Thursday 4 February 2016


 بنگلورو میں تنزانیہ کی طالبہ پرحملہ

Mob strips Tanzanian girl

 بنگلورو میں تنزانیہ کی طالبہ کے ساتھ   کی گئی  بدسلوکی کا معاملہ  موضوع بحث ہے۔یہ معاملہ ایک ساتھ کئی سوال اٹھاتا ہے جن سے ہمارا سامنا ماضی  میں بھی ہوچکا ہے۔خاتون  کی ہراسانی۔سرعام زدوکوب کرنا۔بدسلوکی۔سلامتی اورتشدد یہ ساری  چیزیں بہ یک وقت بنگلورو معاملہ ہمارے سامنے لاتا ہے ۔مشتعل ہجوم کی برہمی  پشیمانی کا باعث ہے۔یہ حادثہ  تھا جنون کی انتہا۔یہ   محض غصہ تھا یا انتقامی کاروائی تھی یا کچھ اور۔یہ  ساری باتیں تحقیق کا موضوع ہیں۔ریاستی حکومت نے تحقیات کا حکم  بھی دے دیا ہے۔مرکز نے اس پورے معاملے پررپورٹ طلب کی ہے۔پانچ افراد کوگرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔ لیکن جو بنیادی سوال اٹھتا ہے کہ چند مشتعل لوگوں نے آخر قانون اپنے ہاتھوں میں کیوں لیا؟انھوں نے ایسا سوچ سمجھ کرکیا یا یہ سب کچھ بے ساختہ  اور فوری ہوا؟یہ انتقامی کاروائی تھی یانسلی امتیاز اس کی وجہ تھی؟اس واقعے سے پورے ملک میں سنسنی پھیل گئی ہے اوربیرون ملک کے طلبہ و طالبات میں عدم تحفظ کا احساس پہلے سے کہیں زیادہ شدید ہوگیا ہے۔ملک میں خواتین کے تحفظ کا معاملہ گاہے بگاہے سرخیوں میں رہتا ہے ۔غیرملکی  خواتین سیاحوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے معاملے بھی روشنی میں آتے رہتے ہیں لیکن کیا ہم نے ماضی کے ان  واقعات سے سبق نہ سیکھنے کا تہیہ کررکھا ہے؟ہم سے کہاں پر چوک ہورہی ہے؟کیادرد کا مداوا درد ہے؟کیا انسانیت کے چہرے کومسخ کرنا انسانیت ہے۔کیا صبر۔تحمل اوررواداری کے لیے ہمارے دامن تنگ ہوگئے ہیں؟



No comments:

Post a Comment