محبوبہ مفتی ،عوام کی امیدوں پر کھرا اتریں گی؟
Mehbooba Mufti to be Jammu and Kashmir's first woman CM
محبوبہ مفتی کی شکل میں ریاست جموں و کشمیر کو پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ملنے جا رہی ہیں۔جمعرات کے روز سرینگر میں منعقد ہوئی پی ڈی پی لیجسلیچر کی میٹنگ میں محبوبہ مفتی کو پارٹی کا لیڈر چنا گیا۔یعنی ۔ڈھائی ماہ کے تذبذب کے بعد۔اب ریاست کو نیا وزیر اعلیٰ ملنے جا رہا ہے۔بدھ کے روز دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد۔محبوبہ مفتی نے کہا تھا کہ ملاقات اچھی اور مثبت رہی۔اس ملاقات کے بعد ہی لگ رہا تھا کہ جموں و کشمیر میں حکومت سازی کو لیکر راہ ہموار ہوگئی ہے۔خیر۔اب محبوبہ مفتی ریاست کی وزیر اعلیٰ بن رہیں ہیں۔ایسے میں وہ ریاست کی عوام کی توقعات پر کتنی کھری اترتی ہیں ۔یہ تو وقت ہی بتائے گا۔لیکن،جموں و کشمیر میں خواتین کے بھی بہت سے مسائل ہیں۔ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا محبوبہ جی ۔ریاستی خواتین کے خواب پورے کر پائیں گی؟خیر،یہ لمبی بحیث ہے۔اور یہ تو میدان میں اتر کر ہی وہ ثابت کریں گی۔لیکن اب یہ تو طے ہے کہ محبوبہ مفتی کشمیر کی پہلی خاتون وزیراعلی ہوں گی۔ یہ فیصلہ قریب دس ہفتوں کی سیاسی غیریقنی کے بعد سری نگر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے اہم اجلاس میں جمعرات کی شام کو ہوا۔ڈھائی ماہ سے محبوبہ نے یہ فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ ان کا اصرار تھا کہ ان کے والد مفتی محمد سعید نے جن بنیادوں پر بی جے پی کے ساتھ شراکت اقتدار کا معاہدہ کیا تھا، ان پر عمل درآمد کے لیے انہیں حکومت ہند سے واضح اور دو ٹوک یقین دہانی کرائی جائے۔کئی ہفتوں کی کوششوں کے بعد 22 مارچ کو محبوبہ مفتی نے دہلی میں وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ مختصر ملاقات کی۔اور اس کے بعد ہی محبوبہ کی وزیر اعلیٰ پر چرچا تیز ہوگئی۔خیر۔اب بات سکے کے دوسرے پہلو کی کر لی جائے۔محبوبہ کو وزیراعلی بنتے ہی دو بڑے سوالوں کا سامنا ہوگا۔ ایک یہ کہ جن مطالبات کو منوانے کی شرائط پر وہ حلف برداری میں تاخیر کررہی تھیں، کیا نریندر مودی نے وہ تسلیم کر لیے ہیں۔ ان مطالبات میں کشمیر سے سخت ترین فوجی قوانین کا خاتمہ، پن بجلی منصوبوں پر ریاست کے مالکانہ حقوق کی بحالی، علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات اور آبادی والے علاقوں میں فوجی تنصیبات کو ہٹانے اور 2014 میں آئے سیلاب کے متاثرین کے لیے مالی امداد جیسے معاملات کا ذکر تھا۔ان پر عوام جواب مانگ سکتے ہیں۔خیر،یہ تو سیاسی عمل ہے اور جو بھی ہو، اقتدار میں برقرار رہنا دونوں کی سیاسی مجبوری تھی۔ کشمیر میں چھہ برس بعد انتخابات ہوتے ہیں۔ 2020 کے دسمبر تک ابھی پانچ سال کا عرصہ ہے۔ کشمیر کی سیاست میں یہ ایک طویل مدت ہوتی ہے۔ایسے میں محبوبہ اپنے کو کیسے ثابت کرتی ہیں۔یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا
No comments:
Post a Comment