Friday 29 January 2016
Thursday 28 January 2016
یوپی میں چڑھنے لگا انتخابی رنگ؟
What's Brewing In Uttar Pradesh?
اترپردیش ہمیشہ ہی ۔ملک میں سیاست کا محور رہا ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے۔کہ دلی پر راج کرنا ہے تو یوپی کو مضبوط کرو۔اترپردیش میں اسمبلی انتخابات میں اب ایک سال سے کم کا ہی وقت رہ گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ریاست میں انتخابی رنگ ابھی سےچڑھنے لگا ہے۔جہاں پارٹیوں نے اپنی حکمت عملی بنانا شروع کر دی ہے۔تو وہیں تمام پارٹیوں کے بڑے لیڈران کے بیانات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ان دنوں سماج وادی پارٹی سپریمو ملائم سنگھ یادو اور بہوجن سماج پارٹی صدرمایاوتی ۔اپنے بیانوں کو لیکر سرخیوں میں ہیں۔خاص کر ملائم سنگھ ۔کارسیوک اور پھر دادری معاملے پربیانات دیکر۔عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا رہے ہیں۔ملائم سنگھ نے دادری معاملے پر کہا کہ اس معاملے میں تین بی جے پی لیڈر مبینہ طور ملوث ہیں ۔اور اگر وزیراعظم کہیں تو اس کے لئے ثبوت بھی پیش کردیں گے۔اس بیان کے بعد چہار جانب سے ردعمل اور ریکشن کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ملائم سنگھ کے اس بیان کے پیچھے سچائی کیا ہے۔کیا ملائم سنگھ ووٹ بینک کی سیاست کر رہے ہیں۔یہ اس کے ذریعہ وہ ایک مخصوص طبقے کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کے بیان میں کتنی سچائی اور دم ہے۔یہ تو وہی جانتے ہیں۔لیکن اس بیان نے یوپی کی سیاست گرما دی ہے۔وہیں آج بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے پریس کانفرنس کر مرکزی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔لکھنؤ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مایا وتی نے کہا کہ مرکزی حکومت کی سوچ ذات پات پر مبنی ہے اور دلتوں کا استحصال کر رہی ہے۔مایا وتی نے اس موقع پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کو لیکر بھی مرکزی سرکار کی نیت پر سوال اٹھائے۔خیر۔ان دونوں لیڈران کے بیان اپنی جگہ۔ان بیانوں سے یوپی کی سیاست گرما گئی ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یوپی پر انتخابی رنگ چڑھنے لگا ہے؟کیا ابھی سے یوپی میں ووٹ بینک کی سیاست شروع ہوگئی ہے؟کیا تمام پارٹیوں کی نظر۔مسلم اور دلت ووٹ بینک پر لگی ہوئی ہے؟
Wednesday 27 January 2016
جدید دور میں خواتین کے ساتھ ایسا سلوک کیوں؟
Shani Temple Dispute Over Women
ہندوستان میں خواتین کے مسائل ہر دور میں رہے ہیں۔کبھی ستی کا مسئلہ تو کبھی شادی اور طلاق کی بحث اور کبھی مندروں اور عبادت گاہوں میں پوجا پاٹ کو لیکر تکرار۔یعنی سماج میں خواتین کو لیکر ہمیشہ ہی ایک بحث بنی رہتی ہے۔کبھی درگاہوں میں خواتین پرپابندی کی بات کی جاتی ہے ۔تو کبھی مندروں میں داخلے پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔حالیہ دنوں میں مہاراشٹر کے احمد نگر میں واقع شنی مندر میں پوجا کو لیکر خواتین شردھالووں اور مندر انتظامیہ میں ٹھنی ہوئی ہے۔احمد نگر ضلع میں واقع شنی شنگنا پور مندر میں خواتین کے داخلے پر پابندی کو لے کر ایک بار پھر احتجاج کیا گیا۔منگل کوبھوماتا بریگیڈ کی صدر تپتی دیسائی کی لیڈرشپ میں یہاں خواتین نے جم کر احتجاج کیا اور مندر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ جبکہ مندر انتظامیہ اور گاؤں والوں نے احتجاجی خواتین کو روکنے کی کوشش کی۔ پہلے سے ہی بڑے پیمانے پر پولیس فورس تیعنات کی گئی تھی۔ہجوم کے آگے بے بس خواتین نےراستے میں احتجاج کرتے ہوئے بھجن کیرتن شروع کردیا۔واضح رہے کہ شنی شنگنا پور مندر میں خواتین کے داخلے پر پابندی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ یہ روایت گزشتہ چار سو سال سے چلی آرہی ہے۔مندر انتظامیہ نہیں چاہتی کہ خواتین مندر میں داخل ہوں اور پوجا کریں۔واضح رہے کہ نومبر ماہ میں ایک خاتون شنی مندر میں داخل ہوگئی تھی۔جس پر کافی ہنگامہ ہوا تھا۔اور بعد میں مندر کے پجاریوں نے اس مندر کی دودھ اور تیل سے شدھی کی تھی۔ادھر معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مہاراشٹر کے وزیر اعلی دیویندر فڑنویس نے خواتین کی مندر میں داخلے اور پوجا کی حمایت کی ہے۔وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ اس معاملے کو بات چیت سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ادھر ۔بھوماتا برگیڈ کی خواتین بھی اس معاملے پر بات چیت کے لئے تیار ہیں۔لیکن سوال یہ اٹھتا ہے۔کہ ترقی کے اس دور میں بھی خواتین کے ساتھ یہ سلو ک کیوں ہے؟کیا خواتین کو ہر مذہبی جگہ پر عبادت کا حق ملنا چاہئے؟کیا خواتین کو بھی مردوں کے مقابلے اصل دھارے میں لانے کی ضرورت ہے؟سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جب سماج کے ہر حصے میں خواتین ۔مردوں کے مقابلے شانہ بشانہ کھڑی ہو سکتی ہیں۔تو پھر مندروں اور عبادت گاہوں میں پوجا اور درشن کو لیکر واویلا مچانے کی ضرورت کیا ہے؟یہ معاملہ صرف مہاراشٹر اور شنی مندر کا ہی نہیں ہے۔ایسی ہی خبر چھتیس گڑھ کےرائے پور سے بھی آئی ہے۔جہاں ایک مندر میں خواتین کے داخلے پر پابندی عائد ہے۔یعنی اس طرح کے مسائل سے خواتین ملک کے کئی حصوں میں گذر رہی ہیں۔اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے
Tuesday 26 January 2016
ہمیں منزل ملی یا ہم ہنوزسفر پر ہیں؟
India celebrates 67th Republic Day
ملک آج اپنا سڑسٹھواں یوم جمہوریہ منا رہا ہے۔قومی راجدھانی دہلی میں شاندار تقریب منعقد ہوئی۔پورا ملک جشن میں ڈوبا ہے۔ہمارا ملک ہندوستان اگرچہ پندرہ اگست انیس سو سینتالیس کو برطانوی تسلط سے آزاد ہو گیا تھا، لیکن اسے اپنا آئین آج ہی کے دن سن انیس سو پچاس کوملا۔اس اعتبار سے یوم آزادی کے بعد آزادہندوستان کی تاریخ میں چھبیس جنوری انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ سوراج کی جانب یہ ایک اہم اور بڑاقدم تھا۔جس کاخواب ہمارے رہنماؤں نے دیکھا تھا ۔اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا قید و بند کی صعبوتیں جھلیں اورخون جگر سے اس گلستاں کی آبیاری ہوئی۔ ہمارا دنیا کے مختلف ممالک کے آئین کی خصوصیات کا مجموعہ ہے۔ آئین کی تمہید کا آغاز ہی وی دا پیپل سے ہوتا ہے۔آئین نے شہریوں کو خود کئی حقوق دیئے ہیں۔ان میں سب سے بڑا حق حکومت چننے کا حق ہے۔یعنی عوام کے لیے عوام کے ذریعہ چنی ہوگئی سرکار۔دستور نے پارلیمانی طرزکی جمہوریت کے سامنے کابینہ کواپنے فیصلے، قانون سازی اور اپنی پالیسی کے لیے جوابدہ بنایا ہے اور تمام باشندے بلاتفریق مذہب و ملت ’’ایک مشترکہ جمہوریت‘‘ میں پرو دیے گئے ہیں۔ دستورکی 42 ویں ترمیم کی روسے اسے سیکولر اسٹیٹ کہا گیا ہے، جہاں ہر مذہب کا احترام ہوگا اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہیں کیاجائے گا۔ مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر کسی شہری کو شہریت کے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ۔ آئین کی رو سے ہر ہندوستانی قانون کی نگاہ میں برابر ہے۔ ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی ہے۔ اقلیتوں کو بھی دستور میں ان کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علیحدہ تعلیمی ادارے قائم کریں، اپنی شناخت وتشخص کو قائم رکھیں ۔ ملک کی کثرت میں وحدت کی بقا اور جمہوری اقدارکے فروغ کے لیے یہ اصول کافی ہیں، لیکن زمینی حقیقت اس سلسلہ میں ہمیں کچھ اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ ان قوانین کا کتنا احترام کیا جا رہا ہے؟ قانون کی بالادستی ہے یادستورکی پامالی؟ قانون کی حکمرانی ہے یاقانون بے چارہ؟
’’مثالی جمہوری ملک‘‘ بنانے کے لیے مثبت فکر کے ساتھ ہمیں بہ حیثت ہندوستانی مزید اور کیا اور کس سمت میں کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ پالیسیاں اور قوانین، آسانیاں پیدا کرنے کے لیے بنائی جائیں، نہ کہ دشواریاں پیدا کرنے کے لیے۔ قانون کی بالادستی ہو، اس کا احترام سبھی کے دلوں میں ہو، قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس کے نفاذ کے لیے بھی سختی کی جائے اور جمہوری قدروں کوفروغ دیاجائے، تبھی عوام کے دلوں میں ان جمہوری اداروں کا وقار پھر سے بحال ہو سکے گا، ورنہ جمہوریت پسند ہونے کا دعویٰ بے معنیٰ ہوگا۔
Monday 25 January 2016
مسلم نوجوانوں کی گرفتاری سے مسلم طبقے میں بے چینی
NIA arrests suspected Islamic State
ملک کے مختلف حصوں سے مسلم نوجوانوں کوآئی ایس اور القاعدہ سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ان گرفتاریوں سے ملک کامسلم طبقہ بے چین اور پریشان ہے۔زیادہ تر گرفتاریاں۔سوشل میڈیا کے فعال رہنے کی وجہ سے عمل میں آئی ہیں - اس معاملے کو لیکر اب مسلم مذہبی اور سیاسی رہنما کئی سوال کھڑے کر رہے ہیں ۔مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پہلے بھی مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں ہوتی رہیں ہیں۔ لیکن حال کے دنوں میں جس طرح سے ایک کے بعد ایک گرفتاری ہوئی ہے اس سے ملک کے مسلمان بیچین ہیں۔ملک کےمختلف مقامات پر ہوئی مشتبہ افراد کی گرفتاریوں کے مسئلےپرسابق مرکزی وزیرسی کے جعفرشریف نے وزیراعظم نریندرمودی کو خط لکھا ہے۔ جعفرشریف نےکہاہےکہ اقلیتی طبقہ دہشت گردوں یا دہشت گردی کی ہرگزتائیدنہیں کرتا۔ لیکن شک وشبہات کی بنیاد پرہورہی گرفتاریوں سے اقلیتی طبقہ پریشان ہے۔ اوراس طبقے کا حوصلہ پست ہورہاہے۔واضح رہے کہ این آئی اےنے کاروائی کرتے ہوئے ملک کی مختلف ریاستو ں میں مشتبہ دہشت گروں کو گرفتارکیاہے۔ان گرفتاریوں کے بعد اقلیتی طبقہ تشویش کا اظہار کررہاہے۔جعفرشریف نے کہاکہ ملک اور ملک کے عوام کی حفاظت کرنااین آئی اے کی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کواین آئی اے بخوبی انجام دے رہی ہے۔دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اصل مجرموں تک پہونچناضروری ہے۔ لیکن شک وشبہات کی بنیاد پرگرفتاریاں ایک مخصوص طبقے کیلئے پریشانی کا سبب بن گئی ہیں۔ادھراترا کھنڈ کے روڑکی کے مدرسوں میں موبائل فونس کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔ احکامات کی خلاف ورزی پر تادیبی کاروائی کی جارہی ہے۔حال ہی میں آئی ایس سے روابط کے شبے میں کچھ مسلم لڑکوں کی گرفتاری کے بعد یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ گرفتار افراد پر سوشیل میڈیا کے غلط استعمال کا الزام ہے این آئی اے کے ملک گیر کریک ڈاؤن کے دوران آئی ایس تنظیم سے روابط کے الزام میں گرفتار یوں کے بعد مدرسوں میں خوف و دہشت کا ماحول ہے۔ نوجوان مسلم بچوں کو موبائیل فونس سے دور رکھنے پر زور دیا جارہا ہے۔ مدارس میں موبائل فون پر پابندی کا سختی سے نفاذ کیا جارہا ہے۔ اس پیشرفت پر مختلف حلقوں میں ملا جلا رد عمل دیکھا جارہا ہے۔ زیادہ تر افراد اپنے بچوں کے مستقبل کو لیکر کافی تشویش میں مبتلاء ہیں اور بیشتر موبائل پر پابندی کی تجویز پر راضی ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے سے جدید دنیا کی حقیقت سے محروم مدرسوں کے طلباء پر موبائل کی پابندی عائد کرنے کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں ۔ طلباء کے استحصال کا بھی خدشہ ہے۔نوجوانوں کی گرفتاریوں کے معاملے کو لے کر مسلم سیاسی لیڈر بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ ملک کے وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں میں آئی ایس کو لے کر کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔لیکن ایک کے بعد ایک مسلمانوں کو اسی الزام میں گرفتار کیا جا رہا ہے،ایسی گرفتاریاں پہلی بار نہیں ہوئیں ہیں ، بلکہ سالوں سے ایسا ہوتا رہا ہے، لیکن ایسے نوجوانوں کی بھی کمی نہیں جنہیں دہشت گردی کے شک میں گرفتار تو کیا جاتا ہے لیکن سالوں بعد عدالت میں وہ بےقصور ثابت ہو جاتے ہیں - ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ ، سالوں جیل میں گزارنےکے بعد ایسے افرادکی زندگی برباد ہوچکی ہوتی ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان کا ماضی کون لوٹائے گا؟
Tuesday 19 January 2016
وطن میں ہی بے وطن ہیں کشمیری پنڈت
Kashmiri Pandit :26 years of exile
وادی کشمیر دلفریب نظاروں۔خوشنما موسم کے لئے جانی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کشمیر کو زمین پر جنت کا درجہ حاصل ہے۔اس سے بڑھ کر وادی کشمیر اپنی روایت۔بھائی چارے اورخاص کر کشمیریت کے لئے جانی جاتی ہے۔کشمیر میں اکثریت اور اقلیت دونوں طبقوں کے لوگ ساتھ ساتھ رہتے تھے۔لیکن کشمیر کی ان خوبیوں کواس وقت ۔ کسی کی بری نظر لگ گئی۔جب انیس سو نوے میں جنوری ماہ میں کشمیری پنڈتوں پر مظالم کا ایک پہاڑ ٹوٹا۔کشمیر میں پنپ رہی دہشت گردی اور ملی ٹنسی نے پنڈت برادری کو پریشان کرنا شروع کر دیا ۔اور انیس سو نوے کے جنوری ماہ میں تین لاکھ سے زیادہ کشمیری پنڈتوں کو اپنا گھر بار۔مال مویشی۔کھیت کھلیان۔زندگی بھر کی کمائی ہوئی دولت ۔سب چھوڑچھاڑ کر راتوں رات ۔وادی کو چھوڑ کر نکلنا پڑا۔ملی ٹنٹوں نے باقاعدہ اعلان کر دیا کہ کشمیر میں رہنا ہے۔تو انکی شرائط پر ہی زندگی گذارنی ہوگی۔یعنی ملی ٹنٹوں نے ایک طرح سے کشمیری پنڈتوں پر زندگی تنگ کر دی تھی۔اسی سال کشمیر میں کئی پنڈتوں کے بہیمانہ قتل بھی کئے گئے۔گھر جلا دیئے گئے۔ان کو خوفزدہ اور ہراساں کر کے وادی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ۔خیر۔کشمیری پنڈتوں کو اپنا وطن۔اپنا گھر ۔اور اپنی زمین چھوڑے ہوئے چھبیس سال مکمل ہوگئے ہیں۔لیکن ان چھبیس سالوںمیں ان لوگوں کو کس درد و کرب سے گذرنا پڑا رہا ہے۔اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔اور ان کے نام پر ملک اور ریاست میں صرف سیاست ہی ہو رہی ہے۔ان سے انتخابات میں بڑے بڑے وعدے تو کئے جاتے ہیں۔پر یہ وعدے کبھی وفا نہیں ہوتے ہیں۔ان کے مسائل کی طرف کسی بھی حکومت نے دھیان نہیں دیا۔
Monday 18 January 2016
روہت کی خود کشی ۔کیا یہ اپر اور لوور کاسٹ سیاست کا نتیجہ ہے؟
Dalit student commits suicide
یونیورسٹی طلبا کے مسائل ہر دور میں رہے ہیں۔اور خاص کر پچھڑے۔دلت اور کمزور طبقوں سے آنے والے طالب علموں کے ساتھ امتیازی سلوک حتی کے تشدد کی خبریں سرخیوں میں آتی ہیں۔اتوارکے روز حیدرآباد یونیورسٹی میں ایک دلت طالب علم نے یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ہی پھانسی لگا کر خوکشی کر لی۔اس دل دہلا دینے والے واقعے پر کئی طرح کے سوال اٹھ رہے ہیں۔یاد رہے کہ خود کشی کرنے والے طالب علم روہت کو یونیورسٹی انتظامیہ نے ہاسٹل سے باہر نکال دیا تھا۔جس کے بعد سے ہی روہت تنبو لگا کر کیمپس کے باہر ہی رہ رہا تھا۔روہت اور اسکے چار ساتھیوں پر ہاسٹل میں داخل ہونے پر پابندی عائد کردی گئی تھی ۔ در اصل روہت اور اسکے چار ساتھی امبیڈکر یونین کے ممبر تھے۔جن پر بی جے پی کی اسٹوڈنٹ ونگ اے بی وی پی کے ایک ممبر پر حملہ کرنے کا الزام تھا۔حالاں کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے روہت سمیت پانچوں اسکالرس کو ابتدائی جانچ کے بعد بے قصور قرار دیا تھا۔لیکن بعد میں جب مرکزی وزیر بنڈارو دتا تریہ نے مرکزی وزیربرائے فروغ انسانی وسائل اسمرتی ایرانی کو خط لکھا۔تو انتظامیہ نے اپنا فیصلہ پلٹ دیا تھا۔خیر۔اب اس معاملے کو لیکر کئی طرح کی باتیں گشت کررہی ہیں ۔سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا یونیورسٹی میں دلت طلبا کو ذات پات اور اگڑے پچھڑے کی بنیاد پر یشان کیا جا تا ہے؟کیا یونیورسٹی انتظامیہ اس کے لئے ذمہ دار ہے؟سوال اس لئے بھی اٹھنا لازمی ہیں کیوں کہ اس طرح کا معاملہ دلت طلبا کے ساتھ نیا نہیں ہے۔اس سے پہلے تمل ناڈو میں دلت اسٹوڈنٹس کی ایک تنظیم پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔اسی طرح کانپور میں بھی ایک انسٹی ٹیوشن میں ایک دلت نے اپر کاسٹ کے طلبا کے ذریعہ پریشان کئے جانے کے بعد خود کشی کر لی تھی۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاٹھ شالہ میں بھی سیاست سرایت کر رہی ہے۔؟ اب اس معاملے کو لیکر سیاست بھی گرما رہی ہے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر بنڈارو دتا تریہ کے خلاف ایس سی ایس ٹی کے تحت معاملہ درج کر لیا گیا ہے۔اس معاملے کو لیکر دہلی میں مرکزی وزیر تعلیم اسمرتی ایرانی کے گھر کے باہر بھی طلبا نے احتجاج کیا۔اس کے علاوہ ملک کے کئی حصوں میں اس معاملے کو لیکرطلبا میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ادھر۔ایچ آر ڈی منسٹری نے اس معاملے کو لیکر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھی بنانے کی بات کہی ہے۔
Thursday 14 January 2016
دھماکوں سے دہل اٹھا جکارتہ
Series of blasts hit Indonesian capital Jakartaدنیا میں کہیں بھی دہشت گردانہ حملے ہوں۔شک کی سوئی آئی ایس آئی ایس کی طرف ہی گھومتی ہے۔یعنی آئی ایس کے نام سے پوری دنیا میں دہشت ہے ۔کیا شام۔کیا عراق اور کیا دنیا کے دوسرے ممالک ۔جہاں جہاں حالیہ دنوں میں خونی کھیل کھیلا گیا۔وہاں وہاں آئی ایس کا ہی ہاتھ ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا۔آئی ایس نے دنیا بھر کے ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔آج پھر دہشت گردوں نے انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کو نشانہ بنایا۔اور جکارتہ ان سلسلہ وار دھماکوں سے دہل اٹھا۔مختلف مقامات پر یہ دھماکے کئے گئے۔ شدت پسندوں نے اقوام متحدہ کے دفتر کو بھی نشانہ بنایا۔اس کے علاوہ ایک سنمیا ہال کیفے کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ مرکزی کاروباری علاقے میں دہشت گردوں کی طرف سے بم دھماکوں اور بندوقوں سے حملوں کے بعد عوام میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ ابھی تک کسی بھی تنظیم نے حملوں کی ذمہ داری نہیں قبول کی ہے تا ہم پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی طرف سے حملے کا ایک خفیہ پیغام ملا ہے جس کی جانچ جاری ہے۔خیال رہے کہ ماضی میں بھی اسلام پسند مسلم تنظیموں کی جانب سے انڈونیشیا میں حملے ہوتے رہے ہیں۔جکارتہ میں سنہ دو ہزار نو میں میریٹ اور رٹز ہوٹل میں ہونے والے حملوں کے بعد یہ پہلا بڑا حملہ ہے۔ذرائع کے مطابق جکارتہ پولیس کا کہنا ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے ممکنہ حملے کے بارے میں خدشات تھے لیکن حالیہ حملہ گذشتہ حملوں کے مقابلے میں بالکل مختلف نوعیت کا ہے۔انڈونیشیائی پولیس نے حملے کے پیچھے آئی ایس کا ہاتھ ہونے کی بات کہی ہے۔خیر۔ان دھماکوں نے چھبیس گیارہ اور پیرس دھماکوں کی یاد تازہ کر دی۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ دہشت گردی کے بڑھتے دائرے کو آخر کیسے روکا جائے۔کیا آئی ایس جیسی نام نہاد دہشت گرد تنظیموں سے نمٹنے کے لئے عالمی اتحاد ضروری ہے؟
کسانوں پر مہربان ہوئی مرکزی سرکار
Kisan bima yojna
گذشتہ دو سال ملک کے کسانوں کے لئے اچھے نہیں رہے۔سال دو ہزار چودہ اور پندرہ کسانوں کے لئے مایوس کن رہے۔ان دونوں سالوں میں جہاں بارش نے کسانوں سے بے وفائی کی تو وہیں سرکاروں نے بھی بہت زیادہ اقدامات نہیں کئے۔ملک کی تقریبا ہر ریاست سے کسانوں کی خودکشی کی دل دہلا دینے والی خبریں آئیں۔اور اس کا سلسلہ ابھی بھی تھما نہیں ہے۔کسان اس کے لئے جہاں ایک طرف موسمی حالات کو ذمہ دار مانتے ہیں۔وہیں کسان نے اپنی بدحالی کے لئے سرکاروں اور انتظامیہ کو بھی اتنا ہی قصوروار مانتے ہیں۔کسانوں کا کہنا ہے کہ انکی زبوں حالی سب کے سامنے ہے۔پھر بھی موجودہ حکومتوں نے کسانوں کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔خیر۔یہ باتیں اب ماضی کی کہی جائیں گی۔اب ملک کے کسانوں کے اچھے دن آنے والے ہیں۔جس کے لئے مرکزی سرکار نے ایک طرح سے پہل بھی کر دی ہے۔جی ہاں۔کسانوں کے لئے مرکزی سرکار مہربان ہوگئی ہے۔سرکار نے کسانوں کے لئے ایک نئی پردھان منتری فصل بیما یوجنا کو منظوری دیدی ہے۔جس کے تحت اب کسان کے لئے اناج اور تلہن فصلوں کے لئے دو فیصد اور ہارٹی کلچر اور کپاس کے لئے پانچ فیصد تک کا پریمیم رکھا گیا ہے۔یعنی ۔اب کسان۔بے فکر ہوکر فصل اگا سکتے ہیں۔کیوں کہ نقصان کی شکل میں سرکار اس کی بھر پائی کرے گی۔لیکن ۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ۔یہ سب اتنا آسان ہے۔جتنا لگتا ہے؟یا سرکار کا یہ قدم دیر سے اٹھایا گیا قدم ہے؟اور سب سے بڑھ کر ۔یہ کہ کیا اب ملک کے بدحال۔پریشان۔غریب ۔لاچار۔کسان۔خوشحال ہو جائیں گے؟
Tuesday 12 January 2016
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر حکومت کا یوٹرن
Government shifts stand, against minority tag for Aligarh Muslim University
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے معاملہ کو لیکر کئی بار سوال اٹھ چکے ہیں۔ کہ اے ایم ایو اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں؟اقلیتی اسٹیٹس کو لیکر گذشتہ روز سپریم کورٹ میں ہوئی سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے اپنی اپیل کو واپس لینے کو کہا۔اس معاملے پر علیگ برادری میں سخت بے چینی دیکھی جارہی ہے ۔جہاں لوگ اسے ایک سوچی سمجھی سازش قرار دے رہے ہیں وہیں طرح طرح کے سوالات بھی کھڑ ے ہورہے ہیں۔ کہ آخر اس طرح حکومت کا موقف کیسے تبدیل ہوسکتا ہے ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے تئیں مودی حکومت کا نظریہ اس وقت سامنے آیا جب اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے سماعت کے دوران حکومت کی طرف سے داخل کی گئی پٹیشن کو واپس لینے کو کہا اور الہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے یونیورستی کے خلاف سنائے گئے فیصلے کو جائز قرار دیا ،حالانکہ بی جے پی کی جانب سے لیا گیا یہ فیصلہ حیرت انگیز نہیں ہے کیونکہ اے ایم یو اقلیتی کردار کے مسئلہ پر انکا موقت پہلے سے ہی واضح تھا لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اپناموقف اچانک اس طرح تبدیل کر سکتی ہے؟ادھرمرکز ی حکومت کے اس یوٹرن نے جہاں علیگ برادری کو ایک بار پھر سے سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے نئی حکمت عملی کیا اختیار کی جائے اورآگے کی لڑائی اب سوچ سمجھ کر لڑنی ہوگی ۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا حکومت کے اس موقف نے نئی بحث کا آغاز کردیا ہے کہ حکومت کے زیر انتظام ادارے اقلیتی ادارے کیسے ہوسکتے ہیں؟ پرائیوٹ ادارے یا پھر مدد یافتہ ادارہ کو اقلیتی ادارے ہوسکتے ہیں لیکن حکومت کے زیر انتظام چلنے والے ادارہ کس طرح مائنارٹی ہوسکتے ہیں یہ تو اب سپریم کورٹ کو ہی طے کرنا ہے اقلیتی کردار کی بحالی کا معاملہ جب الہ آباد ہائی کورٹ میں پہنچا تھا وہاں سنگل اور ڈبل دونوں بینچ نے یہ فیصلہ سنایا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ نہیں ہے اس کے خلاف اے ایم یو انتظامیہ اور مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز جیسے فریقین کی جانب سے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی گئی تھی لیکن حکومت نے اپنا رخ صاف نہیں کیا تھا ۔بعد میں اے ایم یو کے طلباء قدیم نے وزیر آعظم منموہن سنگھ سے ملکر مطالبہ کیا تھا۔جس کے بعد مرکزی حکومت کی جانب سے بھی پٹیشن داخل کی گئی تھی ۔لیکن اب مرکز کی مودی حکومت نے اپنی پٹیشن واپس لیتے ہوئے کہا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہوسکتا ہے۔ آئندہ 4 اپریل کو سپریم کورٹ میں مذکورہ مقدمہ کی سماعت ہونی ہے،سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی اس مسئلہ میں حتمی ہوگا۔
Monday 11 January 2016
جموں و کشمیر میں سیاسی غیر یقینی
Political suspense in J&K
ریاست جموں و کشمیر میں وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد سیاسی غیر یقینی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔کیوں کہ سب کا کا خیال تھا کہ مفتی سعید کے بعد انکی بیٹی محبوبہ مفتی ہی ریاست کی اگلی وزیر اعلیٰ ہوں گی۔اور مفتی سعید بھی یہی چاہتے تھے کہ ان کی سیاسی باگ ڈور ۔انکی بیٹی محبوبہ مفتی ہی سنبھالیں ۔سب کو اس بات کا انتظار تھا کہ محبوبہ ۔اب کسی بھی وقت وزیراعلیٰ کا حلف لے سکتی ہیں۔لیکن ۔ایسا نہیں ہوا۔اور یہی سسپنس ۔عوام کو حیران کر رہا ہے۔کہ آخر۔سرکار بنانے اور وزیر اعلیٰ کا حلف لینے میں محبوبہ اتنا وقت کیوں لگا رہی ہیں۔ مرحوم مفتی سعید کے چہارم کے موقع پر کانگریس صدر سونیا گاندھی بھی مفتی خاندان کی رہائش گاہ پہنچیں۔اور مرحوم مفتی سعید کو خراج عقیدت پیش کیا۔سونیا گاندھی اور محبوبہ مفتی کی اس ملاقات کو بھی سیاسی گلیاروں میں سیاسی نظر سے ہی دیکھا جانے لگا۔اس ملاقات پر سوال اٹھے کہ کیا محبوبہ مفتی ریاست میں نئی سرکار بنانے کے لئے کانگریس کے ساتھ جا سکتی ہیں ؟تو دوسری طرف یہ خبر بھی گرم ہوئی کہ اب بی جے پی اپنی شرطوں پر ہی ریاست میں حکومت قائم کرے گی۔اور کابینہ اور وزارت میں مزید کچھ اور قلمدانوں کی مانگ کر سکتی ہے۔یا وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لئے تین تین سال کی شرط بھی رکھ سکتی ہے۔خیر۔یہ سب خبریں گرم ہوئیں۔محبوبہ مفتی کے جلد حلف نہ لینے کی وجہ سے۔اب دیکھنا یہ دلچسپ ہوگا ۔کہ ریاست میں سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟اور ریاست کی سیاسی غیر یقینی سے دھند کب چھٹتی ہے؟کیا ریاست کی غیر یقینی سیاست میں کانگریس بھی اپنی جگہ تلاش کر رہی ہے؟یا بی جے پی اس غیر یقینی صورتحال کا سیاسی فائدہ اٹھا پائے گی؟واقعی دیکھنا دلچسپ ہوگا۔
Sunday 10 January 2016
Saturday 9 January 2016
<iframe width="854" height="480" src="https://www.youtube.com/embed/6oprrJ9t1DE" frameborder="0" allowfullscreen></iframe>
India,2015 Sports Year in Review
<iframe width="854" height="480"
src="https://www.youtube.com/embed/6oprrJ9t1DE" frameborder="0"
allowfullscreen></iframe>
https://www.youtube.com/watch?v=6oprrJ9t1DE
Aamir Khan brand ambassador incredible India row
عامر کو عدم رواداری پر بولنا مہنگا پڑا؟
عامر خان۔بالی ووڈ کا ایسا نام ۔جو ہمیشہ اپنے کام اور کام کے تعلق سے اپنے ڈیڈی کیشن کے لئے جانے جاتے ہیں۔عامر کی فلموں کا لوگوں کو بے صبری سے انتظار رہتا ہے۔فلم اور فلم سے پرے ۔عامر کی ہر بات اور ہر سرگرمی پر میڈیا کی نظر ہوتی ہے۔مسٹر پرفکشنسٹ کی بات ہی نرالی ہے۔عامر ۔ان چند اداکاروں میں ہیں۔جن کی ہر بات لوگ بڑے دھیان سے سنتے ہیں۔اور عامر سماجی اور قومی سروکاروں سے جڑی باتوں پر اپنے خیالات کا بر ملا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔وہ چاہے۔نرمدا بچاؤ تحریک ہو یا دیگر معاملے۔عامر خان اپنے خیالات کااظہار کرنے سے کبھی ہچکچائے نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ملک میں عدم رواداری کو لیکر جو بحث چھڑی تھی۔ اس کڑی میں عامر خان کا نام بھی جڑ گیا تھا۔عامر خان نے ملک میں بڑھ رہے عدم رواداری کے معاملے پر اپنی رائے دی تھی۔جس کے بعد عامر خان کی چہار جانب سے مذمت کی گئی تھی۔خیر۔عامر خان ۔ملک میں کئی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے سفیر ہیں۔کل اچانک مرکزی حکومت کی ٹوریزم منسٹری سے عامر کی سفیر کے عہدے سے چھٹی کی خبر آئی۔کہ اداکارعامر خان کو انکریڈیبل انڈیا سے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے ۔عامر خان نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ عامر نے کہا ہے کہ وہ حکومت کے اس فیصلے کا خیر مقد م کرتے ہیں اور ان کے لئے دس سال تک انکریڈیبل انڈیا کےلئے کام کرنا فخر کی بات تھی۔عامر خان نے کہا کہ میں انڈیا انکریڈیبل کا سفیر رہوں یا نہ رہوں۔انڈیا انکریڈیبل ہی رہے گا۔آپ کو بتاتے چلیں کہ عامر خان نے ایک میڈیا گروپ کے ایوارڈ فنکشن میں کہا تھا کہ اپنے بچوں کو لیکر پہلی بار ملک میں انہیں ڈر لگ رہا ہے۔عامر خان کے اس بیان نے سیاسی گلیاروں میں بھونچال لادیا تھا۔سیاسی لیڈران سے لیکر بالی ووڈ تک عامر کے بیان پر دو خیموں میں بٹ گئے تھے۔سوال عامر کے ہٹانے کا نہیں ہے یا ان سے معاہدہ توڑنے کا نہیں ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ عامر کو کیا عدم رواداری پر بولنا مہنگا پڑا؟
Note
You can watch a debate on this issue.Please click on this linkhttps://www.youtube.com/watch?v=AVprrCd-mI8
Urdu in Tamilnadu اردو کے ساتھ سوتیلا برتاؤ؟
big_intro
ملک میں اردو کے ساتھ اکثرو بیشتر ناروا سلوک کی خبریں آتی رہتی ہیں۔کبھی کسی ریاست میں اردو کے پرچے کو دوسری زبان میں لکھنے کا معاملہ سامنے آتاہے۔تو کبھی اردو کا پیپر کسی دوسری زبان میں ہی دینا پڑتا ہے۔کچھ ایسا ہی فیصلہ سنایا ہے۔تمل ناڈوحکومت نے ۔تمل ناڈوحکومت نے اردو مخالف فیصلہ سناتے ہوئے ۔ریاست میں اردو میڈیم کے طلبا کوتمل زبان میں اپنے جوابات لکھنے کا اعلان کیا ہے۔ خاص طورپردسویں جماعت کے اردو میڈیم کے طلباکومجبورا تمل زبان میں امتحان دینا ہوگا۔ ریاست کے محکمہ تعلیم نے یہ فیصلہ سنایاہے۔ اسطرح تمل ناڈو میں دسویں جماعت کے تقریبا10ہزار طلبا آنےوالے دنوں میں تمل میں اپنے امتحانات کے جوابات لکھیں گے۔وانمباڑی اور دیگر شہروں کی اردو تنظیمو ں کے احتجاج کے باوجود محکمہ تعلیم نے اردو مخالف فیصلہ سنایاہے۔ اس معاملے میں اردو تنظیموں نے دوبارہ عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ تمل ناڈو کے ہائی کورٹ نےاردو میڈیم کے مسئلہ کے سلسلے میں فیصلہ لینے کی ذمہ داری محکمہ تعلیم کو سنوپی تھی۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اردو کو لیکر حکومتوں کا جو رویہ ہے۔اس پر اپنی بات اٹھانے کے لئے بھی اردو والوں کے پاس کوئی پلیٹ فارم یا فورم نہیں ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ ملک کے آئین میں اقلیتوں کو جو حقوق دئے گئے ہیں۔کیا یہ اسکی ان دیکھی نہیں ہے؟سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آخر رائٹ ٹو ایجوکیشن کہا گیا؟تمل ناڈو حکومت کا یہ فیصلہ ۔اردو کے لئے کتنا منفی ہے؟ایک طرف سرکاریں ملک میں اردو کو بڑھاوا دینے کی باتیں کرتیں ہے۔تو دوسری طرف اردو کے ساتھ سوتیلا برتاؤ۔آخر۔اردو کے ساتھ یہ دوہرا معیار کیوں اپنایا جاتا ہے؟
Note
You can watch a debate on this issue.Please click on this link
https://www.youtube.com/watch?v=OKScjAk6OwI
Monday 4 January 2016
PATHANKOT ATTACK
نئے سال کا آغاز بڑا ہی مایوس کن رہا۔پنجاب کے پٹھان کوٹ میں دہشت گردانہ حملے نے جہاں ہند پاک کے بڑھتے رشتوں پر بریک لگانے کا کام کیا ۔تو وہیں ملک کے سیکورٹی نظام پر بھی کئی طرح کے سوال کھڑے ہوئے۔وزارت داخلہ کے مطابق ۔خفیہ محکمے کواس حملے کی اطلاع چوبیس گھنٹے پہلے ہی ہوچکی تھی۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر۔ان دہشت گردوں پر قابو کیوں نہیں پایا جا سکا۔این ایس جی کے کمانڈوز کو ایک دن پہلے ہی پٹھان کوٹ روانہ کیا گیا تھا۔تو اس ٹیم نے وہاں کس طرح چوکسی برتی۔کہ اتنا بڑا حملہ ہوگیا؟خیر۔یہ حملہ۔ملک پر چھبیس گیارہ کے بعد سب سے بڑا دہشت گردانہ حملہ ہے۔اور اس حملے کے تار بھی پاکستان سے ہی جڑے ہوئے ہیں۔اس حملے کی ٹائمنگ پر بھی سوال کھڑے ہو رہے ہیں۔کہ ایک طرف وزیر اعظم مودی اچانک پاکستان پہنچ جاتے ہیں۔تو دوسری طرف اس طرح کا بڑا دہشت گردانہ حملہ۔یعنی کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب کے پٹھان کوٹ میں دہشت گردانہ حملہ۔پاکستان نےایک بار پھر ہندوستان کی امیدوں کو توڑا ہے۔ایسے میں جب پاکستان بار بار اپنے ناپاک عزائم ظاہر کرتا ہے۔تو کیا پڑوسی ملک سے بات چیت کا احیا جائز ہے؟افسوس اس وقت ہوتا ہے جب کہا جاتا ہے کہ صرف ایک حملے کے بعد پاکستان سے بات چیت رد نہیں کی جاسکتی۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ پٹھان کوٹ میں شہید ہوئے بہادر جوانوں کی قربانیوں کی ذمہ داری کون لے گا؟میں خوش ہوں کہ پٹھان کوٹ میں ہمارے بہادر جوانوں نے دشمنوں کا منھ توڑ جواب دیا ہے۔۔۔۔لیکن مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ایک کے بدلے دس سر لانے کا دم بھرنے والی سرکار کے وزیر اعظم ۔جب دو دن پہلےکرناٹک کے ایک پروگرام میں بولتے ہیں۔تو محض جملے بازی ہی کرتے ہیں۔وزیر اعظم صاحب اقتدار میں آنے سے پہلے آپ نے ہی کہا تھا کہ اسامہ کا پاکستان کی سر زمین پر مارا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کا بہت بڑا اڈڈا بنا ہوا ہے۔ ہندوستان سرکار کو اس معاملے کو بہت جلد علم میں لیکر ۔بین الاقوامی طاقتوں سے اتحاد کر امریکہ پر بھی دباؤ بنانا چاہئے۔مودی جی ۔اب تو آپ ۔ اوبامہ اور نواز کے اچھے دوست ہیں ۔آخر کیوں ۔اس طرح کے حملوں کے بعد خاموش ہیں؟Saturday 2 January 2016
Jamia & JNU students oppose PM Modi & Baba Ramdev
سیاست اب پاٹھ شالہ تک پہنچ گئی ہے۔جی ہاں۔ہم بات کر رہے ہیں ۔دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کی۔دراصل ان دونوں اداروں میں وزیر اعظم مودی اور بابا رام دیو کو پروگرام میں شرکت کرنی تھی۔جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی۔ان دونوں اداروں میں ہلچل سی مچ گئی۔ان دونوں شخصیتوں کو لیکر احتجاج اور مخالفت کا سلسلہ شروع ہوا۔موجودہ طلبا سے لیکر فارغ طلبا اور اولڈ بائز نے کیمپس میں دونوں لیڈران کے آنے کی پر زور مخالفت کی۔نتیجا۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں بابا رام دیو کا پروگرام رد ہوگیا ۔بابا رام دیو بائسویں ویں انٹرنیشنل کانگریس آف ویدانتا میں حصہ لینے آنے والے تھے۔لیکن طلبا کی مخالفت کے چلتے پروگرام رد ہوگیا۔ادھراس معاملے میں بابا رام دیو نے ٹویٹ کر کے کہا کہ ۔میں نے یا میرے دفتر نے جے این یو میں کسی لیکچر یا پروگرام کے لئے حامی نہیں بھری ہے. اگر وقت ہوتا تو میں ضرور آپ کے نظریاتی مخالفین سے بھی بحث کے لئے جاتا۔ادھر۔بابا رام دیو کے بعد اب وزیر اعظم نریندر مودی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کنووکیشن میں مہمان خصوصی نہیں ہوں گے۔ وزیر اعظم دفترنے جامعہ کو اپنے خط میں مصروفیت کاحوالہ دے کر انیس جنوری کو ہونے والے کنووکیشن میں وزیراعظم کی شرکت سے انکار کردیا ہے ۔ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ دراصل جامعہ ملیہ اسلامیہ انتظامیہ کی جانب سے وزیراعظم کو مدعو کئے جانے پر کافی تنازعہ شروع ہوگیاتھا اور وزیراعظم نریندر مودی کے ماضی میں جامعہ کو دہشت گردی سے جوڑنے کے موضوع پر مخالفت شروع ہورہی تھی تاہم جامعہ انتظامیہ نے صاف کیا ہے کہ وہ مستقبل میں وزیراعظم نریندر مودی کو کیمپس میں بلائے گی ۔ایک طرف جہاں وزیر اعظم کے نہ آنے سے ایک خیمہ خوشی منا رہا ہے۔تو دوسری طرف وزیراعظم نریندر مود ی کے یونیورسٹی نہ آنے کے فیصلہ پرطلباءنے مایوسی کااظہار کیا ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں اس طرح کی سیاست آخر کیوں؟وزیر اعظم کا دورہ نا ہونا کیا ۔مایوسی کی بات نہیں ہے؟
Note
You can watch debate on is issue,please click on this linkhttps://www.youtube.com/watch?v=i_T5e_nbY34
YEARENDER_2015
سال دو ہزار پندرہ رخصت ہو رہا ہے۔یہ سال ہمارے درمیان بہت سی یادیں چھوڑ جا رہا ہے۔دو ہزار پندرہ میں کئی ایسے واقعات ۔ رونما ہوئے ۔جنہیں آسانی سے بھلایا نہیں جا سکے گا۔اسی طرح سیاسی پیش رفت کی بات کریں ۔تو سال دو ہزار پندرہ مرکز میں زیر اقتدار بی جے پی کے لئے نہایت ہی مایوس کن رہا۔دہلی ۔اور بہار میں بی جے پی کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔تو دوسری جانب ۔عدم رواداری کے جن نے بھی مرکزی حکومت کی مشکلات میں اضافہ کردیا۔عدم رواداری کو لیکر پورا ملک ایک طرح سے دو حصوں میں بٹ سا گیا۔دانشور۔ادیب اور قلمکاروں سے لیکر فلم اداکار تک نے ملک کی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے ۔اپنے ایوارڈس اور ا اعزاز واپس کر دیئے۔تو وہیں ملک کی موجودہ سیاست پربھی سوال اٹھے۔مرکزی سرکار نے وعدے زیادہ کئے اور کام کم۔سڑک سے لیکر پارلیمنٹ تک خوب ہنگامہ ہوا۔یہ ملک اور عوام کی بد قسمتی کہیئے یا سیاست کہ پارلیمنٹ کے دو سیشن بری طرح متاثر ہوئے ۔اپوزیشن ۔حکومت کی غلطیوں کو گناتا رہا۔تو سرکار میں بیٹھے لوگوں نے اس پرتوجہ نہیں دی اور اسے اپوزیشن کی بوکھلاہٹ سے تعبیر کیا۔ان سب کے بیچ ۔عوام کی مشکلات ۔اور پریشانیوں پر کسی نے دھیان نہیں دیا۔خاص کر اقلیتوں اور مسلمانوں کے لئے سال بڑا مایوس کن رہا۔چاہے بات عدم رواداری کی ہو یا گئو کشی اور ریزرویشن کی۔تقریبا ہر ریاست میں مسلمان اپنے مسائل کو لیکر پریشان ہی دکھے۔مہاراشٹر میں گئو کشی اور ریزرویشن کو لیکر مسلم طبقہ پریشان رہا۔تو تلنگانہ کی سرکار نے بھی مسلمانوں سے صرف وعدے ہی کئے۔تو وہیں اترپردیش اور مدھیہ پردیش کے مسلمان اپنے سال کو لیکر سال بھی جوجھتے ہی رہے۔
سال دوہزارپندرہ جارہا ہے لیکن عوام کے مسائل وہی ہیں۔وہی ان کی پریشانیاں اورمشکلیں ہیں۔سیاست دانوں سے وعدے وفا نہ کرنے کاسوال۔عدم اعتمادی ۔عدم تحفظ اورعدم رواداری کا احساس۔خواتین میں گھریلوتشدداورجنسی ہراسانی کا ڈروہی ہے۔مہنگائی۔معیاری تعلیم کمی اورملازمت کی فکربھی کم نہیں ہے۔ایسے میں عوام ارباب اقتدار کی جانب امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہےہیں کیوں کہ عوام کی سلامتی وترقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔۔
Note
You can watch a debate on is issue,please click on this link
Subscribe to:
Posts (Atom)