Tuesday 26 January 2016
ملک آج اپنا سڑسٹھواں یوم جمہوریہ منا رہا ہے۔قومی راجدھانی دہلی میں شاندار تقریب منعقد ہوئی۔پورا ملک جشن میں ڈوبا ہے۔ہمارا ملک ہندوستان اگرچہ پندرہ اگست انیس سو سینتالیس کو برطانوی تسلط سے آزاد ہو گیا تھا، لیکن اسے اپنا آئین آج ہی کے دن سن انیس سو پچاس کوملا۔اس اعتبار سے یوم آزادی کے بعد آزادہندوستان کی تاریخ میں چھبیس جنوری انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ سوراج کی جانب یہ ایک اہم اور بڑاقدم تھا۔جس کاخواب ہمارے رہنماؤں نے دیکھا تھا ۔اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا قید و بند کی صعبوتیں جھلیں اورخون جگر سے اس گلستاں کی آبیاری ہوئی۔ ہمارا دنیا کے مختلف ممالک کے آئین کی خصوصیات کا مجموعہ ہے۔ آئین کی تمہید کا آغاز ہی وی دا پیپل سے ہوتا ہے۔آئین نے شہریوں کو خود کئی حقوق دیئے ہیں۔ان میں سب سے بڑا حق حکومت چننے کا حق ہے۔یعنی عوام کے لیے عوام کے ذریعہ چنی ہوگئی سرکار۔دستور نے پارلیمانی طرزکی جمہوریت کے سامنے کابینہ کواپنے فیصلے، قانون سازی اور اپنی پالیسی کے لیے جوابدہ بنایا ہے اور تمام باشندے بلاتفریق مذہب و ملت ’’ایک مشترکہ جمہوریت‘‘ میں پرو دیے گئے ہیں۔ دستورکی 42 ویں ترمیم کی روسے اسے سیکولر اسٹیٹ کہا گیا ہے، جہاں ہر مذہب کا احترام ہوگا اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہیں کیاجائے گا۔ مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر کسی شہری کو شہریت کے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ۔ آئین کی رو سے ہر ہندوستانی قانون کی نگاہ میں برابر ہے۔ ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی ہے۔ اقلیتوں کو بھی دستور میں ان کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علیحدہ تعلیمی ادارے قائم کریں، اپنی شناخت وتشخص کو قائم رکھیں ۔ ملک کی کثرت میں وحدت کی بقا اور جمہوری اقدارکے فروغ کے لیے یہ اصول کافی ہیں، لیکن زمینی حقیقت اس سلسلہ میں ہمیں کچھ اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ ان قوانین کا کتنا احترام کیا جا رہا ہے؟ قانون کی بالادستی ہے یادستورکی پامالی؟ قانون کی حکمرانی ہے یاقانون بے چارہ؟
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment