مجلس اتحاد المسلین دوہزار سترہ کے یو پی اسمبلی انتخابات کے لئے تیار
Owaisi targets UP 2017 polls
ہندوستانی سیاست میں یہ بات مشہور ہے کہ دہلی کی گدی تک راستہ اترپردیش سے ہوکرجاتا ہے۔پچھلے عام انتخابات میں بی جے پی کی دھماکے دار کامیابی اس بات کی عمدہ دلیل ہے۔یعنی دلی پر راج کرنا ہے تو یوپی کو مضبوط کرو۔اترپردیش میں اسمبلی انتخابات ہونے میں اب ایک سال سے کم کا ہی وقت رہ گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ریاست میں انتخابی رنگ ابھی سےچڑھنے لگا ہے۔جہاں پارٹیوں نے اپنی حکمت عملی بنانا شروع کر دی ہے۔ وہیں تمام پارٹیوں کے بڑے لیڈران کے بیانات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔دوقومی جماعتوں اور دومضبوط علاقائی جماعتوں سمیت دیگرسیاسی پارٹیوں کی بھیڑ میں مجلس اتحاد المسلمین بھی شامل ہوگئی ہے۔ مجلس حیدرآباد سے نکل کر اترپردیش کا رخ کر رہی ہے۔اور اس نے مشن دو ہزار سترہ کی شروعات بھی کر دی ہے۔کل ایم آئی ایم چیف اسدالدین اویسی نے یوپی کے فیض آباد میں ایک ریلی سے خطاب کیااس ریلی میں اسد اویسی کو سننے کے لئے بڑی تعداد میں لوگ پہنچے ۔ اس موقع پر انہوں نے سماج وادی پارٹی اور بی جے پی پر جم کر نشانہ سادھا ۔ بہار کے بعد اب ایم آئی ایم یوپی میں اپنی قسمت آزما رہی ہے۔بہار میں تو ایم آئی ایم کھاتہ تک نہیں کھول سکی تھی۔۔الٹے پارٹی کو تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اب ایم آئی ایم یوپی میں سیند ھ لگانے کی تاک میں ہے۔کیوں کہ یوپی میں اسمبلی کی چار سو سے زائد سیٹیں ہیں۔جن میں سو کے قریب ایسی سیٹیس ہیں جہاں مسلم بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔اور اپنے دم پر کسی بھی امیدوار کی قسمت کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایم آئی ایم یوپی میں بڑا داؤ کھیلنے جا رہی ہے۔فی الحال اس کی نظر بیکا پور کی سیٹ پر ہے۔جہاں اسی ماہ ضمنی انتخاب ہونے والا ہے۔ایم آئی ایم اقلیت اور دلت ووٹ بینک پر فوکس کر سکتی ہے۔خیر۔یوپی میں دو ہزار سترہ کی جنگ کے لئے تمام پارٹیوں نے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔جس کی وجہ سے یوپی کی سیاست ابھی سے گرما گئی ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یوپی پر انتخابی رنگ چڑھنے لگا ہے؟کیا ابھی سے یوپی میں ووٹ بینک کی سیاست شروع ہوگئی ہے؟کیا تمام پارٹیوں کی نظر۔مسلم اور دلت ووٹ بینک پر لگی ہوئی ہے؟اورسب سے بڑھ کر سوال یہ کہ کیا۔ایم آئی ایم ۔یوپی میں علاقائی پارٹیوں کے لئے درد سر بن سکتی ہے؟
I agree with your view..
ReplyDeleteand yes nicely covered all aspects