اتراکھنڈ کا سیاسی ڈرامہ ہواختم
President's rule in Uttarakhand
آخر کار اتراکھنڈ کا سیاسی ڈرامہ ختم ہوا۔اور ریاست میں وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔شمالی ریاست اتراکھنڈ میں صدر راج نافذ کر دیا گیا ہے۔خیال رہے کہ اتراکھنڈ میں اکثریت ثابت کرنے کے لیے ۲۸ مارچ کی تاریخ رکھی گئی تھی۔لیکن اس سے پہلے ہی اتراکھنڈ میں صدر راج نافذ کر دیا گيا ہے۔اس سے قبل سنیچر کی رات اتراکھنڈ کے سیاسی بحران پر مرکزی کابینہ کی ہنگامی میٹنگ ہوئی تھی جس میں ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے دیر رات صدر کو ریاست میں پیدا ہونے والے سیاسی تعطل سے مطلع کیا تھا۔یاد رہے کہ ریاست میں کانگریس کے نو ممبران اسمبلی کی بغاوت کے بعد وزیر اعلی ہریش راوت کی کانگریس حکومت کو 28 مارچ کو اکثریت ثابت کرنا تھی۔اتراکھنڈ اسمبلی کے کل 70 ممبران اسمبلی میں کانگریس کے 36 ممبران اسمبلی تھے جن میں سے نو باغی ہو چکے ہیں۔ بی جے پی کے 28 ممبران اسمبلی ہیں جن میں سے ایک معطل ہے۔ بی ایس پی کے دو، آزاد امیدوار تین اور ایک رکن اسمبلی اتراکھنڈ کرانتی پارٹی کا ہے۔اس سے پہلے اتوار کو ہی اتراکھنڈ کے وزیر اعلی ہریش راوت نے الزام لگایا تھا کہ بی جے پی مسلسل ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کی دھمکی دے رہی ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ’غرور سے چور مرکز کی حکمراں پارٹی چھوٹی سی سرحدی ریاست میں صدر راج نافذ کرانے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔‘کانگریس نے بی جے پی پر اسمبلی کے اراکین کی خرید و فروخت کا الزام لگاتے ہوئے اسے جمہوریت اور آئین پر حملہ بتایا ہے جبکہ مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے جوابی الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اتراکھنڈ اسمبلی میں جو کچھ ہوا اس سے سیاسی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ جیٹلی نے کہا: ’اتراکھنڈ کسی انتظامی مشینری کے ٹھپ ہوجانے کی حقیقی مثال ہے اور آئینی طور پر جو کچھ بھی غلط ہو سکتا تھا وہ وہاں ہوا ہے۔ آپ کو اکثریت ثابت کرنے کے لیے جو وقت دیا گیا ہے اس وقت کا استعمال لالچ دینے اور رشوت دینے پر استعمال کر رہے ہیں جو کہ آئین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔کانگریس نے پارٹی میں انتشار کے لیے بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے گذشتہ ہفتے ٹویٹ کے ذریعے الزام لگایا تھا کہ ’بہار میں شکست کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ منتخب حکومتوں کو خرید و فروخت کے ذریعے گرانا بی جے پی کا نیا ماڈل بن گیا ہے۔‘راہل نے ٹویٹ کیا کہ ’یہ ہماری جمہوریت اور آئین پر حملہ ہے، پہلے اروناچل اور اب اتراکھنڈ، یہ مودی جی کی بی جے پی کا اصل چہرہ ہے۔خیر۔اب دیکھنا یہ دلچسپ ہوگا کہ ،اتراکھنڈ کی سیاست کا رخ کیا ہوگا؟یا پھر،باغی ارکان کا کیا ہوتا ہے ۔یہ بھی کافی اہم رہے گا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر،سرکار گرانے میں واقعی سیاست کارفرما ہے،یا یہ مرکز کے اشارے پر ہی ہوا ہے؟لیکن مودی حکومت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ انتقامی کاروائیوں سے وہ اپنی مقبولیت نہیں بڑھا سکتی۔ صرف بہترکارکردگی اور مثبت ذہنیت ہی اس کی مقبولیت کی ضامن ہے۔خیر۔اب جلد ہی ، پانچ ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ایسے میں بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی پارٹیاں اتراکھنڈ ایشو کو بھنانے کی کوشش کریں گی۔جہاں کانگریس ، اسے سیاسی بدلے سے تعبیر کر رہی ہے۔تو وہیں بی جے پی اسے انصاف سے تعبیر کر رہی ہے۔ایسے میں اتراکھنڈ کا بحران بھلے ہی تھم گیا ہو،لیکن سیاست ابھی باقی ہے
No comments:
Post a Comment