Tuesday 29 March 2016

عدالت کے فیصلے سے راوت کو ایک اور موقع

HC orders floor test for Rawat govt on March 31

اتراکھنڈ میں نینی تال ہائی کورٹ کے فیصلے نے سارا منظر نامہ بدل دیا ہے۔کورٹ نے صدر راج پر روک لگا دی ہے۔اور اکتیس مارچ کو ایوان میں وزیر اعلیٰ ہریش راوت کو اکثریت ثابت کرنا ہے۔خاص بات یہ ہے کہ باغی ارکان اسمبلی بھی ووٹنگ میں حصہ لے سکیں گے۔ایک جانب جہاں کانگریسی خیمہ عدالت کے فیصلے سے کافی خوش ہے۔تو وہیں بی جے پی خیمے میں اس بات کو لیکر خوشی ہے کہ ووٹنگ میں باغی ارکان بھی حصہ لے سکیں گے۔ےیعنی کل ملا کر  کہا جا سکتا ہے کہ اتراکھنڈ کا بحران ابھی تھما نہیں ہے۔بلکہ سیاسی ڈرامہ ابھی اور دلچسپ ہونے والا ہے۔ایسے میں تمام پارٹیوں کے ارکان اور خاص کر باغی ارکان پر کافی نظریں رہیں گی۔ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ یہ پارٹی کی جیت ہے۔اور عدالت نے وزیر اعلیٰ کی بات مان لی ہے۔ادھر ہریس راوت کی قیادت میں ریاستی کانگریس اکائی پہلے سے زیادہ متحرک ہوگئی ہے۔واضح رہے کہ  سنیچر کےروز ہریش راوت نے گورنر سے ملاقات کی تھی اور اپنے چونتیس ارکان ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔خیر۔اب آئیے ایک نظر اتراکھنڈ کی موجودہ اسمبلی ارکان کی صورتحال پر ڈال لیتے ہیں۔اتراکھنڈ اسمبلی کے کل 70 ممبران اسمبلی میں کانگریس کے 36 ممبران اسمبلی تھے جن میں سے نو باغی ہو چکے ہیں۔ بی جے پی کے 28 ممبران اسمبلی ہیں جن میں سے ایک معطل ہے۔ بی ایس پی کے دو، آزاد امیدوار تین اور ایک رکن اسمبلی اتراکھنڈ کرانتی پارٹی کا ہے۔اس سے پہلے اتوار کو ہی اتراکھنڈ کے وزیر اعلی ہریش راوت نے الزام لگایا تھا کہ بی جے پی مسلسل ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کی دھمکی دے رہی ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ’غرور سے چور مرکز کی حکمراں پارٹی چھوٹی سی سرحدی ریاست میں صدر راج نافذ کرانے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔‘کانگریس نے بی جے پی پر اسمبلی کے اراکین کی خرید و فروخت کا الزام لگاتے ہوئے اسے جمہوریت اور آئین پر حملہ بتایا ہے جبکہ مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے جوابی الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اتراکھنڈ اسمبلی میں جو کچھ ہوا اس سے سیاسی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ جیٹلی نے کہا: ’اتراکھنڈ کسی انتظامی مشینری کے ٹھپ ہوجانے کی حقیقی مثال ہے اور آئینی طور پر جو کچھ بھی غلط ہو سکتا تھا وہ وہاں ہوا ہے۔ آپ کو اکثریت ثابت کرنے کے لیے جو وقت دیا گیا ہے اس وقت کا استعمال لالچ دینے اور رشوت دینے پر استعمال کر رہے ہیں جو کہ  آئین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔کانگریس نے پارٹی میں انتشار کے لیے بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے گذشتہ ہفتے ٹویٹ کے ذریعے الزام لگایا تھا کہ ’بہار میں شکست کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ منتخب حکومتوں کو خرید و فروخت کے ذریعے گرانا بی جے پی کا نیا ماڈل بن گیا ہے۔‘راہل نے ٹویٹ کیا کہ ’یہ ہماری جمہوریت اور آئین پر حملہ ہے، پہلے اروناچل اور اب اتراکھنڈ، یہ مودی جی کی بی جے پی کا اصل چہرہ ہے۔خیر۔اب  دیکھنا یہ دلچسپ ہوگا کہ ،اتراکھنڈ کی سیاست کا رخ کیا ہوگا؟

Sunday 27 March 2016

اتراکھنڈ  کا سیاسی ڈرامہ  ہواختم

President's rule in Uttarakhand

آخر  کار اتراکھنڈ  کا سیاسی ڈرامہ ختم ہوا۔اور ریاست میں وہی ہوا جس کا اندیشہ  تھا۔شمالی ریاست اتراکھنڈ میں صدر راج نافذ کر دیا گیا ہے۔خیال رہے کہ اتراکھنڈ میں اکثریت ثابت کرنے کے لیے ۲۸ مارچ کی تاریخ رکھی گئی تھی۔لیکن اس سے پہلے ہی اتراکھنڈ میں صدر راج نافذ کر دیا گيا ہے۔اس سے قبل سنیچر کی رات اتراکھنڈ کے سیاسی بحران پر مرکزی کابینہ کی ہنگامی میٹنگ ہوئی تھی جس میں ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے دیر رات صدر کو ریاست میں پیدا ہونے والے  سیاسی تعطل سے مطلع کیا تھا۔یاد رہے کہ       ریاست میں کانگریس کے نو ممبران اسمبلی کی بغاوت کے بعد وزیر اعلی ہریش راوت کی کانگریس حکومت کو 28 مارچ کو اکثریت ثابت کرنا تھی۔اتراکھنڈ اسمبلی کے کل 70 ممبران اسمبلی میں کانگریس کے 36 ممبران اسمبلی تھے جن میں سے نو باغی ہو چکے ہیں۔ بی جے پی کے 28 ممبران اسمبلی ہیں جن میں سے ایک معطل ہے۔ بی ایس پی کے دو، آزاد امیدوار تین اور ایک رکن اسمبلی اتراکھنڈ کرانتی پارٹی کا ہے۔اس سے پہلے اتوار کو ہی اتراکھنڈ کے وزیر اعلی ہریش راوت نے الزام لگایا تھا کہ بی جے پی مسلسل ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کی دھمکی دے رہی ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ’غرور سے چور مرکز کی حکمراں پارٹی چھوٹی سی سرحدی ریاست میں صدر راج نافذ کرانے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔‘کانگریس نے بی جے پی پر اسمبلی کے اراکین کی خرید و فروخت کا الزام لگاتے ہوئے اسے جمہوریت اور آئین پر حملہ بتایا ہے جبکہ مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے جوابی الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اتراکھنڈ اسمبلی میں جو کچھ ہوا اس سے سیاسی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ جیٹلی نے کہا: ’اتراکھنڈ کسی انتظامی مشینری کے ٹھپ ہوجانے کی حقیقی مثال ہے اور آئینی طور پر جو کچھ بھی غلط ہو سکتا تھا وہ وہاں ہوا ہے۔ آپ کو اکثریت ثابت کرنے کے لیے جو وقت دیا گیا ہے اس وقت کا استعمال لالچ دینے اور رشوت دینے پر استعمال کر رہے ہیں جو کہ  آئین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔کانگریس نے پارٹی میں انتشار کے لیے بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے گذشتہ ہفتے ٹویٹ کے ذریعے الزام لگایا تھا کہ ’بہار میں شکست کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ منتخب حکومتوں کو خرید و فروخت کے ذریعے گرانا بی جے پی کا نیا ماڈل بن گیا ہے۔‘راہل نے ٹویٹ کیا کہ ’یہ ہماری جمہوریت اور آئین پر حملہ ہے، پہلے اروناچل اور اب اتراکھنڈ، یہ مودی جی کی بی جے پی کا اصل چہرہ ہے۔خیر۔اب  دیکھنا یہ دلچسپ ہوگا کہ ،اتراکھنڈ کی سیاست کا رخ کیا ہوگا؟یا پھر،باغی ارکان کا کیا ہوتا ہے ۔یہ بھی کافی اہم رہے گا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر،سرکار گرانے میں واقعی سیاست کارفرما ہے،یا یہ مرکز کے اشارے پر  ہی ہوا ہے؟لیکن مودی حکومت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ انتقامی کاروائیوں سے وہ اپنی مقبولیت نہیں بڑھا سکتی۔ صرف بہترکارکردگی اور مثبت ذہنیت ہی اس کی مقبولیت کی ضامن ہے۔خیر۔اب جلد ہی ، پانچ ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ایسے میں  بی جے پی اور کانگریس  دونوں ہی پارٹیاں  اتراکھنڈ ایشو کو بھنانے کی کوشش کریں گی۔جہاں کانگریس ، اسے سیاسی بدلے سے تعبیر کر رہی ہے۔تو وہیں بی جے پی اسے انصاف سے تعبیر کر رہی ہے۔ایسے میں اتراکھنڈ کا بحران  بھلے ہی تھم گیا ہو،لیکن سیاست ابھی باقی ہے

 


Friday 25 March 2016

محبوبہ مفتی ،عوام کی امیدوں پر کھرا اتریں گی؟

Mehbooba Mufti to be Jammu and Kashmir's first woman CM

 محبوبہ مفتی کی شکل میں ریاست جموں و کشمیر کو پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ملنے جا رہی ہیں۔جمعرات کے روز سرینگر میں منعقد ہوئی پی ڈی پی لیجسلیچر کی میٹنگ میں محبوبہ مفتی کو پارٹی کا لیڈر چنا گیا۔یعنی ۔ڈھائی ماہ کے تذبذب  کے بعد۔اب ریاست کو نیا وزیر اعلیٰ ملنے جا رہا ہے۔بدھ کے روز دہلی میں  وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد۔محبوبہ مفتی نے کہا  تھا کہ  ملاقات اچھی اور مثبت رہی۔اس ملاقات کے بعد ہی لگ رہا تھا کہ جموں و کشمیر میں حکومت سازی کو لیکر راہ ہموار ہوگئی ہے۔خیر۔اب محبوبہ مفتی ریاست کی وزیر اعلیٰ بن رہیں ہیں۔ایسے میں وہ ریاست کی عوام کی توقعات پر کتنی کھری اترتی ہیں ۔یہ تو  وقت ہی بتائے گا۔لیکن،جموں و کشمیر میں خواتین کے بھی بہت سے مسائل ہیں۔ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا محبوبہ جی ۔ریاستی خواتین کے خواب پورے کر پائیں گی؟خیر،یہ لمبی بحیث ہے۔اور یہ تو میدان میں اتر کر ہی وہ ثابت کریں گی۔لیکن  اب یہ  تو طے ہے کہ  محبوبہ مفتی کشمیر کی پہلی خاتون وزیراعلی ہوں گی۔ یہ فیصلہ قریب دس ہفتوں کی سیاسی غیریقنی کے بعد سری نگر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے اہم اجلاس میں جمعرات کی شام کو ہوا۔ڈھائی ماہ سے محبوبہ نے یہ فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ ان کا اصرار تھا کہ ان کے والد مفتی محمد سعید نے جن بنیادوں پر بی جے پی کے ساتھ شراکت اقتدار کا معاہدہ کیا تھا، ان پر عمل درآمد کے لیے انہیں حکومت ہند سے واضح اور دو ٹوک یقین دہانی کرائی جائے۔کئی ہفتوں کی کوششوں کے بعد 22 مارچ کو محبوبہ مفتی نے  دہلی میں  وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ مختصر ملاقات کی۔اور اس کے بعد ہی محبوبہ کی  وزیر اعلیٰ پر چرچا تیز ہوگئی۔خیر۔اب بات سکے کے دوسرے پہلو کی کر لی جائے۔محبوبہ کو وزیراعلی بنتے ہی دو بڑے سوالوں کا سامنا ہوگا۔ ایک یہ کہ جن مطالبات کو منوانے کی شرائط پر وہ حلف برداری میں تاخیر کررہی تھیں، کیا نریندر مودی نے وہ تسلیم کر لیے ہیں۔ ان مطالبات میں کشمیر سے سخت ترین فوجی قوانین کا خاتمہ، پن بجلی منصوبوں پر ریاست کے مالکانہ حقوق کی بحالی، علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات اور آبادی والے علاقوں میں فوجی تنصیبات کو ہٹانے اور 2014 میں آئے سیلاب کے متاثرین کے لیے مالی امداد جیسے معاملات کا ذکر تھا۔ان پر عوام جواب مانگ سکتے ہیں۔خیر،یہ تو سیاسی عمل ہے  اور  جو بھی ہو، اقتدار میں برقرار رہنا دونوں کی سیاسی مجبوری تھی۔ کشمیر میں چھہ برس بعد انتخابات ہوتے ہیں۔ 2020 کے دسمبر تک ابھی پانچ سال کا عرصہ ہے۔ کشمیر کی سیاست میں یہ ایک طویل مدت ہوتی ہے۔ایسے میں محبوبہ اپنے کو کیسے ثابت کرتی ہیں۔یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا

Wednesday 23 March 2016

رنگوں کے تہوار ہولی کی دھوم

The massage of Holi

ملک  بھر میں رنگوں کا تہوار ہولی منایا جارہا ہے۔گھروں اور گلی کوچوں سے لیکر  سڑکوں  تک ہر جگہ گلال اور ابیر کی ہی مہک ہے۔ہر چہرے پر پیار اور محبت کا رنگ نظر آ رہا ہے۔ہر سمت آپسی بھائی چارے ۔ پیار محبت کا منظر ہے۔یعنی ملک بھر میں  رنگوں کے تہوار ہولی کی دھوم ہے۔لوگ ہولی کے رنگوں میں شرابور ہیں۔ابیر گلال کے ساتھ ساتھ لٹھ مار، کرتا پھاڑ اور کیچڑ کی  ہولی کے منظر بھی اس تہوار کی خاصیت ہیں۔لوگ ایک دوسرے کو  صرف رنگ لگانے پر ہی اکتفا کئے ہو ئے ہوں ۔ایسا بھی نہیں۔اس تہوار میں ہڑبونگ مچانے کی روایت ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ برا نہ مانو ہولی ہے۔یا ہولی ہے بھائی ہولی ہے۔خیر۔ہولی منانے کا طریقہ۔ڈھنگ ۔خواہ کچھ بھی رہا ہو۔لیکن ہر ڈنگ۔ہر طریقے میں ایک دوسرے کے تیئں پیار و محبت اور اپنے پن کا احساس نمایاں طور جھلکتا ہے۔دلوں میں کدورت کی سیاہی، ہولی کے رنگوں سے خوشرنگ ہو کر، محبت۔دوستی۔بھائی چارے کا جذبہ بن جاتی ہے۔تو دوسری جانب ملک بھر میں جوگیرا سرارا راراراکی گونج ہے۔ایک عام آدمی سے لیکر بالی ووڈ اداکاروں اور   سیاستدانوں تک ہولی کا خمار ہے۔ہولی کے ان رنگوں کے بیچ یہ بھی محسوس کیا جا رہا ہے کہ ملک کے موجودہ حالات میں جہاں دادری اور لاتیہار جیسے شرمناک واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ایسے میں ہولی جیسے بھائی چارے اور اتحاد کا پیغام دینے والے تیوہار کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔

Tuesday 22 March 2016

 اب کیوں جھک رہی ہیں محبوبہ؟

'Positive' meeting with Modi: Mehbooba
جموں و کشمیر میں حکومت سازی کو لیکر  ایک بار پھر ہلچل تیز  ہوگئی ہے۔پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے آج    دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی ۔اور بی جے پی ۔پی ڈی پی اتحاد سمیت تمام ایشوز پر بات چیت کی۔وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ  ملاقات اچھی اور مثبت رہی۔واضح رہے کہ پچھلے ایک ہفتے میں محبوبہ مفتی دہلی کا دو بار دورا کر چکی ہیں۔اس سے پہلے محبوبہ مفتی نے بی جے پی صدر امت شاہ سے بھی  ملاقات کی تھی۔لیکن۔اس ملاقات میں بات نہیں بنی تھی۔آج وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد محبوبہ مفتی  پر امید نظر آئیں ۔اور انہوں نے کہا کہ آنے والے جمعرات کو سرینگر میں پی ڈی پی ارکان اسمبلی کی ایک میٹنگ ہوگی۔جس میں حکومت سازی کو لیکر آگے کی حکمت عملی تیار کی جائے گی۔خیر۔اب آنے والے آٹھ اپریل تک دونوں پارٹیوں کے پاس سرکار بنانے کے لئے آخری موقع ہے۔وہیں ۔جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ریاست کے گورنر این این ووہرا سے ملاقات کی ۔اور ریاستی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی درخواست کی۔یعنی کل ملاکر کہا جا سکتا ہے کہ ریاست میں حکومت سازی کو لیکر ہلچل اپنے شباب پر ہے۔اور آنے والے   دن۔ریاست  میں حکومت سازی کے لئے کافی اہم ہوں گے۔اب دیکھنا یہ دلچسپ ہوگا۔کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟

Monday 21 March 2016

کہاں ہے نظم و قانون؟

Two cattle traders hanged from tree

جھارکھنڈ کے لاتیہار  بہیمانہ قتل  نے  یوپی کے دادری معاملے کی یاد تازہ کر دی ہے۔ابھی دادری کا معاملہ پوری طرح ختم بھی نہیں ہوا تھا ۔کہ لاتیہار میں دو مسلم  بھینس تاجروں کے  قتل کا ظالمانہ اور بہیمانہ واقعہ سامنے آیا ہے۔لاتیہار میں پیش آئے اس واقعہ سے  ایک بار پھر انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔لاتیہار میں جو کچھ ہوا۔یہ بڑا ہی درد ناک اور خوفناک بھی ہے۔پہلے ان دونوں مویشی تاجروں کو بے رحمی سے پیٹا گیا۔اور پھر   قتل کے بعد  لاشوں کو پیڑ سے لٹکا دیا گیا۔اس واقعہ کے بعد علاقے میں خوف کا ماحول ہے۔لوگوں میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔علاقے کے لوگوں نے اس بہیمانہ قتل کے خلاف  احتجاج بھی کیا۔مگر احتجاجیوں کو پولیس کی بے رحمی کا سامنا کرنا پڑا۔علاقے میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ ہے۔تو ادھر انتظامیہ نے کاروائی کرتے ہوئے پانچ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔جب کہ مزید لوگوں کی تلاش جاری ہے۔اس معاملے پر سیاست بھی تیز ہوگئی ہے۔جہاں ریاستی سرکار اس معاملے میں سخت سے سخت قدم اٹھانے کی بات کر رہی ہے۔تو وہیں اپوزیشن  کانگریس اور دوسری پارٹیاں اس معاملے پر سیاسی روٹیاں سینک رہی ہیں۔دادری کی طرح اس معاملے میں بھی چہار جانب سے  آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد نے وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک خط جھارکھنڈ میں دو مسلمانوں کے قتل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کوئی اکلوتا واقعہ نہیں ہے۔‘انھوں نے لکھا: ’گذشتہ دنوں مسلمانوں پر حملے کے لیے بہانے تلاشے گئے ہیں، جیسے دادری میں مارمار کر قتل،  کیرالہ ہاؤس کے باورچی خانے پر چھاپہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے میس پر چھاپہ، راجستھان کی میواڑ یونیورسٹی میں کشمیری طلبہ کو پیٹنا اور پھر پولیس کے حوالے کرنا پھر جھارکھنڈ کا واقعہ۔انھوں نے لکھا کہ ’مرکز میں بی جے پی کی حکومت کے بعد سے دھمکیوں، ہجوم کے تشدد، نگرانی وغیرہ کے واقعات میں شدید اضافہ افسوس ناک ہے۔رپورٹس کے مطابق جس بہیمانہ دھنگ سے ان دونوں افراد کا قتل کیا گیا ہے اس سے شدید نفرت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس سے قبل دہلی سے ملحق علاقے دادری میں ایک شخص کو گوشت رکھنے کے شبہے میں لوگوں نے مار مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد مدھیہ پردیش میں ایک مسلم جوڑے کو گوشت لے کر سفر کرنے کے لیے زدوکوب کیا گیا۔بھارت دنیا کا سب سے بڑا بیف برآمد کرنے والا ملک ہے لیکن کئی ریاستوں میں گائے اور اس کی نسل کے دوسرے جانوروں کے ذبیحے پر پابندی ہے۔ گذشتہ ایک سال سے گائے کے نام پر کئی تنازعات سامنے آ چکے ہیں۔ دادری کے بعد منی پور میں ایک مسلمان کو گائے چرانے کے الزام میں مار مار کر ہلاک کردیا گیا۔بھارتی لوک سبھا کے رکن ششی تھرور نے گذشتہ روز پارلیمان میں بات کرتے ہوئے کہا اُن کے ایک بنگلہ دیشی دوست نے انھیں کہا کہ بھارت میں ’ایک گائے ہونا مسلمان ہونے سے زیادہ تحفظ کی علامت‘ ہے۔ششی تھرور نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے ایک بنگلہ دیشی دوست نے انھیں یہ بھی کہا کہ اُن کے ملک کے بنیاد پرست اُن پر اس طرح کی بات کرتے ہوئے حملہ کرتے ہیں۔کانگریس کے رہنما نے کہا کہ بھارت کو تنوع کے احترام کی بنیاد پر بنایا گیا تھا اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے قائم رکھے۔ ’بھارت میں نفرت کا پرچار اور بیرونِ ملک میک ان انڈیا کی تشہیر ایک ساتھ نہیں چل سکتی ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’انھیں شرم آتی ہے جب بھارت کو اس سے بدنامی ہوتی ہے۔‘

Wednesday 16 March 2016

نیپال میں ہند پاک وزرا خارجہ کی ملاقات

Sushma Swaraj, Sartaj Aziz to meet in Nepal

نیپال میں چل رہے سارک  اجلاس  میں ہند پاک وزرا خارجہ کی ملاقات ہونی ہے۔یعنی سشما سوراج اور نواز شریف کے مشیر سرتاج عزیز جمعرات کے روز جب نیپال کے پوکھرا میں  ملیں گے۔تو ہند پاک بات چیت کا نیا دور شروع ہوگا۔لیکن سوال یہ اٹھتا ہے۔کہ یہ ملاقات کتنی کارگر ثابت ہوگی؟یا اس ملاقات سے کتنی مثبت امید رکھی جائے؟ کیوں کہ ماضی میں کئی بار ہند پاک وزرا کی ملاقات ہو چکی ہیں۔لیکن ۔ان کا کوئی حل نہیں نکلا۔پچھلے سال وزیر اعظم نریندر مودی اچانک لاہور پہنچ گئے ۔تب۔لگا تھا کہ اس اچانک دورے سے دونوں ممالک قریب آئیں گے۔اور دونوں ہمسایوں کے حالات بدلیں گے۔لیکن ۔اسے بد قسمتی کہیئے یا پاک کی عادت اور اس کا رویہ۔کہ مودی کے واپس آتے ہی۔پٹھان کوٹ میں پاک دہشت گردوں نے بڑا حملہ کر دیا۔اس حملے کے بعد۔دونوں ممالک میں تلخیاں ایک بار پھر در آئیں۔ سشما اور سرتاج عزیز کی ملاقات سے پھر بات چیت کے احیاہ کی امید بندھی ہے۔یہ ملاقات ایسے وقت ہو رہی ہے۔جب اسی ماہ امریکہ میں مودی ۔نواز شریف کی ملاقات ہو سکتی ہے۔اس کے علاوہ اسی سال پاکستان میں ہونے والی سارک اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی کو پاکستان مدعو کر سکتا ہے۔تو وہیں حالیہ دنوں  گجرات  میں  کچھ ملی ٹنٹوں کے دراندازی کی خبر کو    پاکستان  کے این ایس اے نے پہلی بار  ہندوستان  سے  ساجھا کیا ہے۔ایسے میں جمعرات کو ہونے والی وزرا خارجہ کی ملاقات سے  دونوں ممالک کو کافی امیدیں بندھیں ہیں۔ایسے میں سرتاج عزیز کےبیان  نے کہ   پاکستان ۔ہندوستان سے  تمام مسائل پر بات کرے گا۔اس ملاقات اور بات چیت کے ماحول کو پہلے ہی سازگار بنا دیا ہے۔

Tuesday 15 March 2016

سنگھ کے کہنے پر نہیں لگاؤں گا نعرہ۔اویسی

Owaisi won't say 'Bharat Mata ki Jai'

اسدادلدین اویسی بولیں اورسرخی نہ بنے ہونہیں سکتا۔۔اس مرتبہ اویسی نے آر ایس ایس کو نشانہ بنایا ہے۔اویسی نے اودگیر میں آر ایس ایس کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اگر اُن کی گردن پر چھری بھی رکھ دیں گے تو وہ بھارت ماتا کی جئے نہیں بولیں گے۔اویسی کے بیان سے تلملائی بی جے پی  بیان کو قومی یکجہتی کیلئے خطرہ قرار دے رہی ہے۔جبکہ وینکیا نائیڈو نے کہا ہے کہ بھارت ماتا کی جے نہ بولنے پر اویسی کو شرم آنا چاہئے۔یعنی چہار جانب سے اس بیان پر تنقید ہو رہی ہے۔جبکہ اویسی کا کہنا ہے کہ سنگھ کے کہنے پر بھارت ماتا کا نعرہ  نہیں لگاؤں گا ۔یہی وجہ ہے کہ اویسی کے بیان کو موہن بھاگوت کے بیان کا جواب سمجھا جا رہا ہے۔بھاگوت نے کہا تھا کہ ملک کی نئی نسل کو حب الوطنی کا سبق دینے کی ضرورت ہے۔وہیں،بیان پر اٹھےوبال کے بعد بھی اویسی اپنے بیان پر قائم ہیں ۔اویسی کی دلیل ہے کہ ہمارے آئین میں ایسا کہیں نہیں لکھا ہے کہ  حب الوطنی کے لئے اس طرح کی نعرے بازی کی جائے۔ادھرالہ آباد ہائی کورٹ میں اویسی کے خلاف دفعہ ایک سو چوبیس کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔اس طرح کی متنازعہ بیان بازی پر کئی طرح کے سوال اٹھ رہے ہیں۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس طرح کی بیان بازی آخر کیوں؟ کیا اویسی کے بیان سے  بھڑکے گا دیش دروہ۔دیش بھکتی کا تنازعہ؟اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس طرح کی بیان بازی ملک دشمن یا دوست؟

Monday 14 March 2016

قومی ایکتا یا انتشار؟

Ghulam Nabi Azad's remarks on RSS and ISIS

کانگریس کے سنیئر لیڈر غلام نبی آزاد نے  جمیعت علما ہند کی ایکتا کانفرنس میں آر ایس ایس پر نشانہ سادھا۔آزاد نے آر ایس ایس  کا موازنہ آئی ایس یعنی داعش سے کردیا۔پھر کیا تھا۔جمیعت کی کانفرنس کا پیغام اپنی جگہ ۔ساری سرخیاں آزاد کے اس بیان نے بٹور لیں۔آزاد کے اس بیان پر پارلیمنٹ  میں بھی خوب ہنگامہ ہوا۔اس اشو پر جہاں بی جے پی  نے کانگریس کو دہشتگردوں کی حامی بتا  دیا ۔تو  وہیں  غلام نبی آزاد نے انکے بیان کو توڑ۔مروڑ کر پیش کرنے کا الزام لگایا۔ راجیہ سبھا میں  بی جے پی پوری طرح سے کانگریس کو گھیرنے کے موڈ میں نظر آئی۔  مرکزی وزیر مختارعباس نقوی نے کہا کہ آزاد کے بیان سے ملک میں بےچینی بڑھی ہے۔ اسلئے آزاد اور کانگریس معافی مانگے۔اس  معاملے پر غلام نبی آزاد کی طرف سے بھی وضاحت پیش کی گئی۔ انھوں نے صفائی میں  اپنا بیان ایوان میں پڑھ کر سنایا۔ انھوں نے کہا کہ بیان کو توڑ۔مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ خیر۔ہندوستان کی سیاست بیان بازی پر ہی ٹکی ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس مقصد کے لئے جمیعت کی ایکتا کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔کیا اس کا مقصد پورا ہوا۔کانفرنس میں مولانا مدنی کی پر زور تقریر ہوئی۔جس میں انہوں نے آپسی اتحاد بھائی چارے اور ایکتا کی بات کی۔لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آزاد کے بیان کے بعد۔مدنی کی تقریر کہیں کھو سی گئی۔سوال یہی ہے کہ قومی ایکتا یا انتشار؟

Friday 11 March 2016

شری شری روی شنکر کا ورلڈ کلچر فیسٹول

Mega Show

      کافی تو تو میں میں  اور تذبذب کے بعد  آر ٹ آف لیونگ    کلچر پروگرام شروع ہوا۔  وزیر اعظم نریندر مودی نے  اس عالمی کلچر فیسٹول کا افتتاح کیا ۔ اس میگا شو میں   ایک سو پچپن ممالک کے ڈیلی گیٹس      شامل ہونگے اور دنیا بھر کے چھتیس ہزار فنکار اپنے فن کا جادو جگائیں گے ۔ شری شری روی شنکر کی قیادت میں  آرٹ آف لیونگ عالمی کلچر فیسٹول کا آغاز ہوگیا۔ فیسٹول کی شروعات کافی تام جھام  کے ساتھ ہوئی اس سہ روزہ میگا ایونٹ میں ایک سو پچپن ممالک کے پینتیس لاکھ   لوگ  شامل ہو  نگےن ہیں وزیر اعظم نریندر مودی  اس فیسٹول میں بہ نفس نفیس  شامل ہوئے۔  اور کلچر فیسٹول کا افتتاح کیا۔ اس پروگرام  میں ملک و بیرون ملک کی کئی ہستیاں  شامل ہونگیں  اور فن و ثقافت کا بہترین مظاہرہ کیا جائگا ۔ اس لئےاس پروگرام  کے لیے سیکورٹی کے سخت  انتظامات کیے گئے ہیں ۔  در اصل آرٹ آ  ف لیونگ فاؤنڈیشن کے ذریعہ فوری   پچیس لاکھ جرمانہ ادا کرنے اور بقیہ رقم ب تین ماہ کے اندر دینے  کی بات پر   یہ معاملہ ختم ہوا تاہم  این جی ٹی کے فیصلے پر سوال اب بھی اٹھا ئےجا رہے ہیں ۔ اگر  اس  پروگرام کے  پس منظر پر  میں جائیں تو ۔ پہلے  تو   جمنا کنارے  ہونے والے اس میگا شو   کو ماحولیات کے لیے خطرہ  بتایا گیا  اور این جی ٹی نے معاوضہ کے طور پر پانچ کروڑ روپئے کا جرمانہ لگا دیا ۔ یہی نہیں کہا کہ جرمانہ نہیں تو شو نہیں۔این جی ڈی کی وارننگ پر شری شری روی شنکر  برہم ہوگئے اور کہا کہ جیل جائیں گے  مگر جرمانہ نہیں دینگے ۔ جب عدالت سے بھی راحت نہیں ملی تو   اے او ایل نے جرمانہ کی رقم قسطوں میں دینے کی بات کی اور بات بن گئی۔یہ ورلڈ کلچر فیسٹول آرٹ آف لیونگ کے پینتیس سال مکمل ہونے پرمنعقد کیا گیا ہے۔پروگرام کی سیکورٹی کے لئے آٹھ ہزار سے زائد اہلکار تعینات ہیں۔جن میں فوجی دستے اور نیم فوجی دستے،انکے علاوہ این ایس جی کمانڈو شامل ہیں۔اتنی بڑی تعداد میں موجود پولیس اور سیکورٹی عملے پر بھی اپوزیشن اور سیاسی و سماجی تنظیموں نے سوال اٹھائے۔کہ شری شری نے  فوج اور پولیس کا غلط استعمال کیا  ہے۔تو وہیں شروع شروع میں جمنا کنارے بسے کسانوں نے  بھی پروگرام  پر ناراضگی ظاہر کی۔یعنی اس میگا شو پر کئی طرح کے سوال اٹھے۔لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماحولیات کے لئے اس طرح کے پروگرام نقصاندہ ہیں، یہ بحث اپنی جگہ ہے۔لیکن اس طرح کے پروگراموں سے ملک سے جو پیغام جا رہا ہے۔اس کے کتنے فوائد اور دور رس نتائج ہوں گے۔اس پر بھی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے؟

Thursday 10 March 2016

عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر معاملہ

Ishrat Jahan & Politics

عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر معاملے پر پھر ایک بار سیاست تیز ہوگئی ہے۔اس بار  مرکزی سرکار اور کانگریس آمنے سامنے ہیں۔دراصل  عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر معاملہ  ڈیوڈ ہیڈلی کے انکشاف کے بعد پھر سرخیوں میں آگیا ہے۔بارہ سال پرانے اس معاملے میں اس  وقت نیا موڑ آگیا ۔جب یو پی اے حکومت میں ہوم سکریٹری رہے جی کے پلئی نے الزام لگایا کہ سابق وزیر داخلہ چدمبرم نے انہیں درکنار کر۔حلف نامہ بدلوایا تھا۔پچھلے دنوں اس معاملے پر سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم کے ذریعہ حلف نامہ بدلوانے  کا معاملہ خوب چرچا میں رہا۔تو وہیں اب یہ معاملہ پارلیمنٹ میں بھی گونجا۔پارلیمنٹ میں عشرت معاملے پر مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بیان دیا۔راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ ڈیوڈ ہیڈلی نے  عشرت جہاں کی سچائی بتائی تھی۔عشرت جہاں کے دہشت گردوں سے تعلقات تھے۔وہیں عشرت معاملے کو لیکر راج ناتھ سنگھ نے کانگریس اور یو پی اے سرکار پر بھی نشانہ سادھا۔انہوں نے کہا کہ پچھلی یو پی اے سرکار نے عشرت کی حقیقت چھپائی تھی۔راج ناتھ سنگھ نے اپنے بیان میں کہا کہ یو پی اے سرکار نے  اس وقت کی گجرات سرکار اور مودی کو پھنسانے کی کوشش  کی تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ عشرت معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ آج ہندوستان سمیت پوری دنیا دہشت گردی سے جوجھ رہی ہے۔ایسے میں دہشت گردی  پر سیاست نہیں ہونی چاہیئے۔خیرعشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر معاملہ  کی بازگشت ایک مرتبہ پھر سیاسی گلیاروں میں     تیز ہو  گئی  ہے۔ اس معاملے پر   بی جے پی اور کانگریس  ایک دو سرے  سے دست و گریباں ہیں۔ پارلیمنٹ کے  اندر  ہی نہیں باہر بھی  بی جے پی  جار حانہ موڈ  میں ہے۔وہیں   کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ عشرت  کا معاملہ اٹھا کر  بی جے پی اصل معاملے سے پہلو تہی کرنا چاہتی ہے ۔ان سب سے ہٹ کر۔    عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر معاملے  پر حکومت اور اپوزیشن ۔خواہ کچھ بھی کہیں۔ لیکن  حقیقت  یہ ہے کہ   یہ معاملہ سیاست کا   ایسا اکھاڑہ بن گیا ہے  جہاں  کوئی بھی پہلوان   اپنا داؤ آزمانے سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ  کیا صرف سیاسی ایشو بن کر رہ گیا ہے عشرت  جہاں معاملہ؟ 

Wednesday 9 March 2016

دھرم شالا میں کرکٹ کو شکست؟

Match Shifted To Kolkata

ہند۔پاک کرکٹ  میچ پرسیاسی تماشا ہوا۔یہ تماشا بھی  کرکٹ کے کسی میچ کی طرح ہی انسرٹنٹی سے بھرا رہا۔بالآخرمیچ اس میں بھی  کرکٹ کی ہوئی۔آئی سی سی نے میچ کو دھرم شالا سے کولکاتا شیفٹ کرکے ماسٹر اٹروک مارکرہند۔پاک میچ کو سنکٹ سے نکالا۔۔یہ کرکٹ کے کھیل سے جڑا پہلو ہے۔ہماچل پردیش حکومت کی سکیورٹی فراہمی کو لے کرقلا بازیاں اورپاکستان کا طرز عمل بھی پورے معاملے کوکیٹلائز کرنے والارہا۔سوال یہ ہے کہ دھرم شالا میچ  پرہوئے اس پورے سیاسی  تماشے میں آخرکس کوکیا ملا ؟ ہندوستان میں کھیلوں میں  کرکٹ کو اول مقام حاصل ہے۔اور جب بات ہند پاک کرکٹ میچ کی ہو ۔تو بات۔ کھیل اور   شوق سے بڑھ کر  جذبات تک  پہنچ جاتی ہے۔ٹی ٹونٹی عالمی کپ کی میزبانی اس   بار ہندوستان ہی کر رہا ہے ۔اور ہندوستان کی کرکٹ ٹیم اس بار عالمی کپ جیتنے کے لئے سب سے بڑی دعویدار بھی مانی جا رہی ہے۔۱۹ مارچ کو ٹیم انڈیا اور پاکستان کی ٹیم آمنے سامنے ہوں گی۔لوگوں کو اس میچ کا بے صبری سے انتظار ہے۔لیکن۔رنگ میں بھنگ اس وقت پڑ گیا ۔جب ہماچل پردیش حکومت نے یہ کہہ کر دھرم شالہ میں میچ کے انعقاد پر سوال اٹھائے۔کہ اگر دھرم شالہ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم میچ کھیلے گی۔ تو یہاں کے سابق فوجیوں کے جذبات مجروح ہوں گے۔پھر کیا تھا۔دھرم شالہ میں میچ کے انعقاد کو لیکر سیاست تیز ہوگئی۔پاکستان کو اپنے کھیلاڑیوں کے تحفظ کے لئے دو ممبران پر مشتمل ایک ٹیم بھی دھرم شالہ بھیجنی پڑی۔لیکن ۔ان سب کے بیچ۔پی سی بی نے دھرم شالہ میں سیکورٹی وجوہات کو لیکر۔دھرم شالہ میں میچ کھیلنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی دوسرے مقام پر میچ کھیل سکتے ہیں۔پر دھرم شالہ میں نہیں۔ایسے میں بی سیسی آئی اور آئی سی سی حرکت میں آئی ۔اور میچ کو کولکاتا کے ایڈن گارڈن شفٹ کر دیا گیا۔خیر۔اب یہ میچ کولکاتا میں کھیلا جائے گا۔اب ۔میچ تو کھیلا جائے گا۔لیکن  ہند پاک کرکٹ پر ہونے والی سیاست سے کرکٹ ہار گیا۔واضح رہے کہ اس پہلے بھی ہند پاک میچ کو لیکر ہندوستان میں اس طرح کے تنازعے ہوتے رہے ہیں۔۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہند پاک کرکٹ پر ہی سیاست کیوں ہوتی ہے؟کیا  کھیل پر ہونے والی سیاست سے دونوں ممالک کے تعلقات پر اثر نہیں پڑے گا۔اور سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر کھیل کا ماحول اچھا کیا جائے۔تو کیا کھیل کے بہانے ہی دونوں ہمسایا  قریب آسکتے ہیں۔

Tuesday 8 March 2016

رپورٹ میں ریاستی سرکار کو کلین چٹ؟

Muzaffarnagar riots

مظفر نگر میں ہوئے فرقہ ورانہ فساد کی رپورٹ یوپی کے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے اسمبلی میں پیش کی۔۲۰۱۳کے ان فسادات کی رپورٹ جسٹس ویشنو سہائے کمیٹی نے تیار کی ہے۔ان فسادات میں ۶۰  سے زائد لوگ مارے گئے تھے۔جبکہ ہزاروں لوگ نقل مکانی  کے لئے مجبور ہوگئے تھے۔کروڑوں روپیوں کا نقصان ہوا تھا۔اس رپورٹ  کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں موجودہ سماج وادی پارٹی سرکار کو کلین چٹ دی گئ ہے جبکہ اس وقت کے مظفر نگر کے پولیس انتظامیہ کو فساد کے لئے ذمہ دار ٹھرایا گیا ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھڑکاؤ بیانوں کے لئے کسی کوسیدھے طور پر  ذمہ دار  نہیں ٹھیرایا جا سکتا۔مزے کی بات تو یہ ہے  کہ اس وقت ہونے والی پنچیتوں میں جٹنے والی بھیڑ کا اندازہ  لگانے میں بھی انٹیلی جنس  ناکام رہی ہے۔واضح رہے کہ تقریبا چھ ماہ قبل یہ رپورٹ  ریاست کے گورنر رام نائک کو سونپی گئی تھی۔اور اب اس رپورٹ کو منظر عام پر لایا گیا ہے۔ادھر بی جے پی اس رپورٹ کو پہلے ہی یہ کہہ کر خارج کر چکی ہے کہ رپورٹ سیاست سے متاثر ہے۔اور یہ رپورٹ  موجودہ سماج وادی سرکار کے اشارے پر مبنی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ریاستی سرکار کو کلین چٹ دی گئی ہے۔سوال اس بات پر اٹھتا ہے کہ جب مقامی انتظامیہ فساد کے لئے ذمہ دار ہے۔تو سرکار کو کلین چٹ کیوں؟کانگریس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یوپی میں ایس پی بی جے پی کی نورا کشتی چل رہی ہے۔خیر۔یہ تو صاف ظاہر ہے اور حقیقت بھی ہے۔کہ سیاسی پارٹیوں کو عوام سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ہر سیاسی جماعت۔صرف سیاست ہی کرتی ہے۔


Monday 7 March 2016

کیا خواتین کو مل رہے ہیں انکے حقوق؟

Happy Women's Day

آج عالمی یوم خواتین منایا جا رہا ہے۔دنیا بھر میں خواتین کی فلاح و بہبود کے  بڑے بڑے دعوی اور نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ہندوستان میں بھی کئی جلسے جلوس کئے گئے ۔اور خواتین کے تئیں ہمدردی  ظاہر کی گئی۔لیکن اس بیچ  سوال یہی اٹھتا ہے کہ اتنے برسوں میں  خواتین کی حالت کتنی بدلی ہے؟سوال یہ بھی ہے کہ کئی رسم و رواج ۔مذہبی عقیدت اور آزادی کے اتنے سال بعد بھی کیا واقعی خواتین اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتی ہیں؟کیا آج کے دور میں عورت کو طاقتور اور خود کفیل بنانے کے لئے پرانی رسومات کو توڑنا ضروری ہے؟ایسے ہی کئی سوال ہیں ۔جو آج کی خاتون کے مسائل کو لیکر بار بار ذہنوں میں اٹھتے ہیں۔ہندوستان  ایک ایسا ملک ہے۔جہاں عورت کو دیوی کا درجہ حاصل ہے۔لیکن جب عورت کے حقوق کی بات ہوتی ہے۔تو معاملہ صفر ہی نظر آتا ہے۔حالاں کہ ملک میں خواتین کے حقوق اور انکو خود کفیل بنانے کی باتیں کی جاتی ہیں۔لیکن عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا ہے۔پچھلے دنوں صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی اور نائب  صدر جمہوریہ حامد انصاری نے   خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی تمام پارٹیاں خواتین کی حصہ داری بڑھائیں۔انہوں نے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں خواتین کی تعداد ایک تہائی کرنے والے بل کو منظور کرانے پر زور دیا۔نائب  صدر جمہوریہ حامد انصاری نے  کہا کہ ۲۰۱۴میں ہوئے انتخابات کے بعد بارہ فیصد خواتین ممبران چن کر آئی ہیں۔جبکہ کہ ریاستی اسمبلیوں میں صرف نو فیصد  اور ودھان پریشد میں چھ فیصد خواتین کی حصہ داری ہے۔یہ حصہ داری مردوں کے مقابلے کافی کم ہے۔انہوں نے خواتین کی اس تعداد پر  افسوس بھی  ظاہر کیا ۔نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ملک میں ۴۷فیصد خواتین ووٹرس ہیں ۔لیکن  سیاست میں انکی حصہ داری کم ہے۔نائب صدر جمہوریہ  حامد انصاری نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کو لوک سبھا۔راجیہ سبھا  اور ریاستی اسمبلیوں میں تیتیس فیصد ریزرویشن کو تمام پارٹیاں قطیئت دیں۔اور جلد سے جلد تمام پارٹیوں کو اس پر ساتھ آنے کی ضرورت ہے۔تو وہیں وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کی   نمائندہ خاتون   کانفرنس سے خطاب کیا۔وزیر اعظم  نے کہا کہ خواتین  آل راؤنڈر ہوتی ہیں۔وزیر اعظم  نے کہا کہ انتظامیہ میں بدلاؤ سے کچھ فرق  نہیں  پڑے گا۔جب تک خواتین خود کو نہیں بدلیں گی۔حالاں کہ وزیر اعظم  خواتین ریزرویشن پر کچھ نہیں بولے۔جب کی اس سے پہلے صدر جمہوریہ پرنب مکھر جی اور نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری اس کی پرزور وکالت کر چکے ہیں۔اب سوال یہ اٹھتا ہے۔کہ خواتین کے حقوق کی پر زور وکالت کرنے والے وزیر اعظم جی۔آخر۔خواتین کے ریزرویشن معاملے پر خاموش کیوں ہیں؟

Sunday 6 March 2016

KASHMIR CALLING

گر فردوس بروئے زمیں است
ہمیں استو ہمیں استو ہمیں است

Friday 4 March 2016

جیل سے رہا ئی کے بعد کنہیا کے تیور اور سخت

Kanhaiya Kumar Returns To JNU





جیل سے رہا ئی کے بعد کنہیا کے تیور اور سخت

Kanhaiya Kumar Returns To JNU

کنہیا کمار۔راتوں رات ملک کا جانا مانا  چہرا بن گئے ہیں۔جی ہاں ۔ہم بات کر رہے ہیں ۔جے این یو ایس یو لیڈر کنہیا کمار کی۔کنہیا پرجے این یو کیمپس میں ملک مخالف  تقریر اور نعرے بازی کرنے کا الزام ہے۔کنہیا پر اس حرکت کے لئے ملک سے غداری کا معاملہ بھی بنا۔اور وہ جیل بھی گیا۔لیکن ۔کنہیا نے سب کو اس وقت چونکا دیا۔جب وہ جیل سے  عبوری ضمانت ملنے کے بعد واپس جے این یو کیمپس آئے۔تو انہوں نے اپنی بات کی شروعات وہیں سے کی۔جہاں وہ اپنی تقریر چھوڑ آئے تھے۔جے این یو کیمپس آتے ہی ۔کنہیا کمار نے آزادی کی بات کی۔لیکن اس بار کنہیا ۔صرف جے این یو لیڈر نہیں ۔بلکہ ایک عوامی لیڈر کی طرح بول رہے تھے۔اس بار بھی  کنہیا نے  وہیں چوٹ کی۔جہاں انہوں نے پہلے وار کیا تھا۔یعنی مودی سرکار۔آر ایس ایس اور سنگھ۔انہوں نے فرضی ٹوئٹ  کرنے والے  سنگھیوں سے آزادی  ملنے کے نعرے لگائے۔کنہیا نے اپنی تقریر میں آگے کہا کہ ہم ہندوستان سے  آزادی نہیں مانگ  رہے ہیں۔ہم  ہندوستان میں آزادی مانگ رہے ہیں۔کنہیا نے نعرے لگاتے ہوئے کہا کہ ہم  نےذات پات۔استحصال۔حق تلفی۔نا برابری اور جاگیرداری سے آزادی کے نعرے لگائے۔کنہیا نے غریبی ۔بے روزگاری  سے آزادی کے نعرے لگائے۔خیر۔جیل سے واپس آنے کے بعد کنہیا بدلے بدلے نظر آ رہے ہیں۔لیکن انکے تیور وہی ہیں،جو جیل جانے وسے پہلے تھے۔کنہیا کی اسپیچ  سے عام آدمی کے ذہن میں کئی سوال کھڑے ہو رہے ہیں۔کہ ملک میں  بولنے اور کہنے میں ڈر کے ماحول میں ۔جے این یو معاملے کے اتنا بڑھنے کے پیچھے کیا وجہ ہو سکتی ہے؟کنہیا ۔پر الگ الگ بیانات آرہے ہیں۔کچھ کا کہنا ہے کہ وہ سستی شہرت کے لئے ایسا کر رہے ہیں۔کچھ کا کہنا ہے کہ  کنہیا انڈین پالٹکس کا لیٹسٹ اسٹارٹ اپ  ہے۔خیر۔آج کنہیا نے پریس کانفرنس کی اور اپنے ہمدردوں اور چاہنے والوں کا شکریا ادا کیا۔لیکن کنہیا کی آزادی کی مانگ کئی سوال کھڑے کر رہی ہے۔کیا کنہیا  بی جےپی اور آر ایس ایس کی دین ہیں؟یا کیا گرتے سیاسی معیار کا نتیجہ ہے کنہیا کمار؟


Thursday 3 March 2016

 کون کس پر بھاری پڑا؟

MODI VS RAHUL

کل راہل گاندھی اور آج مودی۔جی ہاں۔ ہم بات کر رہے ہیں۔پارلیمنٹ میں راہل بنام مودی کی۔لوک سبھا میں بدھ کے روز ر  باری راہل گاندھی کی تھی۔اوروہ  بولے ، بہت بولے۔راہل گاندھی کے پورے خطاب کا  مرکز موجودہ سیاسی اتھل پتھل کے محرکات،جے این یو تنازعہ اورروہت خودکشی  معاملے پر حکومت کا طرز عمل رہا۔اس کے علاوہ مودی حکومت کی پاکستان سے متعلق خارجہ پالیسی پر راہل گاندھی نے پی ایم مودی کو آڑے ہاتھوں لیا۔آج مودی  نے  راہل گاندھی پر پلٹ وار کیا۔اور راہل گاندھی  کے تقریبا ہر سوال کا جواب دیا۔اس بیچ مودی جی۔راہل گاندھی پر طنز کرنا بھی نہیں بھولے۔مودی نے کہا کہ کچھ لوگوں کی عمر بڑھتی ہے پر سمجھ نہیں۔مودی نے کانگریس پارٹی اور اسکے دور اقتدار پر بھی نشانہ سادھا۔انہوں نے کہا کہ غریبی کی گہری جڑیں کانگریس نے ہی  جمائی ہیں۔اور پچھلے ساٹھ سال میں  کانگریس کا کام صفر رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت کو اب  وہ سارے کام کرنے پڑ رہے ہیں۔خیر۔اپنی اس تقریر کے دوران  وزیر اعظم نریندر مودی نے اپوزیشن اور خاص کر کانگریس سے ایوان کو چلنے دینے کی اپیل کی۔وزیر اعظم نے کہا کہ ایوان کی کاروائی متاثر ہونے سے عوام اور خاص کر اپوزیشن کا ہی نقصان ہے۔انہوں نے کہا کہ عوان سے جڑے کئی اہم بل پارلیمنٹ میں لٹکے ہوئے ہیں۔ان کا پاس ہونا اور ان پر بحث ہونا بہت ضروری ہے۔سوال یہ نہیں ہے کہ کون کس پر بھاری پڑا؟اہم یہ ہے کہ ایوان کی کاروائی بہتر ڈھنگ سے نہ ہونے سے نقصان کس کا ہو رہا ہے؟کیا یہ ذمہ داری سرکار کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی نہیں بنتی ہے کہ وہ ایوان کی کاروائی کو چلنے دے۔اور عوام کے مفاد کے لئے خود قدم بڑھائے۔کیا اپوزیشن کی ضد سے عوام کا حق نہیں مارا جا رہا ہے؟کیا آج سیاست سے ہٹ کر ۔عوام کے مسائل کے لئے سب کو سوچنے اور اس پر متفق ہونے کی ضرورت  نہیں ہے۔وقت کی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ کا منظر بدلے۔اور سرکار بھی اپنی نیت صاف رکھتے ہوئے۔اپوزیشن کو پورے اعتماد میں لے۔تاکہ عام آدمی کے خواب بھی حقیقت میں بدل سکیں ۔


Wednesday 2 March 2016

اس طرح کے اشتعال انگیز بیانوں  سے کس کو فائدہ؟

Ram Shankar Katheria's hate speech

کیا صرف سیاسی ایشو بن کر رہ گیا ہے عشرت معاملہ؟

Ishrat Jahan Cace & Politics 

عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر معاملے پر پھر ایک بار سیاست تیز ہوگئی ہے۔اس بار  مرکزی سرکار اور کانگریس آمنے سامنے ہیں۔دراصل  عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر معاملہ  ڈیوڈ ہیڈلی کے انکشاف کے بعد پھر سرخیوں میں آگیا ہے۔بارہ سال پرانے اس معاملے میں اس  وقت نیا موڑ آگیا ۔جب یو پی اے حکومت میں ہوم سکریٹری رہے جی کے پلئی نے الزام لگایا کہ سابق وزیر داخلہ چدمبرم نے انہیں درکنار کر۔حلف نامہ بدلوایا تھا۔اسی بیچ ایک سابق افسرآر وی ایس  منی نے بھی  بیان دیا کہ حلف نامہ بدلنےکے لئے ان پر دباؤ بنایا گیا۔وہیں کانگریس نے ان دعوؤں پر سوال اٹھائے ہیں۔چدمبرم نے پلئی کی نیت پر سوال اٹھائے ہیں۔چدمبرم نے مانا کہ حلف نامہ بدلا گیا تھا۔اور یہ اس لئے کیا گیا تھا کیوں کہ یہ بھرم پھیلانے والا تھا۔اور ایسا کسی کو بچانے کے لئے نہیں کیا گیا۔خیرعشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر معاملہ  کی بازگشت ایک مرتبہ پھر سیاسی گلیاروں میں     تیز ہو  گئی  ہے۔ اس معاملے پر   بی جے پی اور کانگریس  ایک دو سرے  سے دست و گریباں ہیں۔  عشرت جہاں معاملے کی  گونج آج پارلیمنٹ میں بھی سنائی دی اور اس معاملے کو لیکر دونوں ایوانوں میں  شور شرابہ ہوا۔ خاص بات یہ رہی کہ عشرت جہاں معاملے پر پارلیمنٹ میں بر سراقتدار جماعت کے تیورسخت ہیں اور وہ کانگریس کو زیر کرنے کی کوشش میں  پیش پیش ہے۔     داخلہ سکریٹری رہے جی کے پلئی اور   وزارت داخلہ میں انڈر سکریٹری کی خدمات انجام دے چکے آر  وی ا یس منی کے   بیانات کا حوالہ  دیا جا رہا ہے جس میں حلف نامہ بدلے جانے کے لیے پی چدمبرم کے ذریعہ دباؤ     بنانے کی بات  کہی گئی ہے ۔ پارلیمنٹ کے  اندر  ہی نہیں باہر بھی  بی جے پی  جار حانہ موڈ  میں ہے۔تو   دوسری  جانب پی چدمبرم کی حمایت میں کانگریس صدر سونیا گاندھی آگے آ ئی ہیں   ۔کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ عشرت  کا معاملہ اٹھا کر  بی جے پی اصل معاملے سے پہلو تہی کرنا چاہتی ہے ۔ان سب سے ہٹ کر۔    عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر معاملے  پر حکومت اور اپوزیشن ۔خواہ کچھ بھی کہیں۔ لیکن  حقیقت  یہ ہے کہ   یہ معاملہ سیاست کا   ایسا اکھاڑہ بن گیا ہے  جہاں  کوئی بھی پہلوان   اپنا داؤ آزمانے سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ  کیا صرف سیاسی ایشو بن کر رہ گیا ہے عشرت  جہاں معاملہ؟

Tuesday 1 March 2016

اس طرح کے اشتعال انگیز بیانوں  سے کس کو فائدہ؟

Ram Shankar Katheria's hate speech

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔ جہاں ہر شخص کو اپنی بات کہنے کا  بنیادی حق حاصل ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کی بات سے کسی دوسرے شہری کا دل دکھے۔اور اس کے جذبات مجروح ہوں۔ملک کے آئین نے ہر کسی کو اپنی بات کہنے کا حق ضرور دیا ہے لیکن آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے۔یعنی آپ کی بات سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔آپ کے قول و فعل سے کسی کو زک نہ پہنچے۔آپ جب بھی بات کہیں تو ہزار بار اس پر غور کرلیں۔تاکہ آپ کی بات پر کوئی تنازعہ نہ کھڑا ہو جائے۔اور اس سے ملک کے بھائی چارے۔امن  و امان  اور اتحاد کو خطرہ لاحق ہو۔حالیہ دنوں  میں ملک کی سیاست پر اگر نظر ڈالیں۔تو  کچھ سیاسی لوگ محض اپنی سیاسی روٹی سینکنے کے لئے ۔محض اپنے ایجنڈے کو تھوپنے کے لئے اور یا یوں کہیں کہ محض سرخیوں میں رہنے کے لئے ایسے بیان دے رہے ہیں ۔جس نے تمام اخلاقی حدوں کو پار کر دیا دیاہے۔ان سیاسی لیڈران کے بیانات سے انسانیت کا سر شرم سے جھک  گیا ہے۔ایسے بیانوں کی ان دنوں ایک جھڑی سی لگی ہوئی ہے۔خاص کر مرکزی حکومت کے کئی وزرا اپنے بیانوں کو لیکر سرخیوں میں ہیں۔کبھی ساکشی مہاراج تو کبھی وی کے سنگھ اور  اب اس فہرست میں نام جڑا ہے ۔ رام شنکر کھٹیریا کا۔کھٹیریا نے آگرہ میں وی ایچ پی کے ایک پروگرام میں  مسلمانوں کو لیکر متنازعہ بیان دے ڈالا۔کھٹیریا نے  اپنے بیان میں ہندؤں سے اپنی طاقت  دکھانے  کے لئے للکارا۔انہوں نے کہا کہ ہندو سماج کے ساتھ جو سازش ہو رہی ہے ۔اس سے بیدار ہو کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔کٹھیریا نے مسلمانوں سے بدلا لینے کی بات کہی۔حالاں کہ کھٹیریا  نے بعد میں صفائی پیش کی ہے۔کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے۔ کھٹیریا   نے کہا کہ  انہوں نے صرف اتنا کہا کہ ہندوؤں کو اپنی حفاظت کرنی چاہئے۔  کٹھیریا  کی اشتعال انگیز تقریر   کے خلاف پارلیمنٹ میں زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی ۔ اپوزیشن کا مطالبہ  کٹھیریا کے  استعفی کا  ہے۔خیر۔یوپی  میں چنا نزیک ہے۔  ایسے میں اس طرح کے بیانات کے کئی معنی نکالے جا رہے ہیں۔لیکن سیاست سے اوپر اٹھ کر۔اگر ہمارے رہنما اخلاقی بنیادوں پر بھی دھیان دیں اور غور کریں تو شاید اس طرح کی غلطی نہ ہو ۔جس سے کسی کا دل دکھے۔اسی لئے کہا گیا ہے کہ پہلے تولو پھر بولو۔۔۔