Thursday 28 January 2016

یوپی میں چڑھنے لگا انتخابی رنگ؟

What's Brewing In Uttar Pradesh? 

اترپردیش ہمیشہ ہی  ۔ملک میں سیاست کا  محور رہا ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے۔کہ دلی  پر راج کرنا ہے تو یوپی کو مضبوط کرو۔اترپردیش میں اسمبلی انتخابات میں اب ایک سال سے کم کا ہی وقت رہ گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ریاست میں انتخابی رنگ ابھی  سےچڑھنے لگا ہے۔جہاں پارٹیوں نے اپنی حکمت عملی بنانا شروع کر دی ہے۔تو وہیں تمام پارٹیوں کے بڑے لیڈران کے بیانات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ان دنوں سماج وادی پارٹی سپریمو  ملائم سنگھ  یادو اور بہوجن سماج پارٹی صدرمایاوتی ۔اپنے بیانوں کو لیکر سرخیوں میں ہیں۔خاص کر ملائم سنگھ ۔کارسیوک اور پھر دادری معاملے پربیانات دیکر۔عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول  کرا رہے ہیں۔ملائم سنگھ نے  دادری معاملے پر کہا  کہ اس معاملے میں تین بی جے پی لیڈر  مبینہ طور ملوث ہیں  ۔اور اگر وزیراعظم کہیں تو اس کے لئے ثبوت بھی  پیش کردیں گے۔اس بیان کے بعد چہار جانب سے ردعمل اور ریکشن کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ملائم سنگھ کے اس بیان کے پیچھے سچائی کیا ہے۔کیا ملائم سنگھ ووٹ بینک کی سیاست کر رہے ہیں۔یہ اس کے ذریعہ وہ ایک مخصوص طبقے کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کے بیان میں کتنی سچائی اور دم ہے۔یہ تو وہی جانتے ہیں۔لیکن اس بیان نے یوپی کی سیاست گرما دی ہے۔وہیں آج بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے  پریس کانفرنس کر مرکزی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔لکھنؤ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے  مایا وتی نے کہا کہ مرکزی حکومت  کی سوچ ذات پات پر مبنی ہے اور دلتوں کا استحصال  کر رہی ہے۔مایا وتی  نے اس موقع پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کو لیکر بھی مرکزی سرکار کی نیت پر سوال اٹھائے۔خیر۔ان دونوں  لیڈران کے بیان اپنی جگہ۔ان  بیانوں سے یوپی کی سیاست گرما گئی ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یوپی پر انتخابی رنگ چڑھنے لگا ہے؟کیا ابھی سے یوپی میں ووٹ بینک کی سیاست شروع ہوگئی ہے؟کیا تمام پارٹیوں کی نظر۔مسلم اور دلت ووٹ بینک پر لگی ہوئی ہے؟

 

1 comment: