نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجرو ح کیا۔اور یہ سب کچھ اس پروگرام میں کیا گیا ۔جہاں ایس پی نے مسلم وفد کو کاؤنسلنگ کے لئے بلایا تھا۔دو دن قبل دہشت گردی کے خلاف بیداری سے متعلق ایک سیمنار میں ایس پی گجا راؤ نے مسلم نوجوانوں کی کثیر تعداد کو دیکھتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف انتہائی قابل اعتراض ریمارکس کئے تھے۔گجا راؤ نے کہا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے آبا و اجداد ہندو تھے۔مسلمان مرد کو داڑھی رکھنے اور ٹوپی پہننے کی ضرورت نہیں ہے۔انہیں اپنا لباس بھی تبدیل کرنا چاہئے۔اور انہیں بھی عام ہندوؤں کی طرح رہنا چاہئے۔مسلمان عورتیں برقعہ ترک کردیں۔ایس پی گجا راؤ نے مدارس بند کرنے پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ مدارس میں دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں۔اور اگر ایسا نہیں ہوا ۔تو دہشت گردی کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ایس پی نے آر ایس ایس کو حب الوطن تنظیم قرار دیا۔انہوں نے مسلم نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ ہندو دھارے میں شامل ہوجائےیں اوردہشت گردوں کے جال میں نہ پھنسیں۔اس طرح کے نا زیبا سلوک  اور بد کلامی پر علاقے کے لوگوں نے ایس پی گجاراؤ کے خلاف احتجاج کیا۔دھیرے دھیرے اس احتجاج نے کشیدہ صورتحال اختیار کرگیا ۔ برہم احتجاجیوں نے ون ٹاون پولیس اسٹینشن کا گھیراو کرنے کی کوشش کی ۔ احتجاجیوں کو روکنے کیلئے پولیس نے ہوائی فائرنگ کی ۔ مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرنے والے ایس پی کے خلاف  بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا ۔ حالات پر قابو پانے کیلئے خصوصی دستوں نے لاٹھی چارج کیا ۔ جس کے سبب چند افراد کے زخمی  بھی ہوگئے ۔ احتجاجیوں نےمسلمانوں سے عام معافی کا ایس پی سے مطالبہ کیا  ہے۔لیکن ایس پی گاجا راؤ اپنے بیان پر اٹل ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک  باوقار عہدے پر موجود۔افسر کے ذریعہ اس طرح کی حرکت سے سماج میں کیا پیغام جائے گا۔کیا اس طرح کے بیانات اور بد کلامی سے سماج کا تانا بانہ نہیں بگڑے گا؟ایم آئی ایم نے ایس پی کو جلد سے جلد ہٹانے کی درخواست کی ہے۔پارٹی کا کہنا ہے کہ ایس پی گاجا راؤ آر ایس ایس کے ایجنٹ ہیں۔سوال یہ  بھی اٹھتا ہےکہ سماج کے ایک طبقے کو۔منفی نظر سے دیکھنا۔کتنا درست ہے؟