Wednesday 24 February 2016

لاتور واقعہ پولیس محکمہ کے وجود پر سوال؟

LATUR MUSLIM POLICEMAN BEATEN AT DUTY

لاتور کے پان گاؤں میں ایک ایسا دردناک واقعہ پیش آیا جس نے پورے پولیس محکمہ کے وجود پر سوالیہ نشان لگادیا ہے ۔متنازعہ مقام پر بھگواپرچم لگانے سے منع کرنے پر شیخ یونس نامی پولیس اہلکار کومشتعل ہجوم نے نہایت بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر زخمی کردیا ۔دراصل لاتور کے پان گاؤں میں شیوجینتی کے موقع پرمشتعل ہجوم نے پولیس چوکی پر حملہ کردیا ۔جس میں دو پولیس اہلکار زخمی ہوگئے ۔شیخ یونس کا ساتھی پولیس اہلکار وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب رہا ۔لیکن ہجوم نے شیخ یونس کو پکڑ  لیا۔اور انکے ساتھ  نہایت بر بریت کا مظاہر ہ کیا۔شرپسندوں کی بھیڑ نے شیخ یونس کو جبرا بھگوا جھنڈا تھما دیا۔اور ان سے شیوا جی اور جے ماتا دی کے نعرے لگوائے۔بھیڑ نے شیخ یونس کے ساتھ مارپیٹ بھی کی ۔جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہو گئے ۔ادھر،اس معاملے پر محکمہ پولیس کی غفلت  پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔کیوں کہ جس وقت شیخ یونس کے ساتھ یہ سب ہو رہا تھا۔اس وقت پولیس موقعہ واردات پر کافی تاخیر سے پہنچی۔خیر۔دو دن بعد ہی صحیح۔مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے اس معاملے کانوٹس لیتے ہوئے کہا ہے۔کہ یہ معاملہ صرف ایک پولیس اہلکار کا نہیں بلکہ پورے پولیس محکمے کے لئے بڑا چیلنج ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری سرکار ایسے کسی بھی واقعہ کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔لیکن سوال یہ اٹھتا ہے۔ کہ اس معاملے کو تین دن گزر گئے ہیں۔لیکن اب تک اس معاملے میں کوئی کاروائی کیوں نہیں ہوئی؟ قصوروار  اب تک پولیس کی گرفت سے باہر کیوں ہیں؟اس پورے معاملے پر ریاست کی  اپوزیشن جارحانہ موڈ میں ہے۔کانگریس کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر سمیت پورے میں ایک خاص سوچ رکھنے والوں کی دہشت ہے۔این سی پی نے کہا کہ لاتور معاملہ ریاست کے لئے بڑا افسوسناک ہے۔وہیں شیخ یونس کی فیملی  اس حملے کے بعد ڈر و خوف کے ماحول میں ہے۔فیملی نے اس پورے معاملے میں پولیس کی کاروائی پر  بھی عدم اطمینان ظاہر کیا  ہے ۔شیخ یونس کی اہلیہ نے کہا پولیس محکمہ میں کام کرتے ہوئے انہیں آج یہ دن دیکھنا پڑے گا اس کا تصور بھی انہوں نے  نہیں کیا تھا ۔لیکن آج جن حالات سے انہیں گذرنا پڑرہاہے اس کے بارے میں  اب انہیں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔واضح رہے  کہ پان گاؤں میں ماضی میں بھی اس طرح کے دو سے تین واقعات پیش آچکے ہیں ۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس طرح کے واقعات بار بار کیوں پیش آتے ہیں۔کیا انتظامیہ ایسے معاملےپرآنکھ موند لیتی ہے؟ 

No comments:

Post a Comment