Tuesday 9 February 2016

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا

Noted Urdu Poet and Bollywood lyricist Nida Fazli passes away


کٹھ پتلی ہے یا جیون  ہےجیتے جاؤ سوچومت
سوچ سے ہی ساری الجھن ہے جیتے جاؤ سوچو مت
لکھا ہوا کردارکہانی میں ہی چلتا  پھرتا ہے
کبھی ہے دوری کبھی ملن ہے جیتے جاؤ سوچومت
بے فکری کا پیام دے کرفکرکی دعوت دیتے ہیں  ندا فاضلی۔سادگی کا پیکرندافاضلی  چھوٹی بحروں میں بڑی باتیں انتہائی سہل انداز میں کہتے ہیں۔انھیں سامعین اورقاری  کادل  موہ لینے کاہنرخوب  آتا تھا۔ان کے اشعارروزمرہ کی زندگی  میں رچے بسے ہیں   اورکچھ توضرب المثل بن گئے ہیں۔
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونہ ہے
مل جائے مٹی ہے کھو جائے توسونا ہے
اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہواؤں کا جدھرجا ہے ادھرکے ہم ہیں
اردو کی گنکا جمنی اقدارکے امین ندا فاضلی   کی شاعری  انسانیت ۔محبت ۔اخوت اورفکرانگیزی کی دعوت دیتی ہے ۔
گھرسے مسجدہے بہت دور
چلو یوں کرلیں کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
ندا فاضَلی نے  شاعری کے تقریبًا  سبھی اصناف میں طبع آزمائی کی۔انھوں نے دوہے بھی لکھے جوکافی پسندبھی کیے گئے۔ندا فاضَلی نے  فلمی نغمے بھی لکھے جوکافی مقبول ہوئے۔اردو کے ممتاز شاعر اورمعروف نغمہ نگارندا فضلی کے سانحہ ارتحال ہرای ٹی وی بھی سوگوار ہے۔

ندا فاضلی اردو شاعری کا ایسا نام تھا  جس نے اپنے منفرد اسلوب سے اردو شاعری میں اپنی شناخت بنائی تھی۔ آپ کا نام مقتدا حسن اور قلمی نام ندا فاضلی ہے۔ ندا کی پیدا ئیش با رہ اکتوبر انیس سو اڑتیس کو دہلی میں ہوئی تھی ۔حالانکہ ندا کا آبائی وطن ڈبائی اتر پردیش ہے۔ندا نے دہلی میں آنکھ کھولی لیکن ان کی تعلیم و تربیت گوالیار میں ہوئی ۔گوالیار میں ندا کی سکونت کا وجہ ان کے والد کی ملا زمت تھی ۔ندا فاضلی نے گوالیار سے پہلے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی بعدازآں انہوں نے وکرم یونیورسٹی اجین سےہندی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
اردو شاعری میں ندا فاضلی کا کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے  ۔ ندا نے جس وقت ہوش سنبھالا اس وقت ملک تقسیم کی آگ میں جھلس رہا تھا۔ انسانیت شرمسار ہو رہی تھی۔ ایسے وقت میں ندا فاضلی کا احساس بیدار ہوا اور انہوں نے اپنے احساس کے اظہار کے لئے  شاعری کا انتخاب کیا۔ندا نے محض تیرہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ ندا کو شاعری کا فن وراثت میں  ملا تھا۔ ندا کے والد دعا ڈبائیوی کا شمار اردو کے مقتدر شعرا میں ہوتا تھا۔ انیس سو پینسٹھ کا سال ندا فاضلی کے لئے کرب اور ذہنی الجھنوں کا تھا۔ ایک طرف ماں ،باپ،بھائی ،بہن اور دوسرے رشتہ دار تھے جو ملک سے ہجرت کر کے پاکستان میں سکونت اختیار کرنا چاہتے تھے دوسری جانب نداکا اپنا وجود اور وطن کی محبت تھی۔ندا کے والدین نے ترک وطن کر کے پاکستان میں سکونت اختیار کر لی لیکن ندا سے ہندستان نہیں چھوڑا گیا۔البتہ گوالیار سے والدین اور بھائی بہنوں کے ترک وطن کے بعد ندا نے بھی گوالیار کو خیر باد کہہ کر ممبئی میں سکونت اختیار کر لی اور ممبئی میں ہی زندگی کی آخری سانیس لیں۔
ندا فاضلی کی تعلیم و تربیت گوالیار مد ھیہ پردیش میں ضرورہوئی لیکن ان کی شاعری کو مقبولیت ممبئی میں آنے کے بعد حاصل ہوئی ۔ندا ممبئی میں غزل کے مزاج داں بن کر گئے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ممبئی  کے اہل فن نے انہوں نے نہ صرف انہیں قبول کیا بلکہ انہیں آنکھوں کا تارا بنا کر رکھا۔ندا کی شاعری صرف  عشق و عاشقی کی حد تک محدود نہیں تھی  بلکہ انکی شاعری میں ہمیں زندگی کے تلخ مسائل ،سماجی نا ہمواریاں، حکمراں طبقے کا تعصب،اور عام انسانوں کی کسمپرسی کا عکس بھی نظر آتا ہے ۔ندا ان فن کاروں میں سے تھے جنہیں نظم و نثر دونوں میں بات کہنے کا ہنر آتا تھا۔ندا فاضلی نے شاعری کے ساتھ  ناول نگاری،تحقیقی مضامین ،خاکے اور تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں ۔ندا نے جن شعری اصناف پر طبع آزمائی کی  ہے اس میں غزل،نظم، قطعات تو ہیں ہی انہوں نے اردو میں دوہے لکھ کر جو مقبولیت حاصل کی وہ ان کی زندگی کا  حاصل ہے ۔ندا کی جو شعری تخلیقات  منظر عام پر آچکی ہیں ان میں لفظوں کا پل ،مور ناچ،آنکھ اور خواب کے درمیان ،شہر تو میرے ساتھ چل کے نام قابل ذکر ہیں جبکہ ندا کی نثری تخلیقات میں ملاقاتیں،چہرے شاعروں کے نام قابل ذکر ہیں ۔ چہرے شاعروں کے اردو کے ممتاز شعرا پر لکھے گئے ندا کے خاکوں کا مجموعہ ہے ۔ندا کے دو ناول بھی شائع ہوئے ہیں جن میں دیواروں کے بیچ  اور دیواروں کے باہر کے نام قابل ذکر ہیں ۔
دیوناگری میں بھی ندا شاعری کے کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں جن میں مور ناچ،آنسو بھر آیا،کھویا ہوا سا کچھ اور سفر میں دھوپ تو ہوگی کے نام قابل ذکر ہیں ۔
ندا فاضلی کے فکر و فن پر بہت سے گوشے اور خاص نمبر بھی شائع ہوچکے ہیں ۔سہ ماہی انتساب نے انیس سو اٹھاسی میں ندا فاضلی پر خاص نمبر شائع کیا تھا جسے ادبی حلقوں میں بہت پسند کیا گیا تھا۔
ندا فاضلی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے پدم شری کے اعزاز سے سرفراز کیا تھا جبکہ مد ھیہ پردیش حکومت نے شکھر سمان اور مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے انہیں اپنے با وقار میر تقی میر اعزاز سے سرفراز کیا تھا۔
ندا فاضلی نے فلموں میں بھی بہت سے مشہور نغمے لکھے ہیں ۔ رضیہ سلطان،اس رات کی صبح نہیں،سرفروش،سر،آپ تو ایسے نہ تھے  جیسی فلموں میں ان کے نغمے بہت مشہور ہوئے۔ انہوں نے بہت سے ٹی وی سیریل کے لئے بھی نغمے لکھے ہیں جن میں  سیلاب ، نیم کا پیڑ،جانے کیا بات ہوئی،جیوتی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ندا کی غزلوں کو جگجیت  سنگھ ،کویتا کرشن مورتی اور دوسرے گلو کاروں نے بھی اپنی دلکش آواز میں گایا ہے ۔ ان کا یہ  نغمہ دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے ۔مل جائے تو مٹی ہے کھوجائے تو سونا ہے۔   یا یہ نغمہ۔۔تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے کے نام قابل ذکر ہیں ۔
ندا فاضلی نے صحیح لکھا ہے کہ تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے ۔۔۔۔ ندا آج ہمارے بیچ نہیں ہے لیکن وہ اپنی تحریروں اور شاعری سے ہمارے ذہن ودل میں اس طرح سے رچ بس گئے ہیں جنہں صدیوں فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔۔

No comments:

Post a Comment