Monday 18 January 2016


روہت کی خود کشی ۔کیا یہ اپر اور لوور کاسٹ  سیاست کا نتیجہ ہے؟

Dalit student commits suicide

یونیورسٹی طلبا کے مسائل ہر دور میں رہے ہیں۔اور خاص کر پچھڑے۔دلت اور کمزور طبقوں سے آنے والے طالب علموں   کے ساتھ  امتیازی سلوک  حتی کے تشدد کی خبریں سرخیوں میں آتی ہیں۔اتوارکے روز حیدرآباد یونیورسٹی میں ایک دلت طالب علم  نے یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ہی پھانسی لگا کر خوکشی کر لی۔اس دل دہلا دینے والے واقعے پر کئی طرح کے سوال  اٹھ رہے ہیں۔یاد رہے کہ خود کشی کرنے والے طالب علم  روہت کو یونیورسٹی انتظامیہ نے ہاسٹل سے باہر نکال دیا تھا۔جس کے بعد سے ہی روہت تنبو لگا کر کیمپس کے باہر ہی رہ رہا تھا۔روہت اور اسکے چار ساتھیوں پر ہاسٹل میں داخل ہونے پر  پابندی عائد کردی گئی تھی ۔ در اصل روہت اور اسکے چار ساتھی  امبیڈکر یونین کے ممبر  تھے۔جن پر بی جے پی کی اسٹوڈنٹ ونگ اے بی وی پی کے ایک ممبر پر حملہ کرنے کا الزام تھا۔حالاں کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے روہت سمیت پانچوں  اسکالرس کو ابتدائی جانچ کے بعد بے قصور قرار دیا تھا۔لیکن بعد میں جب مرکزی وزیر بنڈارو دتا تریہ نے مرکزی وزیربرائے فروغ انسانی وسائل  اسمرتی ایرانی کو خط لکھا۔تو انتظامیہ نے اپنا فیصلہ پلٹ دیا تھا۔خیر۔اب اس معاملے کو لیکر کئی طرح کی باتیں گشت کررہی ہیں ۔سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا یونیورسٹی میں دلت طلبا کو ذات پات اور اگڑے پچھڑے کی بنیاد پر یشان کیا جا تا ہے؟کیا یونیورسٹی انتظامیہ اس کے لئے ذمہ دار ہے؟سوال اس لئے بھی اٹھنا لازمی ہیں کیوں کہ اس طرح کا معاملہ دلت طلبا کے ساتھ نیا نہیں ہے۔اس سے پہلے تمل ناڈو میں  دلت اسٹوڈنٹس کی ایک تنظیم پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔اسی طرح کانپور میں بھی ایک انسٹی ٹیوشن میں ایک دلت نے اپر کاسٹ کے طلبا کے ذریعہ پریشان کئے جانے کے بعد خود کشی  کر لی تھی۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاٹھ شالہ میں بھی سیاست سرایت کر رہی ہے۔؟ اب اس معاملے کو لیکر سیاست بھی گرما رہی ہے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر  بنڈارو دتا تریہ کے خلاف ایس سی ایس ٹی کے تحت معاملہ درج کر لیا گیا ہے۔اس معاملے کو لیکر دہلی میں مرکزی وزیر تعلیم اسمرتی ایرانی کے گھر کے باہر بھی طلبا نے احتجاج کیا۔اس کے علاوہ ملک کے کئی حصوں میں اس معاملے کو لیکرطلبا میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ادھر۔ایچ آر ڈی منسٹری نے اس معاملے کو لیکر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھی بنانے کی بات کہی ہے۔


No comments:

Post a Comment