Tuesday 29 March 2016

عدالت کے فیصلے سے راوت کو ایک اور موقع

HC orders floor test for Rawat govt on March 31

اتراکھنڈ میں نینی تال ہائی کورٹ کے فیصلے نے سارا منظر نامہ بدل دیا ہے۔کورٹ نے صدر راج پر روک لگا دی ہے۔اور اکتیس مارچ کو ایوان میں وزیر اعلیٰ ہریش راوت کو اکثریت ثابت کرنا ہے۔خاص بات یہ ہے کہ باغی ارکان اسمبلی بھی ووٹنگ میں حصہ لے سکیں گے۔ایک جانب جہاں کانگریسی خیمہ عدالت کے فیصلے سے کافی خوش ہے۔تو وہیں بی جے پی خیمے میں اس بات کو لیکر خوشی ہے کہ ووٹنگ میں باغی ارکان بھی حصہ لے سکیں گے۔ےیعنی کل ملا کر  کہا جا سکتا ہے کہ اتراکھنڈ کا بحران ابھی تھما نہیں ہے۔بلکہ سیاسی ڈرامہ ابھی اور دلچسپ ہونے والا ہے۔ایسے میں تمام پارٹیوں کے ارکان اور خاص کر باغی ارکان پر کافی نظریں رہیں گی۔ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ یہ پارٹی کی جیت ہے۔اور عدالت نے وزیر اعلیٰ کی بات مان لی ہے۔ادھر ہریس راوت کی قیادت میں ریاستی کانگریس اکائی پہلے سے زیادہ متحرک ہوگئی ہے۔واضح رہے کہ  سنیچر کےروز ہریش راوت نے گورنر سے ملاقات کی تھی اور اپنے چونتیس ارکان ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔خیر۔اب آئیے ایک نظر اتراکھنڈ کی موجودہ اسمبلی ارکان کی صورتحال پر ڈال لیتے ہیں۔اتراکھنڈ اسمبلی کے کل 70 ممبران اسمبلی میں کانگریس کے 36 ممبران اسمبلی تھے جن میں سے نو باغی ہو چکے ہیں۔ بی جے پی کے 28 ممبران اسمبلی ہیں جن میں سے ایک معطل ہے۔ بی ایس پی کے دو، آزاد امیدوار تین اور ایک رکن اسمبلی اتراکھنڈ کرانتی پارٹی کا ہے۔اس سے پہلے اتوار کو ہی اتراکھنڈ کے وزیر اعلی ہریش راوت نے الزام لگایا تھا کہ بی جے پی مسلسل ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کی دھمکی دے رہی ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ’غرور سے چور مرکز کی حکمراں پارٹی چھوٹی سی سرحدی ریاست میں صدر راج نافذ کرانے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔‘کانگریس نے بی جے پی پر اسمبلی کے اراکین کی خرید و فروخت کا الزام لگاتے ہوئے اسے جمہوریت اور آئین پر حملہ بتایا ہے جبکہ مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے جوابی الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اتراکھنڈ اسمبلی میں جو کچھ ہوا اس سے سیاسی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ جیٹلی نے کہا: ’اتراکھنڈ کسی انتظامی مشینری کے ٹھپ ہوجانے کی حقیقی مثال ہے اور آئینی طور پر جو کچھ بھی غلط ہو سکتا تھا وہ وہاں ہوا ہے۔ آپ کو اکثریت ثابت کرنے کے لیے جو وقت دیا گیا ہے اس وقت کا استعمال لالچ دینے اور رشوت دینے پر استعمال کر رہے ہیں جو کہ  آئین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔کانگریس نے پارٹی میں انتشار کے لیے بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے گذشتہ ہفتے ٹویٹ کے ذریعے الزام لگایا تھا کہ ’بہار میں شکست کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ منتخب حکومتوں کو خرید و فروخت کے ذریعے گرانا بی جے پی کا نیا ماڈل بن گیا ہے۔‘راہل نے ٹویٹ کیا کہ ’یہ ہماری جمہوریت اور آئین پر حملہ ہے، پہلے اروناچل اور اب اتراکھنڈ، یہ مودی جی کی بی جے پی کا اصل چہرہ ہے۔خیر۔اب  دیکھنا یہ دلچسپ ہوگا کہ ،اتراکھنڈ کی سیاست کا رخ کیا ہوگا؟

No comments:

Post a Comment