اس طرح کے اشتعال انگیز بیانوں سے کس کو فائدہ؟
Ram Shankar Katheria's hate speech
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔ جہاں ہر شخص کو اپنی بات کہنے کا بنیادی حق حاصل ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کی بات سے کسی دوسرے شہری کا دل دکھے۔اور اس کے جذبات مجروح ہوں۔ملک کے آئین نے ہر کسی کو اپنی بات کہنے کا حق ضرور دیا ہے لیکن آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے۔یعنی آپ کی بات سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔آپ کے قول و فعل سے کسی کو زک نہ پہنچے۔آپ جب بھی بات کہیں تو ہزار بار اس پر غور کرلیں۔تاکہ آپ کی بات پر کوئی تنازعہ نہ کھڑا ہو جائے۔اور اس سے ملک کے بھائی چارے۔امن و امان اور اتحاد کو خطرہ لاحق ہو۔حالیہ دنوں میں ملک کی سیاست پر اگر نظر ڈالیں۔تو کچھ سیاسی لوگ محض اپنی سیاسی روٹی سینکنے کے لئے ۔محض اپنے ایجنڈے کو تھوپنے کے لئے اور یا یوں کہیں کہ محض سرخیوں میں رہنے کے لئے ایسے بیان دے رہے ہیں ۔جس نے تمام اخلاقی حدوں کو پار کر دیا دیاہے۔ان سیاسی لیڈران کے بیانات سے انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ایسے بیانوں کی ان دنوں ایک جھڑی سی لگی ہوئی ہے۔خاص کر مرکزی حکومت کے کئی وزرا اپنے بیانوں کو لیکر سرخیوں میں ہیں۔کبھی ساکشی مہاراج تو کبھی وی کے سنگھ اور اب اس فہرست میں نام جڑا ہے ۔ رام شنکر کھٹیریا کا۔کھٹیریا نے آگرہ میں وی ایچ پی کے ایک پروگرام میں مسلمانوں کو لیکر متنازعہ بیان دے ڈالا۔کھٹیریا نے اپنے بیان میں ہندؤں سے اپنی طاقت دکھانے کے لئے للکارا۔انہوں نے کہا کہ ہندو سماج کے ساتھ جو سازش ہو رہی ہے ۔اس سے بیدار ہو کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔کٹھیریا نے مسلمانوں سے بدلا لینے کی بات کہی۔حالاں کہ کھٹیریا نے بعد میں صفائی پیش کی ہے۔کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے۔ کھٹیریا نے کہا کہ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ ہندوؤں کو اپنی حفاظت کرنی چاہئے۔ کٹھیریا کی اشتعال انگیز تقریر کے خلاف پارلیمنٹ میں زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی ۔ اپوزیشن کا مطالبہ کٹھیریا کے استعفی کا ہے۔خیر۔یوپی میں چنا نزیک ہے۔ ایسے میں اس طرح کے بیانات کے کئی معنی نکالے جا رہے ہیں۔لیکن سیاست سے اوپر اٹھ کر۔اگر ہمارے رہنما اخلاقی بنیادوں پر بھی دھیان دیں اور غور کریں تو شاید اس طرح کی غلطی نہ ہو ۔جس سے کسی کا دل دکھے۔اسی لئے کہا گیا ہے کہ پہلے تولو پھر بولو۔۔۔
No comments:
Post a Comment